جنرلزم یا سنسیشنلزم۔۔صائمہ بخاری بانو

زنیرہ نامی ایک خاتون ولوگر پلس تجزیہ نگار صاحبہ جن کے پروگرام کا فارمٹ ہی شاید فلمی اور ڈرامہ انڈسٹری سے متعلق سلیبریٹیز کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اچھالنے کے سوا کچھ اور نہیں، آج اتفاقاً  مجھے ان محترمہ کے ویوز (عفت عمر اور میشا شفیع کے حوالے سے) سننے کا موقع ملا تو میں حیران ہی رہ گئی محترمہ تجزیہ نگار نے کمال بیباکی سے عفت عمر کے خلاف ایسا سخت موقف اختیار کیا جو محض میڈیا ٹرائل ہی نہیں بلکہ کردار کشی کے زمرے میں آتا ہے۔ اپنے ولوگ ویڈیو کی ٹیگ لائین میں بی بی نے محترم اداکارہ کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ پاگل پن کے دوروں کا شکار ہیں اس کے علاوہ ماضی میں ان کے کردار کے حوالے سے بھی نہایت سخت الفاظ درج تھے۔ تجزیہ نگار صاحبہ نے ایک خاص عدالتی کاروائی کے احوال کو بھی خوب مرچ مسالے لگا کر بیان کیا تو ان محترمہ کی زبان سے اپنی ہی جنس کے لئے انگاروں سے دہکتے الفاظ سن کر مجھے بے ساختہ امجد اسلام امجد کا یہ شعر یاد آ گیا کہ
ہر شے کی ماہئیت پر کرتا ہے تو سوال
تجھ سے اگر یہ پوچھ لے کوئی کہ تو ہے کون
تجزیہ نگار صاحبہ اگر خود ایک لوئر مڈل کلاس فیملی سے آ کر اپنے لئے لباس، انداز و اطوار میں طرحداری کی خو چنتی ہیں اور وہ خود کو ان نعمتوں اور آسائشوں کا حقدار بھی مانتی ہیں تو انہیں میشا صاحبہ کے لباس، انداز و اطوار پر سوال کا بھی کوئی حق نہیں پہنچتا۔ میشا شفیع ایک پڑھی لکھی خاتون ہیں وہ ایک تعلیم یافتہ اور لبرل فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایسی فیملیز کے بچے جو اپنا ہائی سکول بھی عموما دنیا کے بڑے اور نامی گرامی تعلیمی اداروں میں پڑھا کرتے ہیں ان سے اگر آپ یہ توقع رکھتی ہیں کہ وہ کسی جلباب سے اپنا سر اور منہ ڈھانپ کر بیٹھ رہیں تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔ جبکہ دوسری جانب آپ اپنے لباس و اطوار کے حوالے سے ایک حرف غلط بھی سننے کو تیار نہیں ہیں۔ تجزیہ نگار صاحبہ کو یہ بات بخوبی علم ہونا چاہئے کہ کسی بھی فرد کو محض اس کے لباس یا لایف سٹائل کی بنیاد پر جج نہیں کیا جا سکتا، بھلے اب وہ عفت عمر ہوں، علی ظفر ہوں یا کہ میشا شفیع البتہ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ افنڈنگ ٹویٹس، پوسٹ یا ٹرینڈز کے ذریعے علی ظفر یا کسی بھی فرد واحد کو ان کا جرم ثابت ہو جانے سے پہلے حتی کہ اس کے بعد بھی کسی بھی قسم کی ذہنی، جسمانی یا روحانی اذیت دینا غیر اخلاقی عمل ہے لیکن اگر کوئی خاتون کہہ رہی ہیں کہ وہ جنسی ہراسانی کا شکار ہوئی تو جوابا ان کے لباس یا طرز و اطوار پر بھپتی کسنا یا ملزم کے ساتھ ان کے پرانے اور دوستانہ مراسم کے تذکرے کرنا، ماضی میں خوش گوار روابط کے دوران لی گئی کسی بھی قسم کی تصاویر یا پھر ان میں سے جھلکتی ہوئی قربت کو ان کے خلاف جواز بنانا بھی درست نہیں آپ ان خاتون کے موقف، الزام یا اس تکلیف کو جھٹلا نہیں سکتے کہ جس سے وہ گزر چکی ہیں۔ بھلے اب کوئی بھی ہومیو پیتھک تجزیہ نگار ہو اسے اس امر پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے کہ اگر باہمی رضا مندی سے دو افراد ریلیشن میں ہوں تب بھی کسی ایک فریق کا دوجے فریق کو اس کی اجازت (کونسنٹ) کے بنا چھونے کا عمل تو درکنار بلکہ محض ایسی کوشش ہی جبر کے زمرے میں آئے گی۔
مانا کہ علی ظفر اور ان کی فیملی تکلیف سے گزرے ہیں لیکن دوسری طرف میشا اور ان کی والدہ نے بھی یہی اذیت سہی۔ اگر میشا صاحبہ کا لباس اور اطوار اسلامی یا اخلاقی اقدار کے عین مطابق نہیں تو علی ظفر صاحب بھی ٹخنوں تک تنبان کھینچے یا شکم تک ریش لئے نہیں پھرا کرتے، اگر مذکورہ تصویر میں میشا صاحبہ علی ظفر سے جڑ کے کھڑی ہیں تو علی ظفر صاحب بھی میشا سے چپکے ہوئے کھڑے ہیں، اگر میشا کسی ڈنر پارٹی میں ہنس رہی ہیں یا کہ مسکراتے ہوئے تصاویر اتروا رہی ہیں تو علی ظفر بھی اس واقعے کے پبلک ہونے کے بعد کسی مسجد میں معتکف ہو کر چلہ نہیں کاٹ رہے بلکہ وہ تو اپنی زندگی کو بھر پور طریقے سے گزار رہے ہیں اگر سوشل میڈیا پر ان کے خلاف کسی بھی قسم کے ٹرینڈز بنائے گئے یا کہ ٹویٹس کی گئی تو ادھر مین سٹریم میڈیا پر علی ظفر نے بھی تعلقات اور دوستیوں کی بنا پر اپنے حق میں پروگرامات کنڈکٹ کروائے، اپئیرنسز دیں ایسے میں ان کی بیگم ڈٹ کر ان کے ساتھ کھڑی رہیں جبکہ میشا اور ان کی فیملی نے خاموشی کو ہی اپنا شعار بنائے رکھا اب یہ بات ہمارے سمجھنے کی ہے کہ خاموشی ظرف کی نشانی ہوا کرتی ہے۔
ایک بات میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہمارے سو کالڈ تجزیہ نگار اپنے ہر پروگرام میں کسی نہ کسی بڑی شخصیت کی کردار کشی کرنے کے بعد آخر کن اسلامی اور اخلاقی اقدار کی بات کرتے ہیں؟ جب یہ خود دوجوں پر بہتان لگاتے ہیں، ان کی کردار کشی کرتے ہیں اور نمک مرچ لگا کر خبر بیچنے کے فعل میں ملوث ہیں تو یہاں ان کی جانب سے اخلاقیات یا اقدار کی تبلیغ کا محل نہیں دکھتا۔ کیا مین سٹریم یا سوشل میڈیا پر بیٹھے افراد کا یہ رویہ اور عمل کسی بھی زاویے سے اسلامی، اخلاقی یا صحافتی اقدار اور حدود کا پاسدار ہے؟ نہیں! بلکہ اس طرح کا رویہ اور عمل ہر نوع کی اخلاقی حدود سے باہر کی شے ہے؟ لہذا پہلے اپنا قبلہ تو درست کیجئے پھر کسی اور پر انگلی اٹھا لیجئے گا، جب تک کسی معاشرے میں کوئی خاص نظام یا (اسلامی نظام) مکمل طور پر نافذ نہیں ہو جائے تب تک آپ افراد کو کسی ایسے کٹہرے میں نہیں کھڑا کر سکتے جو اس خاص نظام یا (اسلامی طرز زندگی) کی بات کرتا ہے۔ آدھے تیتر اور آدھے بٹیر بن کر آپ کسی دوجے پر کیسے انگلی اٹھا سکتے ہیں جبکہ آپ کا اپنا رویہ اور طرز زندگی بھی اسی نقد کے اصولوں کی گرفت میں مقید ہے۔ یہ ایسے اصول ہیں جو آپ نے دوجوں کے لئے خود ہی سے طے کر لئے ہیں۔
خدارا! آپ لوگ محض عورت کو ہی گناہ کا سمبل سمجھنا چھوڑ دیجے۔ جب تک اسلامی تعلیمات اخلاقی قدریں عام نہ ہوں اور مکمل نظام نافذ نہ ہو تب تک محض اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے آپ دینی تصورات ے اپنے من پسند اصول بٹس اینڈ پیسز کی صورت اٹھا کر دوجوں کے سٹینڈرڈ جج کرنے کے حق دار نہیں۔
گیٹ لایف!

 

 

Facebook Comments

صائمہ بخاری بانو
صائمہ بانو انسان دوستی پہ یقین رکھتی ہیں اور ادب کو انسان دوستی کے پرچار کا ذریعہ مان کر قلم چلاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply