مُک مُکا کی تیاری۔۔نصرت جاوید

ہماراآئین تحریری طورپر مرتب ہوا ہے۔ غیر تحریری آئین کے مقابلے میں سیاسیات کے عالم اس نوع کے آئین کو بہتر گردانتے ہیں۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ تحریری صورت میں لکھے آئین کی بدولت کسی ریاست کے شہری بآسانی جان لیتے ہیں کہ ان کے حقوق وفرائض کیا ہیں۔ اس سے بھی اہم تر حقیقت یہ ہے کہ تحریری آئین اقتدار کے ڈھانچے اور مختلف ریاستی عہدوں کے مابین اختیارات کی تقسیم واضح انداز میں اجاگرکردیتا ہے۔

اس ضمن میں وزیر اعظم کو ہمارے تحریری آئین نے “چیف ایگزیکٹو” قرار دے رکھا ہے۔ اسے منتخب کرنے یا وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے ضوابط بھی واضح انداز میں بیا ن کردئیے گئے ہیں۔ تحریری طورپر لکھے ان ضوابط سے ابہام کی گنجائش نکالنا ممکن نظر نہیں آتا۔ ہمارے ہر حکمران کو تاہم خواہ وہ منتخب ہو یا وردی میں ملبوس دیدہ ور ایسے نورتن ہمیشہ مل جاتے ہیں جو تحریری آئین کو بھی موم کی ناک بنادیتے ہیں۔ ان دنوں بھی ایسا ہی کھلواڑ برپا ہے۔

رواں مہینے کی 8تاریخ کو اپوزیشن جماعتوں نے باہم مل کر قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروائی۔ ہمارے تحریری آئین کا آرٹیکل 95-Aواضح انداز میں بیان کرتا ہے کہ اگر اراکین قومی اسمبلی کی مختص تعداد تحریری صورت میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کردے تو زیادہ سے زیادہ سات دنوں کے درمیان قومی اسمبلی کا اجلاس بلواکر اس کی بابت گنتی کروالی جائے گی۔

آرٹیکل 95-Aکئی بار پڑھنے کے بعد مجھ سادہ لو ح نے فرض کرلیا کہ قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع ہوجانے کے بعد زیادہ سے زیادہ 15مارچ 2022تک یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ عمران خان صاحب کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر برقرار رکھنے والی اکثریت میسر ہے یا نہیں۔ سیانوں نے مگر سمجھایا کہ “سات دن” کا آغاز درحقیقت اس روز سے ہوتا ہے جب قومی اسمبلی کے رواں اجلاس کے دوران وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ایوان میں بھی پیش کردی جائے۔

یہ دلیل سنتے ہوئے میرے جھکی ذہن میں سوال اٹھتا رہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہی پیش کی جاسکتی ہے تو اپوزیشن نے اسے قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کروانے کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ اس کے علاوہ خیال یہ بھی آیا کہ اگر کوئی وزیر اعظم اکثریت کھودینے کے باوجود کئی ہفتوں تک قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کروانے کی اجازت ہی نہ دے تو اسے لگام کیسے ڈالی جائے۔

مذکورہ سوال کا جواب دینے کے بجائے حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے سیانے مجھے آئین کے کسی حکم اور اس پر “عملدرآمد کے طریقہ کار ” کے مابین فرق سمجھاتے رہے۔ یاد دلایا گیا کہ قومی اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں فقط وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہی جمع نہیں کروائی گئی ہے۔ ایک اور درخواست کے ذریعے تقاضہ یہ بھی ہوا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا جائے۔ ہمارے آئین میں یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ اگر اراکین قومی اسمبلی کی مختص تعداد قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا تقاضہ کرے تو اسے ہر صورت 14دنوں کے درمیان بلانا پڑے گا۔ اس شق کا جائزہ لیں تو قومی اسمبلی کا اجلاس 22مارچ سے قبل ہر صورت منعقد کیا جانا چاہیے۔

سپیکر قومی اسمبلی مگر اس ضمن میں پکڑائی نہیں دے رہے۔ یہ کالم لکھنے تک قومی اسمبلی کے اجلاس کی تاریخ طے نہیں ہوئی تھی۔ تحریک انصاف نے البتہ 27مارچ کے دن اسلام آباد میں “دس لاکھ” کا ہجوم جمع کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے مذکورہ فیصلے سے مشتعل ہوکر اپنے کارکنوں کو 23مارچ کے دن سے اسلام آباد پہنچنے کے لئے سفر کا حکم صادر کردیا ہے۔ ان کا رویہ تحریک انصاف کے حامیوں کو “آکے وخا تے سئی” والا پیغام دیتا نظر آرہا ہے۔

وزیر اعظم کے خلاف جو تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی ہے ذاتی طورپر میں اسے نامناسب تصور کرتا ہوں۔ عمران خان صاحب کے اندازِ سیاست وحکومت کی بابت ہزاروں تحفظات کے باوجود خلوصِ دل سے خواہاں ہوں کہ ان سے اپنی آئینی مدت مکمل کرنیکا حق نہ چھینا جائے۔ بہرحال جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوگئی تو اصولوں پر ہر صورت ڈٹے رہنے کے دعوے دار عمران خان صاحب کو قومی اسمبلی کا اجلاس جلد از جلد طلب کرنے کا اہتمام کرنا چاہیے تھا۔

اس اجلاس کے ذریعے وہ “یہ میں ہوں اور یہ میرے خلاف تحریک عدم اعتماد ہورہی ہے” والا پیغام دیتے۔ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب ہوجاتی تو اس کے بعد کو بہ کوجاکر عوام کو بتانا شرع ہوجاتے کہ انہیں ان کے منصب سے باہمی اختلافات میں تقسیم ہوئی اپوزیشن نے یکسوہوکر کیوں ہٹایا۔ اپنے خلاف مبینہ طورپر متحرک ہوئے مافیا کو بے نقاب کرتے ہوئے یوں آئندہ انتخاب کی تیاری شروع کردیتے۔ ان کی جگہ لینے والے وزیر اعظم کو ویسے بھی کئی مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔

عمران حکومت نے 2019میں آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا اس کے ہوتے ہوئے ستمبر 2022کے اختتام تک بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں کو ہر صورت بڑھانا ہے۔ عمران خان صاحب نے تاہم چند دن قبل مذکورہ معاہدے سے پہلو تہی کا اعلان کیا۔ بجلی اور پیٹرول کے نرخ مزید بڑھانے سے انکار کے علاوہ ملک میں صنعت کاری کو فروغ دینے کے نام پر کئی رعایتوں اور ایک ایمنسٹی سکیم کا اعلان بھی کردیا۔ ان کے اقدامات نے آئی ایم ایف کو “یہ کیا ہورہا ہے” والے سوالات اٹھانے کو مجبور کردیا۔ عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ گزشتہ ہفتے کے دوران زوم کالز کے ذریعے ان سوالات کے تسلی بخش جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس کی جانب سے ان کالزکے باوجود ابھی تک اطمینان کا اظہار نہیں ہوا ہے۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ 2019میں جو معاہدہ طے پایا تھا اس پر عملدرآمد اب ممکن نہیں رہا۔

سوال اٹھتا ہے کہ اگر عمران خان صاحب وزارت عظمیٰ سے فارغ کردئیے گئے تو ان کی جگہ آنے والا وزیر اعظم بھی مذکورہ معاہدہ پر عملدرآمد سے انکار پر قائم رہے گا یا نہیں۔ اگر وہ انکار پر قائم رہا تو ہماری معیشت کو سہارا دینے کو نسے امیر اور طاقت ور ممالک ہمیں بھاری بھر کم رقوم آسان شرائط پر فراہم کرنے کو آمادہ ہوں گے۔ بیرونی مدد اور قرضوں کے بغیر وطن عزیز میں مہنگائی کی اذیت دہ لہر سے بچنا ممکن ہی نہیں۔ عمران خان صاحب کی فراغت کے بعد اس لہر میں مزید شدت آئی تو عوام کی کثیرتعداد”تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد” والا راگ الاپنا بھی شروع ہوجائے گی۔ ٹی وی سکرینوں پر تحریک عدم اعتماد جمع کروادینے کے بعد ان دنوں ٹی وی سکرینوں پر اِتراتے اپوزیشن رہ نما اس کی وجہ سے اپنے عزیز ترین اینکروں کے فون اٹھانے سے بھی گھبرائیں گے۔

قومی اسمبلی کا اجلاس جلد از جلد طلب کرنے سے گریز کرتے ہوئے عمران خان صاحب درحقیقت اعتراف کررہے ہیں کہ انہیں 342افراد پر مشتمل ایوان میں 172اراکین کی حمایت میسر نہیں رہی۔ اسی باعث وہ اپنے “دس لاکھ” حامیوں کو 27مارچ 2022کے روز

اسلام آباد جمع کرنا چاہ رہے ہیں۔ ان کے بلائے اجتماع کی رونق کو گہن لگانے کے لئے مولانا فضل الرحمن نے اپنے بندے بھی طلب کرلئے ہیں۔ دونوں جانب سے اسلام آباد کو بپھرے ہجوم کے حوالے کرنے کی ضد وطن عزیز میں امن وامان کے حتمی ذمہ داراداروں کو لاتعلق نہیں رہنے دے گی۔ 1993میں نواز شریف کی پہلی حکومت کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو لانگ مارچ کی صورت اسلام آباد پہنچنے کے بعد ویسا ہی ماحول بنانا چاہ رہی تھیں۔ ان کے ارادے نے ان دنوں کے آرمی چیف کو متحرک ہونے کو مجبور کیا۔ ان کی مداخلت”کاکڑفارمولہ” کا باعث ہوئی۔ مجھے خدشہ ہے کہ 27مارچ کے دن اسلام آباد میں “دس لاکھ” افراد جمع کرنے کی ضد تاریخ دہرانے کو مجبور کردے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

شنید یہ بھی ہے کہ اب کی بار شاید کسی “کاکڑ” کے بجائے عالم اسلام کے ایک بہت ہی بااثر اور مالی اعتبار سے فراغ دل حکمران کو متحرک ہونا پڑے گا جو برادر ملک پاکستان میں ابتری اور خلفشار کی بابت پہلے ہی سے کافی پریشان ہیں۔ سکرینوں پر لگائی بڑھکوں کے برعکس حکومت اور اپوزیشن کے مابین میری دانست میں “مک مکا” کی تیاری ہورہی ہے۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کے جذبات اور رائے ممکنہ “مک مکا” کے تناظر میں کسی وقعت کی حامل نہیں۔ سلاطین کی چالوں سے بے اختیار رعایا ازل سے بے خبر ہی رہی ہے۔

Facebook Comments

نصرت جاوید
Nusrat Javed is a well-known Pakistani columnist, journalist, and anchor who writes for the Express News, Nawa e Waqt, and Express Tribune.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply