اس تشدد پسند گروپ کا پورا نام جماعت اہل سنت و الدعوہ وللجہاد ہے۔ یہ گروپ مغربی اور وسطی افریقہ کے ممالک نائیجریا، نائیجر، چاڈ، بینن، برکینا فاسو اور کیمرون میں متحرک ہے۔ اس گروپ کی نظریاتی اساس سلفی ازم اور وہابی ازم پر کھڑی ہے۔
بوکو حرام کا نام دراصل دو مختلف زبانوں کے الفاظ پر مشتمل ہے۔ حرام عربی کا لفظ ہے، جس کے معانی جس سے روکا گیا ہو۔ جبکہ بوکو ہاوسا زبان کا لفظ ہے، جس کے معانی جعلی یا نقلی۔ اس کا دوسرا نام علماً بوکو ہے۔ جس کے معانی جعلی تعلیم۔ اس گروہ کا مغربی تعلیم اور تعلیمی نظام کی جانب جارح رویہ تھا۔ یہ مغربی تعلیمی نظام کو جعلی اور سطحی قرار دیتے ہیں۔ یہ نائیجریا میں اسلامی ثقافت کی بقاء کو اسلامی تعلیم سے مشروط کرتے تھے۔
2002 میں محمد یوسف نامی ایک مبلغ نے میدوگوری، بورنو، شمالی وسطی نائیجریائی ریاست میں اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔ بوکو حرام ابتداء میں ایک مصلح جماعت تھی۔ جس کا مقصد لوگوں کی اصلاح کرنا اور عیسائی مشنریوں کی تبلیغ کا سدباب کرنا تھا۔ اس جماعت نے اپنے ابتدائی دور میں ازالہ سوسائٹی نام کے ادارے کو قائم کیا، جس کا مقصد غریب اور استحصال زدہ مسلمانوں کی مالی اور مذہبی مدد فراہم کرنا تھا۔ تنظیم کے بانی محمد یوسف مغربی طرزِ تعلیم کے شدید ناقد تھے۔ انھوں نے اپنی تعلیمات میں مغربی تعلیمی نظام پر شدید تنقید کی۔ وہ ڈارون ازم کے شدید مخالف بھی تھے۔ اپنے قیام کے ابتدا سے سات سال بعد تک یہ جماعت مکمل پر امن رہی۔
مگر پھر 2009 میں نائیجریائی فورسز نے آپریشن کرکے محمد یوسف کو گرفتار کرلیا اور انتالیس سال کی عمر میں پولیس نے ماورائے آئین و قانون محمد یوسف کو پھانسی دے دی۔ جس سے حالات سنگین ہوگئے۔ جماعت اہل سنت و الدعوی نے نیا امیر ابوبکر شیکاو کو منتخب کیا۔
ابوبکر شیکاو ایک نوجوان اور کانوری قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ نوجوان امیر نے ریاست کے اس بہیمانہ فعل کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان کردیا۔ اس کال کے بعد ریاستی کریک ڈاون میں ہزاروں افراد کو گرفتار کرلیا۔
اگر معروضی لحاظ سے دیکھا جائے تو بوکو حرام کی کامیابی اور پیدائش کی زیادہ وجوہات معاشی اور نوآبادیاتی ہیں۔ نائیجریا افریقہ کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ تیل کی دولت سے مالامال ملک کی ستر فیصد آبادی انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی ہے۔ ملک کی دولت مند ایلیٹ عیسائی اقلیت ہے۔ جو جنوب میں آباد ہیں۔ تیل سے مالامال شمال مسلمان اکثریتی ہے۔ شدید غربت، ریاست کا غیر متوازن رویہ، حق تلفی نے لوگوں کو متشدد ہونے پر اکسایا۔ متبادل مذہبی طبقہ ہی تھا۔ محمد یوسف کی پرامن جدوجہد کو، ان کا پھیلتا اثرو رسوخ سمجھ کر جنوبی عیسائی ایلیٹ نے ان کا قتل کرنے کو حکم صادر کیا۔ محمد یوسف کی موت نے پر امن جدوجہد کو مسلح جنگ میں بدل دیا۔ محمد یوسف کے بقول برطانوی آمد سے قبل مسلمانوں کی اسلامی سلطنت آف بورنو تھی۔ موجودہ نائیجریائی نظام حکومت غیر اسلامی ہے۔ پس اس نظام کو بدلنا ہوگا۔
محمد یوسف کی ریاستی تحویل میں موت سے ہنگامہ مچ گیا۔ مشتعل ہجوم نے سینکڑوں لوگوں کو قتل کردیا اور سکولوں اور تھانوں کو مسمار کردیا۔ حالات اتنے سنگین ہوئے کہ تمام شمال میں ریاست نے ایمرجینسی اور منی مارشل لا نافذ کردیا۔ اس مارشل لا میں سینکڑوں بوکو حرام کے کارکنان اور ہمدردوں کو قتل کیا گیا۔ حالات شدید سنگین ہوچکے تھے۔ پورا پسماندہ شمال ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
مسلح حملوں کا باقاعدہ آغاز ستمبر 2010 میں باوچی جیل پر بوکو حرام کے مسلح جتھوں کے حملے سے ہوا۔ جیل توڑی گئی اور 730 چوٹی کے جماعتی رہنماوں کو چھڑوا لیا گیا۔ ڈیڑھ سو مزید قیدیوں نے بوکو حرام میں شمولیت کا اعلان کردیا۔
اس حملے کے بعد اسی سال یعنی 2010 میں بوکو حرام نے میدوگوری اور جوس میں بم دھماکے کئے۔ جس کی وجہ سے بیشمار لوگ لقمہ اجل بنے۔ 31 دسمبر کو دارالحکومت ابوجا میں بم حملہ ہوا، جس میں چار افراد ہلاک ہوئے۔
جون 2011 میں بوکو حرام نے پولیس گاڑی کو ہدف بنایا جس میں سات سے زائد پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ اسی سال اگست میں اقوام متحدہ کی گاڑی پر حملہ کیا گیا جس میں تیرہ یو این اہلکار ہلاک ہوئے۔ ابوبکر شیکاو نے نائیجریا اور امریکہ کے خلاف مزید حملے کرنے کا عندیہ دے دیا۔ دونوں کئے گئے حملے غربی افریقہ میں بالکل نئے تھے، کیونکہ اس خطے میں پہلی بار خودکش حملہ ہوا تھا۔ اس سے پیشتر افریقہ میں خودکش حملے کرنے سے متعلق صرف الشباب اسلامی صومالیہ مشہور تھی۔
بوکو حرام نے جوناتھن گڈلک کے صدر منتخب ہونے کے بعد بم دھماکوں کا نیا سلسلہ شروع کیا۔ انھی حملوں میں نائیجریا کے سب سے مشہور مسلمان سیاست دان ابو انس غربئی کو بورنو میں ان کی رہائش گاہ کے باہر قتل کردیا گیا۔ جوناتھن گڈ لک نے بوکو حرام کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔
دوسری جانب حالات کو بہتر کرنے کے لئے محمد یوسف کے قتل میں ملوث پانچ پولیس افسران کو گرفتار کر لیا گیا اور ان کو سزائے موت دی گئی۔ حالات میں کچھ ٹھہراو آتا نظر آرہا تھا۔ مگر محمد بوہری اور جوناتھن گڈلک کے درمیان صدارت کے معاملے پر مسئلے نے مذہبی فسادات کو بڑھا دیا۔ شمالی مسلمانوں اور جنوبی عیسائیوں میں یہ معاہدہ تھا کہ ایک مذہب کا صدر اپنے پانچ سال کے ٹرم کو مکمل کرکے دوسرے مذہب والوں کو صدارت کی پیشکش کرے گا۔ یعنی اگر ایک بار عیسائی صدر بنا ہے تو اگلی بار لازمی طور پر مسلمان صدر ہوگا۔
کرسمس 2011 پر بم دھماکوں کے ایک سلسلہ میں ابوجا شہر میں 37 افراد ہلاک ہوئے۔ مرنے میں تمام عیسائی شامل تھے۔
2012 میں مختلف بم دھماکے ہوتے رہے لیکن سب سے خوفناک اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والا دھماکہ کانو کے پولیس ہیڈکوارٹر کی عمارت میں کیا گیا۔ جس میں 190 افراد ہلاک ہوئے۔ شمالی خطے میں آباد عیسائی اقلیت کو حکم دے دیا گیا کہ وہ علاقہ خالی کردیں۔ عیسائی اقلیت کی بڑی تعداد میں کیمرون میں پناہ گزین ہوئی۔
2013 میں بوکو حرام نے اپنی پہلی کاروائی کیمرون میں ایک فرانسیسی پادری کو اغوا کرنے سے شروع کی۔ اس کے بعد بہت سے بم دھماکے ہوئے۔ بوکو حرام کے گڑھ بورنو کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہ نائیجریا کیمرون اور چاڈ کے سنگم پر جھیل چاڈ کے کنارے واقع ہے۔ جب بھی نائیجرین آرمی بوکو حرام کے خلاف کریک ڈاون کرتی تو یہ کیمرون کی جانب فرار ہوجاتے۔ کیمرون کی فوج اتنی مضبوط نہیں ہے کہ ان کا سامنا کرسکے۔ پس اس مسئلے کے تدارک کے لئے کثیر الاقومی متحدہ ٹاسک فورس تشکیل دی گئی۔ جس میں چاڈ، نائیجر، نائیجریا اور کیمرون شامل تھے۔ اس فورس نے 2014 کے آغاز سے بارڈرز پر سیکورٹی کی زمہ داری سنبھال لی۔
بورنو اور یوبے میں ایمرجینسی مزید بڑھا دی گئی۔ اڑھائی لاکھ سے زائد افراد اپنے گھر چھوڑ کر نزدیکی ممالک میں پناہ گزین ہوگئے۔ پولیس، فوج اور اتحادی ملیشیا اور بوکو حرام کی مخاصمت دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر روز کہیں نہ کہیں دھماکہ ہوتا تھا۔ اسی دران ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک وڈیو جاری کی، جس میں پولیس اور اتحادی ملیشیا کے اہلکار لوگوں کو سرعام ماورائے آئین و قانون پھانسیاں دے رہے تھے۔
اپریل 2013 میں باگا کے ایک ماہی گیروں کے گاوں میں ریاستی فوج کی جانب سے بدترین قتل عام ہوا۔ جس میں 200 سے زائد مکانات کو آگ لگا دی گئی اور 2000 سے زائد دیہاتیوں کو قتل کردیا گیا۔ اس گاوں کے بارے میں ریاستی فوج کا دعویٰ تھا کہ یہ لوگ بوکو حرام کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق ایک بھی دیہاتی کو زندہ نہیں چھوڑا گیا۔ ان عوامل نے اس خطے میں ریاست کے خلاف نفرت کو مزید بڑھا دیا۔ بریگیڈئر جنرل آسٹن ایڈکپائے نے دعویٰ کیا کہ حملے میں بوکو حرام کے تیس کارکنان کو مارا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس واقعے کو “باگا قتل عام” کا نام دیا۔
بوکو حرام کے شدت پسندوں نے اسی سال کوڈونگا کی مسجد میں فائرنگ کرکے چوالیس سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا۔ پورے شمال میں بوکو حرام کی عملی حکومت قائم ہوچکی تھی۔
جنوری 2014 میں میدوگوری میں کار بم دھماکے میں چود لوگ ہلاک ہوئے جبکہ فروری میں انھوں نے ایک وفاقی سکول پر حملہ کرکے 59 بچوں اور اساتذہ کو ہلاک کردیا۔
اسی سال اپریل میں یوبے ریاست کے علاقے چیبوک میں ایک لڑکیوں کے سکول پر ہلا بولا گیا، جس میں 276 لڑکیوں کو اغوا کرلیا گیا۔ تنظیم نے ان کو فروخت کرنے کا اعلان کیا۔میشل اوبامہ نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی اور صدر سے لڑکیوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ تاہم مقامی اور بین الاقوامی گفت و شنید کے بعد 2016 میں لڑکیاں مکمل طور پر بازیاب کروا لی گئیں۔
میدوگوری میں جنوری 2015 میں وین بم حملے میں 59 افراد ہلاک ہوئے۔ اسی سال اکتوبر میں کانو کی جامع مسجد میں خودکش بم حملہ کیا گیا جس میں 120 نمازی شہید ہوئے۔ 2015 کے اپریل کے مہینہ میں کونڈونگا کے شہر پر بوکو حرام نے قبضہ کرنے کی کوشش کی، جسے نائیجرین فوج نے ناکام بنا دیا اور سو سے زائد بوکو حرام کے عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا گیا۔
2015 میں بوکو حرام نے شمالی کیمرون کی جانب اپنی توسیع پسندی کا فوکس کیا اور ایک تعمیراتی سائٹ پر حملہ کرکے دس چینی انجینیئروں کو اغوا کرلیا۔ ریاستی دارالحکومت میں بم دھماکہ کیا گیا اور نائیجریائی سرحد کے ساتھ ساتھ کے علاقے پر اپنا قبضہ کرنا شروع کردیا۔ کیمرون کے صدر نے آرمی چیف کو بوکو حرام کے خلاف ہوائی حملوں کا حکم دے دیا۔ جس کی وجہ سے بوکو حرام پسپا ہو کر واپس نائیجریا میں پلٹ آئی لیکن یہ عارضی پسپائی تھی۔ بوکو حرام نے کیمرون کے ڈپٹی وزیر اعظم کی بیوی کو اغوا کیا، جسے بعد میں بغیر تاوان کے چینی انجینیئروں کے ساتھ چھوڑ دیا گیا۔
2015 میں گوازو پر قبضہ کرکے ابوبکر شیکاو نے اسلامی خلافت میں گوازو کے شامل ہونے کا ایک وڈیو جاری کی۔ میدوگوری سے ستر کلومیٹر کی مسافت پر باما گاوں پر بوکو حرام نے قبضہ کرلیا۔ اس ساری صورتحال میں حکومت نے کسی بھی علاقے کے بوکو حرام کے قبضے میں جانے سے متعلق معلومات کی سختی سے تردید کی۔ تاہم سنگین ہوتے حالات کے پیش نظر فوج کو حملہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ سپاہیوں میں اتنا خوف تھا کہ انھوں نے بوکوحرام کے علاقے میں جانے سے انکار کردیا۔
17 اکتوبر کو چیف آف سٹاف کی جانب سے ایک پریس ریلیز شائع کی گئی، جس میں سیز فائر قائم کرنے سے متعلق فوج کو حکم دیا گیا۔ مگر یہ یک طرفہ تھا اور جوناتھن گڈلک کی انتخابی مہم کا حصہ تھا۔ جس کے جواب میں بوکو حرام نے آدموا ریاست کے قصبہ موبی پر قبضہ کرلیا اور پریس ریلیز جاری کی کہ کوئی سیز فائر کا معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
موبی کو نائیجرین فوج نے واگزار کروا کرلیا۔ اسی ماہ بوکوحرام نے چیبوک پر قبضہ کرلیا۔ جس کو بعد میں نائیجرین فوج نے عسکریت پسندوں کے قبضہ سے آزاد کروایا۔ نومبر 2014 میں دو طرفہ حملوں میں 800 کے قریب لوگ ہلاک ہوئے۔
2015 میں بوکوحرام نے باگا پر حملہ کیا اور کثیر القومی متحدہ ٹاسک فورس کے بیس پر قبضہ کرلیا اور ہزاروں فوجیوں کو قتل کردیا۔ اس حملے کو بوکوحرام کا سب سے خطرناک حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس شکست پر بہت سے افسران کا کورٹ مارشل ہوا اور چیف آف سٹاف کو معزول کرنے کے ساتھ ساتھ چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔
کثیر الاقومی متحدہ ٹاسک فورس نے 2015 کے وسط میں بوکوحرام کے خلاف کریک ڈاون کیا، جس میں کم از کم 200 عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔ مگر دوسری جانب بوکوحرام نے فوٹوکول نامی کیمرونی قصبہ پر حملہ کرکے 13 چاڈ اور کیمرون کے فوجیوں کو ہلاک کردیا جبکہ 81 سویلین بھی جانبحق ہوئے۔
مارچ 2015 میں بوکوحرام کے لیڈر ابوبکر شیکاو نے دولت اسلامیہ شام و عراق کے ساتھ الحاق قائم کرلیا۔ اسی سال نائیجریائی فوج نے گوازو، باما کا کنٹرول بوکوحرام سے چھین لیا اور فورسز کے مطابق بوکوحرام کے کنٹرول میں موجود چودہ میں سے گیارہ اضلاع کو آزاد کروا لیا گیا۔ اس پے در پے شکست کے بعد بوکوحرام کیمرون اور نائیجریا کے بارڈر پر موجود پہاڑی علاقے کی جانب پسپائی اختیار کر گئی۔
مئی 2015 میں میدوگوری کے چرچ کی رپورٹ کے مطابق رواں ماہ بوکوحرام نے پانچ ہزار عیسائیوں کو قتل کیا۔
جون اور جولائی میں بوکوحرام نے این ڈجمینا چاڈ میں دو خودکش بم حملے کئے جس میں کم و بیش سو سے زائد عام لوگ جان بحق ہوئے۔ اس ماہ بوکوحرام نے اپنا نام دولت اسلامیہ ولایت غربی افریقہ اختیار کیا۔
اکتوبر میں نائیجرین فوج نے سامبسا جنگل میں یرغمال بنائے گئے 192 بچوں اور ڈیڑھ سو کے قریب عورتوں کو بازیاب کرانے کے لئے آپریشن کیا۔ جس میں پچاس کے قریب عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا اور تمام یرغمالی بازیاب کرا لئے گئے۔
جولائی 2015 میں بوکوحرام نے کولوفوٹا کیمرون کی فوج کے بیس پر حملہ کیا۔ اس حملے بوکوحرام کو شدید ترین شکست ملی اور 143 عسکریت پسند ہلاک کردیے گئے۔ اس بیس پر امریکی ٹرینرز موجود تھے، جنھوں نے کیمرونی فوج کی تربیت کی۔
اکتوبر اور نومبر میں چاڈ کی فوج پر حملہ کیا گیا۔ جس میں گیارہ فوجی ہلاک ہوئے جبکہ سترہ عسکریت پسندوں کو مار گرایا گیا۔ چاڈ کے قصبہ باگا سولہ میں خودکش بم حملے میں 50 سے زائد افراد ہلاک کئے گئے۔ حملہ کی زمہ داری بوکوحرام نے قبول کی۔ دسمبر میں تین خودکش بم حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے۔
نائیجر میں فروری سے اکتوبر تک ساٹھ کے قریب بم حملے ہوئے اور نائیجر کی پولیس نے 1100 سے زائد شدت پسندوں کو ہلاک اور گرفتار کیا۔ حملوں میں کل مرنے والوں کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ تھی۔
جنوری 2016 میں بوکوحرام نے دلوری گاوں بورنو پر حملہ کیا۔ جس میں چھیاسی سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ نائیجرین فوج نے شدت پسندوں کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔
مارچ اور اپریل میں دیکوا اور میدوگوری میں خودکش بم حملوں میں کم از کم سو کے قریب افراد ہلاک ہوئے۔
اگست 2016 میں دولت اسلامیہ عراق و شام کی جانب سے پریس ریلیز میں ابومصعب البرناوی کو ولایت غرب افریقی کا امیر لگایا گیا۔ جس کو ابوبکر شیکاو نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ جس سے دونوں گروہوں میں تصادم کی بنیاد پڑی اور بوکوحرام وقت کے ساتھ ساتھ کمزور ہوتی گئی۔
اگست 2016 میں نائیجرین فوج نے بوکوحرام کے خلاف ہوائی حملوں کا آغاز کیا گیا۔ جس میں فوج نے دعویٰ کیا کہ ابوبکر شیکاو کو مار دیا گیا ہے لیکن بعد میں صدر نے بیان جاری کیا کہ شیکاو مرا نہیں بلکہ شدید زخمی حالت میں فرار ہوگیا تھا۔ اس کے بعد نائیجریائی فوج نے دعویٰ کیا کہ بوکوحرام کے زیر قبضہ اب فقط چند گاوں رہ گئے ہیں۔
دسمبر میں ماداگلی، آدموا میں خودکش بم حملے میں ستاون افراد ہلاک ہوئے۔
موبی میں مسجد میں کئے گئے خودکش بم دھماکے میں پچاس سے زائد نمازی شہید ہوئے۔
2018 میں داپاچی کے ٹیکنیکل کالج سے 110 لڑکیوں کو اغوا کیا گیا، جس میں سے پانچ کو موقعہ پر قتل کردیا گیا۔ تاہم نائیجریائی حکومت کی طرف سے تاوان دیے جانے کے بعد یہ لڑکیاں بازیاب کروا لی گئیں۔
مئی میں آپریشن لافیہ ڈولے شروع کیا گیا۔ جس میں شدت پسندوں کی سرحدی علاقوں میں بیخ کنی کی گئی۔ بعد میں ماہ نومبر میں دولت اسلامیہ ولایت غربی افریقہ نے باگا کے کثیر القومی متحدہ ٹاسک فورس کے بیس پر قبضہ کرلیا جبکہ بوکوحرام نے شمالی نائیجریا میں بم حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔
مارچ 2019 میں جھیل چاڈ کے کنارے پر بوکوحرام نے چاڈ کی فوج کے پچیس کے قریب سپاہیوں کو مار گرایا۔ یہ شدت پسندوں کا چاڈ کی فوج پر سب سے خطرناک حملہ تھا۔
ستمبر 2019 میں برکینا فاسو کے ایک فوجی بیس پر حملہ کیا گیا اور پچیس سے زائد برکینا فاسو کے سپاہیوں کو ہلاک کردیا گیا۔ زمہ داری بوکوحرام نے قبول کی۔
مارچ 2020 میں بوکو حرام نے چاڈ کی فوج پر حملہ کرکے 92 فوجیوں کو ہلاک جبکہ بیس گاڑیوں کو تباہ کردیا۔ یہ بوکو حرام کا اب تک کا سب سے بڑا حملہ تھا، جس میں ایک ہی ہلے میں چاڈ کے اتنے زیادہ فوجی ہلاک ہوئے۔
اس کے بعد ایک وسیع آپریشن شروع کیا گیا جس میں ایک ہزار سے زائد بوکو حرام کے شدت پسندوں کو ہلاک کردیا گیا جبکہ کافی بڑی تعداد گرفتار ہوئی۔ جن میں سے بہت سے جیلوں میں ہلاک کردیے گئے۔
مارچ 2020 میں ہی گونیری کے مقام پر بوکو حرام کے حملے میں پچاس سے زائد نائیجرین فوجی ہلاک ہوئے۔
اگست 2020 میں ولایت غربی افریقہ نے گوبیو بورنو میں حملہ کرکے 81 سے زائد دیہاتیوں کو جان بحق کردیا۔
مونگونو میں ساٹھ سے زائد شہریوں اور نائیجرین فوجیوں کو ایک شدت پسند کاروائی میں ہلاک کیا گیا۔ حملے کی زمہ داری ولایت غربی افریقہ نے قبول کی۔
28 نومبر 2020 کو کوشیبے کے مقام پر بوکو حرام نے 110 کسانوں کا قتل عام کیا۔ ان کسانوں پر مخبری کرنے کا الزام لگایا گیا۔
11 دسمبر 2020 کو کنکارا کے ایک کالج سے 330 طلباء کو اغوا کرلیا۔ جس کی زمہ داری بوکوحرام نے قبول کی۔
20 مئی 2021 کو سامبسا جنگل کی مڈبھیڑ میں ابوبکر شیکاو نے خود کو خودکش جیکٹ سے اڑا دیا۔ زرائع کے مطابق ولایت غربی افریقی نے سامبسا جنگل میں بوکوحرام کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تو گرفتار ہوجانے کے خوف سے بوکو حرام کے سربراہ ابوبکر شیکاو نے خود کو ہلاک کرلیا۔ ولایت غربی افریقہ اور نائیجرین سیکورٹی فورسز نے بوکوحرام لیڈر کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی۔
باکورا دورو اور باکورا سلابہ کو تنظیم کا امیر بنایا گیا ہے اور تنظیم دو حصوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔
بوکوحرام کی مالیات کا مکمل انحصار اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری پر ہے۔ اس کے علاوہ القائدہ سے قریبی مراسم ہونے کی بناء پر مالی امداد فراہم ہوتی رہتی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں