• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اپوزیشن کے تین دعوؤں کی حکومتی تصدیق۔۔ محمد اسد شاہ

اپوزیشن کے تین دعوؤں کی حکومتی تصدیق۔۔ محمد اسد شاہ

موجودہ حکومت کے خلاف تحریک کے عین عروج پر مولانا فضل الرحمٰن کے خلاف اچانک نیب کے نوٹسز جاری ہونے لگے ، وفاقی و صوبائی وزراء اور ترجمانوں کی پے در پے اشتعال انگیز پریس کانفرنسز شروع ہو گئیں ، جن میں نہ صرف مولانا صاحب کی گرفتاری اور سزا کی پیشین گوئیاں ، اور مبینہ جائیداد پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں ، بلکہ وزیر داخلہ شیخ رشید نے تو گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں “چھتر پریڈ” جیسے الفاظ استعمال کر کے مروجہ سیاسی روایات کے برعکس نہایت افسوس ناک رویہ اختیار کیا ہے – ان جیسے تجربہ کار اور جہاں دیدہ سیاست دان سے ایسے الفاظ کی ، کم از کم اس وقت تو قطعاً توقع نہ تھی جب وہ وزیر داخلہ کے منصب پر براجمان ہیں – مزید بر آں عین اسی ہنگام ، جمعیت علمائے اسلام کے اندر سے چند لوگوں کی مصنوعی بغاوت کا بھی آغاز ہو گیا ہے – ان واقعات سے اپوزیشن کے تین دعووں کو مزید تقویت ملی ہے – پہلا دعویٰ تو ہے میاں محمد نواز شریف صاحب کا بیانیہ – میاں صاحب اور ان کی جماعت سمیت پوری اپوزیشن کا یہ کہنا ہے کہ بعض نادیدہ قوتیں ملکی معاملات میں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ اور دیگر بہت سے سیاسی و عدالتی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں – گزشتہ دو ماہ کے جلسوں میں اپوزیشن کھلم کھلا یہ مطالبہ کرتی آ رہی ہے کہ آئین کے مطابق غیر سیاسی کرداروں کو سیاست میں دخل اندازی سے باز آنا چاہیے – کیوں کہ اس وجہ سے ملک میں معاشی ، سماجی ، سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہوتے ہیں – اس شور کے درمیان جب جمعیت علمائے اسلام کے اندر سے چار افراد کی اچانک مولانا کے خلاف ، اور عمران خان کی حمایت میں پریس کانفرنسز کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو فطری بات ہے کہ اپوزیشن کا سارا شک نادیدہ قوتوں کی طرف ہی جائے گا ، اور ان کا بیانیہ مزید مضبوط اور گہرا ہو گا – سوچنے کی بات یہ ہے کہ مذکورہ چاروں افراد اگر اس حد تک عمران خان کے حامی و مداح تھے ، تو تحریک انصاف میں شامل ہی کیوں نہ ہو گئے ، اور اگر چاروں افراد کو مولانا یا اپنی جماعت کی سیاست پر اعتراض تھا تو یہ نیب کے نوٹسز اور وزراء کی پریس کانفرنسز سے پہلے کیوں خاموش رہے – اگر انھیں موجودہ سیاسی حالات میں اپنی جماعت کے کردار پر کوئی تحفظات تھے تو جماعت کی شوریٰ کے اجلاس میں بات کرتے – کسی بھی سیاسی جماعت کے باشعور لوگ کبھی ایسا نہیں کرتے کہ اختلاف رائے کا اظہار میڈیا میں کریں – ایسا کرنا تو واضح طور پر اپنی جماعت کو بدنام کرنے ، خراب کرنے اور ڈسپلن کا ستیاناس کرنے کے مترادف ہے – ورنہ لوگ اپنی جماعتوں کے اندر اپنی اختلافی آراء کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں اور جماعتوں کے اندر ان کی عزت اور مقام و مرتبے میں فرق بھی نہیں آتا – مسلم لیگ (نواز شریف) میں چودھری نثار نے ہمیشہ پوری جماعت سے مختلف رائے کا اظہار کیا – اس کے باوجود میاں صاحب نے اپنے تینو ں ادوار حکومت میں انھیں اہم ترین وزارتوں پر فائز کیا – وزیر بن کر بھی بعض مواقع پر چودھری نثار حکومتی و جماعتی فیصلوں کے برعکس اپنی ذاتی رائے کے مطابق عمل کرتے رہے ، لیکن مسلم لیگ (ن) کی طرف سے انھیں وزارت سے برطرف کیا گیا اور نہ ہی کبھی ان کے خلاف کوئی نوٹس جاری کیا گیا – منتخب حکومت کے خلاف 2014 کے دھرنوں میں بھی چودھری نثار کے کردار پر بہت سوالات اٹھے ، لیکن کسی بھی سطح پر ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا – لیکن جب مسلم لیگ (ن) پر انتہائی آزمائش کا وقت تھا ، اس وقت چودھری نثار باقاعدہ میڈیا میں آ کر اپنی ہی جماعت، اور خاص طور جماعت کی نائب صدر محترمہ مریم نواز کے خلاف ناقابلِ فہم بیان بازی کرنے لگے – تب جماعت کو ان کے حوالے سے محتاط ہونا پڑا – حتیٰ کہ عام کارکنان کی سطح تک ان کے خلاف شدید اشتعال پیدا ہو گیا – مسلم لیگ نواز نے انھیں پارٹی سے نہیں نکالا ، بل کہ اپنے ساتھیوں اور کارکنان کے سخت ردعمل کو دیکھتے ہوئے انھیں خود ہی دوری اختیار کرنے میں عافیت نظر آئی اور انھوں نے 2018 کے عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹ کے لیے درخواست تک جمع نہ کروائی – اسی طرح مخدوم محمد جاوید ہاشمی بھی میاں صاحب اور جماعت کے ساتھ اختلاف رائے کرتے رہے ، لیکن جب تک وہ جماعت میں رہے ، ان کی عزت و مرتبے میں کوئی فرق نہ آیا – ان دو مثالوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ شیرانی صاحب سمیت جمعیت کے جن چار لوگوں کو جماعتی فیصلوں سے اختلاف تھا وہ اس کا اظہار جماعت کے اندر ہی کرتے تو بہتر تھا – لیکن انھوں نے جس حساس موقع پر ، اور جس انداز میں جماعت کے خلاف باقاعدہ میڈیا مہم چلائی ہے ، وہ کسی بھی جماعت میں قابلِ قبول نہیں ہو سکتی – چناں چہ جماعت کی مجلس شوریٰ نے ان چاروں کو جماعت سے بے دخل کرنا ہی مناسب سمجھا – اس پر عمران خان اور ان کے وزراء بار بار یہ الزام لگا رہے ہیں کہ جمعیت میں جمہوریت کی بجائے آمریت قائم ہے – حال آں کہ خود خاں صاحب نے 2014 میں پاکستان تحریک انصاف کے باقاعدہ منتخب مرکزی صدر مخدوم جاوید ہاشمی کو ذاتی اختلاف رائے پر ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر دیا تھا – جب کہ اس حوالے سے پارٹی سطح پر کوئی مشاورت ، فیصلہ یا صدر پر عدم اعتماد رپورٹ نہیں ہؤا تھا – پی ٹی آئی کارکنان آج تک یہ نہیں جان پائے کہ پارٹی کے ملک بھر سے باقاعدہ منتخب صدر کو عمران خان نے کس حیثیت میں نکالنے کا اعلان کیا ، اور پارٹی آئین میں کارکنان کے انتخاب کی کیا حیثیت ہے؟ یہاں یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ میاں صاحب نے تو چودھری نثار اور جاوید ہاشمی کے اختلاف رائے کو سالہا سال تک برداشت کیا لیکن پارٹی سے نہیں نکالا – اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن نے چار باغی ارکان کو کئی سال تک برداشت کیا اور ان لوگوں کو جماعت کی مجلس شوریٰ نے باقاعدہ اجلاس میں غور و خوض کے بعد متفقہ طور جماعت سے نکالنے کا اعلان کیا – لیکن عمران خان نے اپنی پارٹی کے منتخب مرکزی صدر کو ایک ہی بیان پر ذاتی طور پر نکال باہر کیا – تو پھر جمہوریت کن جماعتوں میں ہے ، اور شخصی آمریت کہاں پر ہے؟ اسی طرح خاں صاحب نے 2016 میں خیبرپختونخواہ میں اپنی جماعت کے تقریباً 20 ارکان کو اظہار وجوہ کے نوٹسز جاری کیے بغیر ، صفائی کا موقع دیئے بغیر ، اور کوئی ٹھوس ثبوت ظاہر کیے بغیر جماعت سے نکال دیا – اس پر تو خاں صاحب اپنی تقاریر میں الٹا فخر بھی کرتے ہیں کہ “سینیٹ میں پارٹی کو ووٹ نہ دینے” والے ارکان کو نکال باہر کیا –
میں نے کالم کی ابتداء میں عرض کیا کہ مولانا کے خلاف ہونے والی اچانک یلغار سے اپوزیشن کے تین دعووں کو تقویت ملی – پہلی بات تو یہی ، کہ سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ میں بعض نادیدہ قوتوں کا عمل دخل – اپوزیشن کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ نیب ایک آزاد ادارے کی بجائے پی ٹی آئی کے ماتحت ادارے کے طور پر کام کر رہا ہے ، جسے وہ احتسابی کی بجائے انتقامی ادارہ کہتی ہے – ذرا مختلف الفاظ میں اسی قسم کے اعتراضات معزز عدالتیں بھی کئی بار کر چکی ہیں – بی آر ٹی پشاور ، مالم جبہ کرپشن ، فارن فنڈنگ کیس ، اور آٹا ، چینی ، پٹرول ، ادویات وغیرہ کے بہت سے سکینڈلز کو مکمل نظر انداز کرتے کرتے اچانک مولانا فضل الرحمٰن کے پیچھے پڑ جانے سے نیب کی غیر جانب داری پر ایک اور بہت بڑا سوالیہ نشان لہرانے لگا ہے – اس پر مستزاد یہ کہ حکومتی وزراء کس بنیاد پر اپوزیشن لیڈرز کی گرفتاری ، چھتر پریڈ اور سزائیں سنانے کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں – کیا وہ نیب کے ساتھ کسی رابطے میں ہیں یا عدلیہ کی آزادی پر عوامی اعتماد کو مجروح کرنا چاہتے ہیں؟ ان کارروائیوں سے اپوزیشن کے تیسرے جس دعوے کو تقویت ملتی ہے وہ عمران خان کی نااہلی کا دعویٰ ہے – ویسے تو اس بات کا اظہار حکومتی کارکردگی سے بھی ہوتا ہے ، اور خود خاں صاحب بھی بالواسطہ طور پر چند دن پہلے ایک تقریر میں اس کا باقاعدہ اعتراف کر چکے ہیں – اپوزیشن کی زبردست احتجاجی تحریک کے دوران جمہوری حکومتیں ہمیشہ نرم زبان استعمال کیا کرتی ہیں – لیکن یہاں اپوزیشن لیڈرز کی تضحیک و تذلیل ، اشتعال انگیزی ، دھمکیاں دینے ، جگتیں مارنے ، طعنے دینے ، الٹے نام رکھنے، استعفوں کے معاملے میں بار بار چیلنج کرنے، اور نفرت انگیز بیانات کے ذریعے حالات کو مزید تلخ کیا جا رہا ہے – کیا اس رویئے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ 8 سال تک خیبرپختونخواہ ، اور ڈھائی سال تک وفاق و پنجاب میں حکمران رہنے کے بعد بھی خاں صاحب اور ان کے مصاحبین نوشتہ دیوار پڑھنے کی اہلیت سے عاری ہیں

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply