ویلڈن راجہ یاسر سرفراز۔۔محمد علی عباس

قومیں تعلیم سے بنتی ہیں اور یہ بات ایک تعلیم يافتہ شخص ہی جانتا ہے۔26 دسمبر 2020 اس حوالے سے چکوال کی تاریخ میں ایک اہم ترین دن تھا ،جب وزیر اعظم  پاکستان عمران خان نے صوبائی وزیر براۓ اعلیٰ تعلیم و انفارمیشن ٹیکنالوجی راجہ یاسر سرفراز کی دعوت پر چکوال کا دورہ کر کے ضلع کی پہلی یونیورسٹی، “یونیورسٹی آف چکوال” کا افتتاح کیا۔راجہ یاسر سرفراز نہ صرف خود اعلیٰ تعلیم يافتہ شخصیت ہیں بلکہ ایک ایسے گھرانے سے تعلق بھی رکھتے ہیں جس کی سماجی و سیاسی خدمات ایک تاریخ ہیں ۔ دامنِ قرطاس میں اس طویل موضوع کو یہاں سمونے کی گنجائش نہیں ہے تو اس لیے “یہ کہانی پھر سہی۔”

تقسیم ہند کے بعد صوبائی اسمبلی میں پنجاب کے بڑے بڑے جاگیردار، وڈیرے اور سجادہ نشین بیٹھے تھے، جب حکومت پنجاب نے زمین عطیہ کرنے کی شرط پر سرکاری کالج دینے کا اعلان کیا’ تو اس وقت پنجاب کے بڑے جاگیرداروں کی بجائے ایک چھوٹے سے علاقے چکوال کا ممبر صوبائی اسمبلی بول پڑا، جس کی آبائی زمینوں کے ایک بڑے حصے پر انگریز نے بغاوت کے جرم میں قبضہ کر لیا تھا۔ بعد ازاں واپسی تو ہوئی تھی مگر بہت کم۔راجہ محمد سرفراز خان نامی اس ممبر صوبائی اسمبلی نے چکوال شہر میں تین سو کنال سے زائد زمین کالج کے لیے دینے کا اعلان کیا۔اس تین سو کنال میں بھی ساری زمین راجہ سرفراز خان  کی  ملکیت نہ تھی بلکہ برادری کا بھی حصہ تھا۔برادری کے کچھ لوگوں نے تو راجہ سرفراز خان کے حکم پر لبَیک کہا مگر کچھ سے ان کے حصّہ کی زمین خرید کر حکومت پنجاب کے حوالے کرنا پڑی۔ سرفراز خان مرحوم نے نہ صرف وسیع زمین عطیہ کی بلکہ1949 میں 1 لاکھ تین ہزار کا چیک بھی کالج کی تعمیر کے لئے حکومت کے حوالے کیا۔ یقیناً اس وقت بڑے بڑے روسائے پنجاب نے شرم سے سر جھکا لیے ہوں گے۔بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔واقفانِ حال کے مطابق راجہ سرفراز خان جب تک زندہ رہے درپردہ کئی مستحق تشنگانِ علم کی ہر ممکن مالی امداد بھی فرماتے رہے ۔ آج چکوال کا لٹریسی ریٹ اگر 80  فیصد سے اوپر ہے تو اس میں راجہ سرفراز خان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔یہ الگ بات ہے کہ عوام نے اس کا صِلہ راجہ سرفراز خان کے مقابلے میں ایک کم پڑھے لکھے شخص کو منتخب کر کے  دیا۔ لیکن خدمات کا صلہ تو اللہ کی ذات نے دینا ہوتا ہے ۔ انہی خدمات کا صلہ قدرت نے دیا ہے کہ راجہ یاسرس فراز کا نام اب عوامی سطح پر گونج رہا ہے۔

کُسک فورٹ، چکوال۔۔ظاہر محمود

راجہ یاسر سرفراز چکوال میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ عوامی نمائندے ہیں۔2013 کے انتخابات سے قبل چکوال کو یونیورسٹی ٹاؤن بنانے کا اعلان کیا تھا۔تب نہ راجہ یاسر کامیاب ہو سکے تھے اور نہ ہی ان کی جماعت کی حکومت آئی تھی۔اب پنجاب اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے بلکہ راجہ یاسر سرفراز چکوال سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہو کر صوبائی وزیر براۓ اعلی تعلیم ہیں۔ان کی حکومت بنے اڑھائی سال کا عرصہ ہو چکاہے اور یونیورسٹی آف چکوال میں کلاسز کا آغاز بھی ہو چکا ہے۔باوجود اس کے کہ یونیورسٹی آف چکوال میں ابھی شدید انتظامی خامیاں ہیں جن کا ذکر کچھ ماہ قبل کیا تھا’ مگر امید ہے کہ وقت کے ساتھ یہ مسائل حل ہو جائیں گے  اور  راجہ یاسر بھی ان پر خصوصی توجہ دیں گے۔ اگر ان معاملات کو ابھی سے درست نہ کیا گیا تو یونیورسٹی مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنا وقار کھو دے گی۔

پھر بھی یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر سیاست کرنا اور اس کی تعریف نہ کرنا سوائے بددیانتی کے اور کچھ نہیں۔یہ راجہ یاسر سرفراز کی کوششیں ہی رنگ لائیں ورنہ ہمارے موجوده اور سابق عوامی نمائندوں سے ایسی توقعات دیوانے کا خواب ہی ہو سکتی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے بل کسر کے مقام پر یونیورسٹی آف چکوال ،چکوال لا کالج،اسکول آف ایکسلینس ،500 بیڈ کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر  ہسپتال چکوال اور ناردرن بائی پاس کا بھی سنگ بنیاد رکھا جبکہ یونیورسٹی آف چکوال اور لإ کالج  میں جزوی طور پر کلاسز کا آغاز ہو چکا ہے۔

ہمارے  کچھ صاحبان عقل اِن منصوبوں کو پچھلی حکومت کے منصوبے قرار دے رہے ہیں۔سکول آف ایکسلینس دانش سکول اتھارٹی کے زیر انتظام کام کرے گا۔یہ موجودہ پنجاب حکومت کا صوبے بھر میں پہلا سکول ہوگا جس کا آغاز  چکوال سے ہوگا۔دانش اسکول جو گزشتہ حکومت کا اہم منصوبہ تھا وہ صوبے کے مختلف اضلاع میں قائم ہے جہاں سے غریب بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ سکول گزشتہ ادوار میں چکوال میں بھی قائم ہونا تھا۔مگر مقامی سیاستدانوں کی کَج فہمی کے باعث سیاست کی نظر ہو گیا۔

یونیورسٹی آف چکوال کے معاملے میں ہمارے سابق ایم این اے صاحب نے ذاتی دلچسپی رکھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی ذاتی دلچسپی ان کی ذات تک ہی محدود رہی اور کوئی بھی عملی کام سامنے نہ آسکا۔عملی کام راجہ یاسر نے ہی کیا جو نظر آرہاہے۔500 بیڈز کا جو ہسپتال چکوال میں بننے جا رہا ہے وہ بھی یونیورسٹی سے ہی متصل ہوگا۔ہسپتال یونیورسٹی کے میڈیکل کالج کا حصّہ ہوتا ہے جہاں میڈیکل کے طالب علموں کو عملی کام کرنے کا موقع ملتا ہے۔یہ ہسپتال بھی پچھلی حکومت میں بن جاتا اگر ہمارے اس وقت کے نمائندگان اس میں بھی اپنی سیاست نہ چمکاتے۔بالخصوص مَین پاور ایکسپورٹر صاحب اگر نیلہ اور دلہہ کی اپنی اراضی میں سے کچھ حصہ ہی دے دیتے تو عوام ان کو اپنا مُحسن مان لیتی مگر اتنا جِگرا نہ رکھا اور اب خود ہی اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اپنے نام کے ساتھ محسن چکوال لکھوا کر خود نمائی کا شوق پورا کر رہے ہیں۔

ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کے منصبوں پر اپنے نام کی تختیاں لگاتی ہے۔ ناردرن بائی پاس کے بارےمیں  ن لیگ  کے ایک مقامی عہدیدار کا ویڈیو بیان سوشل میڈیا پر چل رہا ہے کہ اس کا آغاز میاں نواز شریف نے کیا تھا اور اب تحریک انصاف اس  منصوبہ کا کریڈٹ لے رہی ہے۔بالکل اسی طرح جیسے پیپلز پارٹی کی حکومت میں اس وقت کے وزیر اعظم نے مندرہ چکوال اور چکوال سوہاوه روڈ کا سنگ بنیاد رکھا تھا جس پر کام کا آغاز بھی ہو گیا تھا جو تیزی سے جاری تھا۔بدقسمتی سے وہ منصوبہ بھی عدالتی مقدمات کی وجہ سے التوإ کا شکار ہو کر کئی جانیں نگل گیا۔بعد ازاں ن لیگ کے دور حکومت میں سردار غلام عباس اور اپوزیشن  جماعتوں کے احتجاج کے باعث میاں نواز شریف، پیپلز پارٹی کے شروع کیے گئے اس منصوبے کے افتتاح کے لئے چکوال آئے تو ساتھ ہی ناردرن بائی پاس کا اعلان بھی ہوا۔مگر نادرن بائی پاس پہ کام انتہائی سست روی کا شکار تھا جو موجودہ حکومت میں کچھ بہتر ہوا۔

حرمتِ قلم:چکوال میں موروثی سیاست اور اُبھرتی ہوئی نوجوان سیاسی قیادت۔۔۔محمد علی عباس

یہاں ایک اور اہم بات کہ کچھ نادان دوست ان منصوبوں کو ایک اہم  عسکری شخصیت سے جوڑ کر نہ صرف شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کر رہے ہیں بلکہ اسی شخصیت کو محسن چکوال کہہ کر بے جا طور پر سیاسی رنگ دے رہے ہیں۔محسن وہ ہوتا ہے جو احسان کرے۔ عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ پیسوں سے عوام کی فلاح کا کام کرنا اچھی بات ہے مگر یہ عوام پر احسان نہیں بلکہ یہ عوام کا حق اور عوامی نمائندوں کا فرض ہے۔محسن وہ ہوتا ہے جو اپنے ذاتی اثاثوں میں  سے عوام پر خرچ کرے اور اس اعتبار  سے چکوال کے سب سے بڑے محسن راجہ سرفراز خان ہیں جنہوں نے ذاتی ذمین اور پیسے سے کالج بنوايا- چوہدری نوُر خان گاندھی محسن چکوال ہیں جنہوں نے چکوال کی بیٹیوں کی تعلیم کا خواب سب سے پہلے دیکھا اور اپنی زمین پر ضلع جہلم کا سب سے پہلا لڑکیوں کا سکول بنوا کر اس خواب کو عملی جامہ پہنایا۔عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ یا مراعات لینے والی شخصیت یا لوگوں کے پیسے سے ان کو بیرون ملک بھیجنے والے مین پاور ایکسپورٹر محسن چکوال نہیں ہو سکتے اور نہ ہی تھانہ کچہری کی سیاست کرنے والوں کو محسنِ چکوال کہلوانے کا حق ہے۔ راجہ سرفراز خان محسن چکوال تھے، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

راجہ یاسر کی وساطت سے چکوال کی تاریخ میں 15 ارب روپے کی خطیر رقم سے اہم منصوبوں  کا افتتاح جب وزیر اعظم عمران خان کر رہے ہوں گے توجہاں چکوال کے ہر باشعور شخص کو خوشی ہوئی ہوگی، یقیناً اسی لمحے عالم بالہ میں راجہ سرفراز خان بھی خوش ہو کر کہہ رہے ہوں گے ویلڈن یاسر سرفراز۔

Facebook Comments