• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سچ ہماری سماعت پر خراشیں ڈال دیتا ہے ۔۔۔۔اسد مفتی

سچ ہماری سماعت پر خراشیں ڈال دیتا ہے ۔۔۔۔اسد مفتی

31 اکتوبر کو ہماری دنیا کی آبادی 7.2 ارب ہو گئی ہے ۔دنیاکے 7.2 ارب ویں بچے (بچی) نے ہمارے ہمسائے میں جنم لیا۔یو پی بھارت کے دارالحکومت لکھنوکےقصبےمیں واقع ایک ڈلیوری ہوم میں پیدا ہونے والی اس بچی کا نام نرگس رکھا گیا ہے ۔بدھ کی صبح 7 بج کر 20 منٹ پر 23 سالہ ماں ونیتا نے ایک خوب صورت بچی کو جنم دے کر اپنا نام تاریخ میں درج کروالیا ہےکہ اس کی پیدائش کے ساتھ ہی ہماری اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی والی دنیا کی تعداد 7.2 ارب تک جا پہنچی ہے یہی وجہ ہے کہ بھارت کے کانگرسی رہنما غلام نبی آزاد نے کہا ہے کہ ہندوستان کے 7.2 ارب ویں بچے کی پیدائش خوشی کی نہیں بلکہ فکر کی بات ہے ۔یاد رہے کہ بھارت میں ہر دس منٹ میں گیارہ بچے جنم لے رہے ہیں۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی 7.2ارب ویں بچے کی پیدائش کا اعزاز فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں پیدا ہونےوالی بچی “ڈاینکامے”کے حصے میں آیا ہے ۔ڈھائی کلو گرام وزن کی یہ بچی بھی عین اسی دن ،اسی گھنٹے،ا سی منٹ اور اسی سیکنڈ میں پیدا ہوئی تھی جب بھارت کی نرگس نے جنم لیا تھا سو دونوں بچیوں کو اعزاز کا حقدار قرار دیا جا رہا ہے ۔حقدار کو حق مل گیا لیکن اس حقیقت کا کیا کہا جائے کہ اس صدی کے آخر تک دنیا کی ابادی د گنی ہو جائے گی ایک اندازے کے مطابق میں دنیا کی آبادی میں ہر سال آٹھ کروڑ انسانوں کا اضافہ ہو رہا ہے جس نے ماہرین کو حیران کر دیا ہے کہ دنیا کی آبادی میں اضافہ ان کی توقعات سے کہیں زیادہ رفتار سے ہو رہا ہے ۔میرے حساب سے دنیا تباہی کے ایک نئے حصے میں داخل ہو رہی ہے ،جس میں آبادی میں تیز رفتار اضافہ ،ماحولیاتی تبدیلی اور تیل کی پیداوار اپنے انتہا درجے پر پہنچ کر کم ہونا شروع ہو گئ ہے ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ دنیا ایک خطرناک طوفان کی طرف بڑھ رہی ہے کہ 1960 سے اب تک دنیا کی آبادی دگنی ہوگئی ہے ۔
گذشتہ چند مہینوں میں اس بارے میں قیاس آرائیوں کا سلسہ زورو شور سے جاری تھا کہ 7۔2ارب واں بچہ دنیا کے کس خطے میں جنم لے گا ۔اقوام متحدہ کے شعبہ آبادی کے ادارے نے پیش گوئی کی تھی کہ یہ بچہ 31 اکتوبر کو پیدا ہو گا سٹے بازوں کے مطابق یہ بچہ بر اعظم ایشیا میں ہی ہو گا یاد رہے کہ اس سے قبل 1999 میں دنیا کی کل آبادی چھ ارب کے ہندسے کو چھونے والی بچی بوسنیا میں پیدا ہوئی تھی لیکن 2۔7 ارب ویں بچے کی پیدائش کے بار میں یہ منطق دی جارہی تھی کہ ایشیا میں سورج دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت پہلے طلوع ہوتاہے اور ساؤتھ ایشیا میں بچوں کی پیدائش میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اس لیے قرعہ فال ایشیا بالخصوص ساؤتھ ایشیا کے ہی حصے میں نکلا ۔جیسا کہ ابھی میں نے ذکر کیاہے کہ چھ ارب ویں بچی بوسنیا میں پیدا ہوئی تھی اس کاخیر مقدم اقوام متحدہ کے مطابق سیکر یٹری جنرل کوفی عنان نے کہا تھا اس کی تاریخ پیدائش 12 اکتوبر 1999 تھی اور اب اس کی عمر 19 برس ہو چکی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق ایسا بچہ جس کے آتے ہی دنیا کی آبادی سات ارب سے آٹھ ارب ہو جائے گی، کی پیدائش 15 جون 2025 کو متوقع ہے ۔ماہرین کے مطابق اگر اس وقت کی عالمی آبادی دراصل اس شعبے میں ہونے والی ترقی ،فیملی پلاننگ اور آبادی میں اضافے پر قابو رکھنے (پانے نہیں) کے لئے کیے جانے والے اقدامات کا نتیجہ ہے اگر یہ صورت حال کنٹرول میں رہی تب بھی دنیا کی آبادی اس صدی کے آخر میں دوگنی سے زائد ہوجائے گی اور کنٹرول دسترس سے باہر ہو گیا اور اضافے پر قابو نہ رہا تو اس صدی کے اواخر تک خطہ ارض پر انسانوں کی کل تعداد 27 بلین(ارب) ہو جائے گی جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہوا کہ موجودہ آبادی سے چار گنا زیادہ ۔اگر 1950 سے فیملی پلاننگ کا ڈول نہ ڈالا جاتا اس پر عملدرآمد شروع نہ ہوتا اور اس سلسلے کو کامیابی سے آگے نہ بڑھایا گیا ہوتا تو آج کی دنیا کی آبادی کچھ اور ہی رنگ دکھا رہی ہوتی ۔یہاں مجھے ایک اور با ت بھی واضح کرنا ضروری ہے ،ایشیائی ترقیاتی بینک گذشتہ دنوں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ 2022 کے وسط تک ایشیا میں پہلی مرتبہ ایسا ہو گا کہ وہاں کی نصف آبادی دیہی علاقوں کی بجائے شہروں میں مقیم ہو گی ان کی ہجرتوں کا سلسلہ دو وقت کی روٹی سےبندھا ہوا ہے ،حکومتوں کے بلند بانگ ترقیاتی دعوؤں ،نعروں اور پراپیگینڈے کے باوجود انہیں دو وقت کی روٹی نہیں ملتی دیہی علاقوں میں ایک تہائی آبادی ان لوگوں کی ہے جو مشکل سے گزارہ کرتے ہیں یعنی جتنا چاہیں اتنا نہیں کھا سکتے جبکہ ایک تہائی ان لوگوں پر مشتمل ہے جو غذا کو ترستے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہماری اس دنیا میں ہر 6۔3 سیکنڈ پر ایک موت بھوک کی وجہ سے واقع ہو تی ہے ۔ہر سال 15 ملین بچے غذا کی کمی کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔
یہ تو تھی ایشیا کی آبادی پر گفتگو ۔۔۔اب میں مختصراً جہاں میں رہتا ہوں وہاں کا بھی ذکر کرتا چلوں ۔۔۔ایک اندازے کے مطابق یورپ میں اموات بدستور پیدائش سے زیادہ ہونگیں اور یہ سلسلہ پوری یورپین یونین میں جاری رہے گا ۔ایک حالیہ سروے کے مطابق 2025تک اٹلی کی آبادی کم ہونا شروع ہو جائے گی اس کے ایک سال کے بعد یعنی 2026 میں جرمنی ،سلواکیہ اور 2027 میں پرتگال کی آبادی کم ہونا شروع ہو جائے گی اور پھر 2040 تک برطانیہ بھی اس کی زد میں آ جائے گا اور حرف آخر کے طور پر 2055 تک یورپین یونین کے ممالک کی آبادی 20 ملین کم ہو جائے گی ۔
میں نے کہیں پڑھا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیشتر تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی اس لئے ہے کہ انہیں خود کو شادی کے قابل بنانے کے لیےصرف کیا جائے اور شادی کا مطلب وہ لیتے ہیں بچے ۔۔۔۔۔۔۔
ایک بیوی ہے چار بچے ہیں
عشق جھوٹا ہے لوگ سچے ہیں

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply