سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن اور اندرونی رسہ کشی

بچپن میں ایک کہانی سنتے تھے شہر ناپرساں کی ۔ اس شہر کا خاصہ یہ تھا کہ اس میں پھانسی کا پھندا اس شخص کو لگایا جاتا تھا جس کے گلے میں فٹ بیٹھتا تھا، چاہے جرم اس نے نہ بھی کیا ہو۔ مثال کے طور پر سزا الف کو سنائی جاتی اور اگر پھانسی کا پھندا اس کے گلے کیلئے بڑا یا چھوٹا ہوتا تو پھر شہر بھر میں جو بھی سامنے آتا اور جس کے گلے میں پھندا فٹ بیٹھتا تھا اس کو پھانسی پر چڑھایا جاتا تھا ۔ یہی حال پاکستان کا بھی ہے۔

پاکستان میں اپنی نوعیت کا اولین کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ تقریباً نو افراد کے لاپتہ ، اغوا اور گرفتاری کی اطلاعات ہیں ۔ کئی مقبول عام بلاگز اور ویب پیجز کو بند کیا گیا ہے۔ مزید گرفتاریوں کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ گرفتار افراد میں کئی افراد جیسے پروفیسر سلمان حیدر، احمد وقاص گورایہ اور احمد سعید مشہور انسانی حقوق کارکن اور غلط ریاستی پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں ۔ بعض ریاستی اداروں کی جانب سے سائبر کنٹرول اور مداخلت کی کوششوں کی وجہ سے کئی آزاد اور لبرل آن لائن میگزین اور ویب گروپس کو کئی ٹیکنیکل مسائل کا سامنا بھی ہے۔

حکومت کے تیور کچھ عرصے سے ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔ عرصہ دراز سے سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا مگر پچھلے سال اگست میں سائبر کرائمز بل کے پاس کرانے کے بعد کریک ڈاؤن کا امکان بڑھ گیا تھا۔ جن پر قدغن لگنی چاہیے، جس کو گرفتار ہونا چاہیے، جن کی تنظیموں پر خود ریاست نے کئی بار پابندیاں عائد کی ہیں اور کالعدم ڈکلیئر کیا ہے، جن کے نام اقوام متحدہ اور مغربی ممالک کے مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں، وہ کھلم کھلا ریاستی تحفظ میں گھوم رہے ہیں۔ بڑے بڑے اجتماعات کر رہے ہیں ۔ اسلام آباد کی ایک مشہور مسجد کا مولوی کھلم کھلا ریاستی رٹ کو چیلنج کرتا ہے، وہ آزاد رہ کر قانون کا مذاق اڑا رہا ہے۔

جبکہ قدغنیں ان بیچارے نوجوانوں پر لگائی جا رہی ہیں، انھیں اغوا کیا جارہا ہے جو سماجی انصاف ، آئین کی خلاف ورزی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ مظلوم انسانوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ لا پتہ افراد کے حق میں بولتے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی مذمت کرتے ہیں ۔ شورش زدہ علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو سامنے لاتے ہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ انتہاپسند قوتوں کے مظالم اور چیرہ دستیوں کو افشا کرتے ہیں ۔ بالادست قوتوں اور نام نہاد مقتدر قوتوں کی منافقت ، غلط پالیسیوں اور ریاستی ظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور حکمران طبقات کی بدعنوانیوں ، لوٹ کھسوٹ، اور غلط طرز حکمرانی کو بے نقاب کرتے ہیں وہ نشانہ ستم بنے۔

جب مین سڑیم میڈیا غیر مرئی سنسرشپ اور انتہاپسند قوتوں کے ڈر اور ان کی خوشنودی کی پالیسی کی وجہ سے مظلوموں کا چاہے وہ خواتین ہوں یا اقلتیں یا چھوٹی قومیتیں، ان کا ساتھ دینے سے ڈرتا ہو اور سول اور فوجی حکمرانوں کی گھر کی لونڈی بن کر ان کے گن گاتا ہو یا اقتدار کے ایوانوں میں اقتدار کے متوالوں کو اقتدار سے گرانے ، مضبوط کرنے اور بٹھانے کیلئے استعمال ہوتا ہو، کلمہ حق کہنے سے اجتناب کرتا ہو، واہیات قسم کی قومی سلامتی کی پالیسیوں کے زیر اثر میڈیا تعصب اور تنگ نظری کا شکار ہو، کمرشل مفادات کیلئے عام انسانوں کے مسائل لکھنے اور بیان کرنے سے قاصر ہو تو اور دیگر وجوہات کے علاوہ ایسے میں سوشل میڈیا ایک متبادل میڈیا کے طور پر اپنے لئے جگہ بناتا ہے۔ شہری صحافت فروغ پاتی ہے، بلاگ رواج پاتے ہیں ۔ فیس بک اور ٹوئٹر پر عام لوگ اپنے تجربات، مشاہدات اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔

یقیناً شہر ناپرساں میں ان مسائل پر بات کرنا، انھیں اجاگر کرنا ناقابل معافی جرم ہے ۔ قانون اور آئین سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھنے والی قوتوں اور اداروں کے ماتھے پر شکنیں ڈالنا یقیناً سنگین جرم ہے ۔ مظلوم کی داد رسی کیلئے ہمدردی اور تسلی کے چند الفاظ بولنا یقیناً غداری کے مترادف جرم ہے۔ اور اس جرم کی سزا ان سر پھرے نوجوانوں کو ملنی چاہیے۔

بہت سے نوجوانوں کو ہم نہیں جانتے مگر وہ جہاں بھی ہیں، وہ قوم کے بہادر سپوت ہیں۔ وہ سماجی بے انصافی اور ظلم کے خلاف سوشل میڈیا کے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں اور مبارک باد کے مستحق ہیں، خراج تحسین کے مستحق ہیں کیونکہ وہ حق و باطل کی جنگ میں حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ان کے قلم کی روانی ، گرافک کی مہارت اور اپنا مقدمہ احسن طریقے سے پیش کرنے کی وجہ سے ظالموں کی صفوں میں کہرام مچا ہے اور غلط پالیسیوں اور اسکے مضر اثرات بیان کرنے کی وجہ سے ان کو ملک دشمنی اور غداری کے طعنے مل رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ذہنی دیوالیہ پن اور نا اہلیت کا اس کے علاوہ کیا ثبوت ہوگا کہ بجائے اس کے کہ مسلمہ بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری کرتے ، بہتر طرز حکمرانی قائم کرتے اور لسانی اور مذہبی اقلیتوں کی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتے الٹا سوشل میڈیا میں سرگرم عمل نوجوانوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے اغوا کیا جارہا ہےگرفتار کیا جارہا ہے۔ اور اس طریقے سے دوسرے نوجوانوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ وہ سدھر جائیں ۔

بظاہر تو سائبر کرائمز کا قانون جس کو حکومت نے بعض ریاستی اداروں کے دباؤ میں انسداد دہشت گردی مہم کے تحت پاس کیا تھا لیکن شروع دن سے پارلیمان کے اندر اور باہر شدید تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا گیا تھا اور اسے ایک کالا قانون قرار دیا گیا تھا اور اس کے غلط استعمال کے خدشے کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ اس وقت سول سوسائٹی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے بنیادی انسانی حقوق کو سلب کرنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو غیر ضروری طور پر بہت زیادہ اختیارات دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ اس قانون سے آزادی رائے پر قدغنیں لگائی گئیں اور معلومات تک رسائی کو محدود کیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نگرانی کیلئے بھی زیادہ اختیارات دیے گئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر کریک ڈاؤن سے عوامی خدشات صحیح ثابت ہو رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سائبر کرائمز قانون کے تحت کاروائی کے حوالے سے ریاستی اداروں میں بھی رسہ کشی جاری ہے ۔ اسلام آباد کے باخبر حلقوں میں کچھ دنوں سے یہ خبریں زیر گردش تھیں کہ ایک حساس ادارہ ایف آئی اے کی بجائے سائبر کرائمز بل کے تحت کاروائی کرنے کا اختیار حاصل کرنے کے درپے ہے۔ حالیہ چھاپوں کے پیچھے بھی اس ادارے کی چھاپ نظر آرہی ہے۔ پیشہ وارانہ رقابت اپنی جگہ مگر قومی سلامتی کے حوالے سے دونوں اداروں کی سوچ میں فرق ہے ۔ ایک خالصتا سویلین ادارے کی حیثیت سے ایف آئی اے کا اپروچ بہت وسیع اور لبرل ہے ۔ اور آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنے کا عادی ہے۔ اس وجہ سے ایف آئی اے کی جانب سے گرفتاریوں میں پس و پیش کے پیش نظر ایک حساس ادارے نے ازخود کاروائی کی ہے ۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کی نسبت کسی اور ادارے کی جانب سے کی گی گرفتاریوں کی قانونی حیثیت بھی مشکوک ہوگئی ہے ۔ قانونی سقم دور کرنے کے لیے مذکورہ ادارہ سرگرم عمل ہے۔ اس ضمن میں وزارت داخلہ سخت دباوُ کا شکار ہے۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply