قدرت نے انسان کو جو بیش بہا نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے ایک بہت ہی قیمتی نعمت “بھولنا” بھی ہے۔ انسان وقت کے ساتھ ساتھ زندگی کے جھمیلوں میں غموں کو بھول جاتا ہے اور غم کی شدت بس اتنی رہ جاتی ہے کہ ایک یاد ہے جس کے سہارے کبھی ہنس لیااور کبھی رو لیا۔ وقت غموں پہ ایسا پھاہا رکھ دیتا ہے جس کی تاثیر آئے روز بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ذرا تصور کریں کہ انسان کے پاس باقی جملہ نعمتیں موجود ہوں لیکن وہ اپنے غموں کی شدت کو ہر روز ویسے ہی محسوس کرتا ہو تو یہ باقی کی ساری جسم و جان کی نعمتیں اپنے معنی کھو دیں۔ لہذا قدرت کا یہ احسان عظیم ہے کہ ہمارے دکھ وقت کے ساتھ ساتھ تحلیل ہوتے جاتے ہیں۔ واقعات گزرتےدنوں کے ساتھ اپنے اثرات کی شدت کم کرتے چلے جاتے ہیں۔
دکھ یا تکالیف انفرادی بھی ہوتی ہیں اور اجتماعی بھی۔ اجتماعی دکھ اور تکالیف گروہوں پہ گہرا اثر چھوڑتی ہیں۔ اس اعتبار سےقومی سطح پہ ملنے والے دکھ قوموں کی فکر، انکے شعوری اور اخلاقی ارتقا کے لیے وافر ایندھن مہیا کرتے ہیں۔ وہ قوم بڑی بد قسمت قوم ہو گی جو اپنے اجتماعی دکھ اور کرب سے کچھ نہ سیکھے اور ان سے حاصل سبق سے اپنی نئی اور بہتر سمت متعین نہ کرے۔
دنیا کے سب معاشروں کی طرح جرم ہمارے ہاں بھی موجود ہے اور تیسری دنیا کے ملکوں کی طرح ہمارے ملک کا بھی المیہ یہی ہے کہ اوّل یہاں جرم قانون سے طاقتور ہوتا ہے اگر ایسے طاقتور جرائم کے لیے قوانین بنا بھی دیے جائیں تب بھی وہ محض کاغذوں کی حدتک ہوتے ہیں اور عملی طور پہ ان جرائم کے سرزد ہونے کو نہیں روکا جاتا۔ تیسری صورت میں اگر کہیں جرم قانون کے لیے قابل گرفت ہو تو پھر مجرم قانون سے طاقتور نکل آتا ہے۔ اگر یہ تینوں ہی صورتیں نہ ہوں تو بیچارا بد نصیب مجرم دبوچا جاتا ہے اور اپنے کیےکی سزا پاتا ہے۔ ایسے پکڑے گئے مجرم چاہے کتنی ہی بھیانک سزا کیوں نہ پائیں وہ معاشرے پہ کوئی اثر نہیں چھوڑتے۔
ہمارا ملک عین اس منظر نامے کو پیش کرتا ہے۔ ایک جرم سرزد ہوتا ہے۔ معاشرے میں تکلیف اور کرب کی لہر اُٹھتی ہے۔ سب سے پہلےتو خدائی قانون کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ دکھ کی شدت کو کم کر دے اور ہمیں آستین میں چھپے مجرموں تک نہ ہی پہنچنے کی زحمت کرنی پڑے۔ اور اکثر ایسا ہوا ہے کوئی واقعہ محض چند دنوں بعد بھلا دیا جاتا ہے۔ شومئی قسمت اگر چند دن،چند ہفتے یا چند ماہ کسی دکھ کی شدت کم نہ ہو تو پھر اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کیا یہ جرم واقعی قابل گرفت ہے، اور اس کے بعدمجرم کے حدود اربعہ کا تعین کیا جاتا ہے۔ اگر سب طرف سے تسلی ہو جائے تو پھر مجرم گرفت میں آتا ہے۔ اور اگر غلطی کوئی طاقتور مجرم گرفت میں آ جائے تو گرفت میں آنے کے بعد بھی کسی موقع پہ مجرم کو باعزت بری کر دیا جاتا ہے اور معاشرے اس کوقدرت کا لکھا سمجھ کر برداشت کر لیتا ہے یا مکافات عمل کے انتظار میں بیٹھ جاتا ہے۔
سانحہ کارساز سے لے کر بینظیر کی شہادت تک، سانحہ اے پی ایس سے لے کر ٹرین حادثے میں جلنے والوں تک، شاہ رخ جتوئی قتل کیس سے لے کر مجید اچکزئی کیس تک، زینب سمیت متعدد بچیوں اور بچوں سے زیادتی کے کیسوں سے لے کر موٹروے ریپ واقعہ تک جرائم سے جڑے سانحات اور واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ان جرائم نے معاشرے کواجتماعی دکھ سے گزارا۔معاشرے کے ہرحساس فرد نے اس دکھ کو محسوس کیا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب جرائم سے منسلک احساسات مدہم ہوتے گئے اور مجرم آن بانشان کے ساتھ یا باعزت بری ہو گئے۔ اس فہرست میں اگر سیاسی منظر نامے پہ پیش آنے والے جرائم سے جڑے واقعات کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ فہرست کہیں زیادہ لمبی ہو جاتی ہے۔ آئین شکنی سے اداروں کی کرپشن تک اور سر تا پیر احتساب کے خواب سےاربوں کی منی لانڈرنگ تک سینکڑوں جرائم وقت کی گرد میں اپنی اہمیت کھو چکے ہیں حالانکہ قوموں کا ایسے جرائم پہ رد عمل انکے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے۔ اور ہمیں اپنا مستقبل سنوارنے کا کوئی شوق نہیں اس لیے ہم رسیدیں بھی مجرم کا نام پوچھ کےمانگتے ہیں۔ ایسے معاشرے کے باسیوں کو چاہیے کہ وہ ریپ میں مطلوب عابد کے گرفتار ہونے کی امید نہ لگائے رکھیں کیا خبر وہ کسی زور آور کا کارندہ نکل آئے۔ قصور واقعہ میں ملوث عمران جیسا کوئی عامی ہوتا تو شاید اب تک سلاخوں کے پیچھے ہوتا یا سولی پہ جھول گیا ہوتا۔ اس معاشرے میں محض بد نصیب مجرموں کو سزا ہوتی ہے اور خوش نصیب مجرموں کو بچانے کے لیے قوانین میں ترامیم کر لی جاتی ہیں یا پھر سر تا پیر احتساب سے کوئی ہیر پھیر برآمد کیا جاتا ہے۔
معاشرے اس وقت پنپتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں جب وہ ہر دکھ کے احساس کے بعد ایک متعین سمت کے حصول کی کوشش کرتے نظرآتے ہیں۔ ہر وہ معاشرہ کامیاب ہو جاتا ہے جو عہدے، سماجی حیثیت اور ادارہ جاتی تقسیم سے مبرا ہو کر ہر مجرم کو سزا دے۔ ورنہ جرائم ہوتے رہیں گے، دکھ پھیلتے رہیں گے اور مکافات عمل کے انتظار میں ہم اپنی نسلیں برباد کروا لیں گے۔
آخر میں احسان دانش کی ایک غزل کے چند اشعار جو خود اپنے اندر ایک مکمل مضمون لیے ہوئے ہیں۔
یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے
بیٹھے ہیں پل پر اور نظر ہے بہاؤ پر
کیا دور ہے کہ مرہم زنگار کی جگہ
اب چارہ گر شراب چھڑکتے ہیں گھاؤ پر
پہلے کبھی رواج بنی تھی نہ بے حسی

نادم بگاڑ پر ہیں نہ خوش ہے بناؤ پر!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں