چائے اور عشق(اختصاریہ)۔۔شاہد محمود

چائے کا لطف نزاکت سے جرعہ جرعہ پینے میں ہے ۔۔ دہائیوں پہلے جب آتش جوان تھا اور وہیل چیئر کا تصور تک زندگی میں نہ تھا تو ہمارے ایک سائنسدان دوست اسلام آباد سے لاہور آئے۔ ہمارے ذمے انہیں چمن سے اورنج فلیور کی آئسکریم کھلانا ہوتا تھا اور وہ اس وقت تک آئس کریم کھاتے جب تک ان کا دل اوب نہ جاتا ۔ ایسی ہی اک محفل، جو ان کے بیرون ملک کسی کانفرنس میں شرکت کے بعد سجی تھی، میں وہ گویا ہوئے یار شاہد ہم لوگ عشق نہیں کر سکتے ۔۔ اب میں نے ان کا چہرہ تکتے ہوئے کہا بھائی جان چار بیٹے ہیں ما شاء اللہ آپ کے اور اب آپ عشق کا سوچ رہے، کہیں ممتاز مفتی کی روح تو حلول نہیں کر گئی ۔۔۔ کہتے نہیں ۔۔۔ ہوا کچھ یوں کہ ٹھنڈے ملک میں کانفرنس تھی ۔۔۔ ایک دن میں شام کو ٹہلتے سڑک کنارے ایک کیفے کے باہر لگی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ کر چائے کا مگ منگوا کر پینے لگا تو میری ساتھ والی ٹیبل پر ایک نوجوان جوڑا آ کر بیٹھا جن کے عشق کی خوشبو میں نے محسوس کی ۔ ان کی زبان تو میں سمجھ نہیں سکتا تھا ، انہوں نے بھی چائے منگوائی اور چسکی لے لے کر چائے پیتے اور اک دوجے کی باتوں اور آنکھوں میں کھو جاتے ۔ کہتے ہیں گھنٹہ بھر میں ان پر رشک کرتا رہا پھر میرے ذہن میں خیال کوندا کہ ہم پاکستانی عشق نہیں کر سکتے اور میں وہاں سے اٹھ آیا ۔ میں نے کہا جناب ساری کہانی میں پاکستانی کہاں سے آ گئے اور ان کا عشق ۔۔ تو بات کاٹ کر گویا ہوئے اس ایک گھنٹے کے دوران میں پانچ مگ چائے کے منگوا کر پی چکا تھا اور اس جوڑے نے جو چائے کے مگ گھنٹہ پہلے منگوائے تھے وہی ان کے سامنے رکھے تھے جو ویٹر وقفے وقفے سے اوون میں گرم کر کے ان کے سامنے رکھ دیتا اور وہ چائے کی چسکیوں ساتھ جرعہ جرعہ محبت کے گھونٹ بھرتے رہے ۔۔ ہم لوگ تو چائے بھی لطف اٹھا کر نہیں پیتے تو عشق کیا خاک کریں گے ۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply