آؤ کچھ عقل کی باتیں کریں۔۔برکت حسین شاد

علما  کرام کہتے ہیں کہ رسول اللہ کی شان میں گستاخی سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں! یقیناً ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسئلہ یہاں حرمت رسول کا ہے یا قضیہ کسی کے جذبات مجروح ہونے کا ہے؟ پہلے یہ فیصلہ ہونا چاہیے۔ جب یہ فیصلہ ہو جائے کہ حرمت اہم ہے یا جذبات تو پھر بات کو کسی منظم حکمت عملی سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

اگر فیصلہ حرمت رسول کے اہم ہونے کے حق میں ہے تو پھر مسئلے کو خدا کے حکم سے جوڑ کر اپنے جذبات ٹھنڈے رکھتے ہوئےمغرب کو بتائیں کہ خدا نے حرمت رسول کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہوا ہے۔ اسکی توجیح کیا ہے ہمیں معلوم نہیں لیکن یہ حکم ہے جس کی پیروی ہم پر فرض ہے اور آپ سے بھی احترام کرنے کی توقع کرتے ہیں۔ لبرل سماج آپکی بات سنے گا بھی اور مذہب کی عزت  میں الہیات کے کسی حکم یا شخصیت سے چھیڑخانی بھی نہیں کرے گا۔ کثیر الازواج کی توجیح کے بجائے حکم کے بارے میں بتائیں۔ اسی طرح دیگر دوسرے احکامات کے بارے میں بھی وضاحت کریں۔

اگر معاملہ آپ کے جذبات مجروح ہونے کا ہے جس کا الہیات سے تعلق نہیں تو لبرل مغرب آپ سمیت ہر ایک فرد کی آزادی کا علمبردار ہے توہین کے سلسلے کو آپ کے جذبات کی خاطر آگے بڑھ کر روکے گا نہیں کیونکہ وہ اس کی توجیع یہ دیتا ہے کہ فرد کی ذاتی رائے کو دوسرے فرد یا گروہ کے لئے بلڈوزر نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ فریڈم آف سپیچ کے خلاف ہے۔ فریڈم آف سپیچ میں آپ مذہب اور مذہبی اکابرین پر تو بات یا تنقید کر سکتے ہیں لیکن دو زندہ انسان ایک دوسرے کو برا بھلا نہیں کہہ سکتے! یعنی آپ ایکس کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نہ کرو یا یہ کرو جبکہ اسکی مرضی کچھ اور ہو ، آپ کہیں گے تو آپ پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام آ جائے گا۔

مغرب کی یہ توجیع آپکے نزدیک غلط ہے یا صحیح اسے آپکی پرواہ نہیں ہوگی ہاں الہیاتی احکامات کی توقیر ضرور کرے گا۔ کیونکہ وہ مذہب کو مانے یا نہ مانے اس کی عزت ضرور کرتا ہے کہ یہ بھی فرد کی چوائس کا معاملہ ہے۔

ایک نہایت ہی اہم بات ڈسکلوز کرنے جا رہا ہوں اور وہ یہ ہےکہ مغرب لبرل ازم کو تقریباً مذہب کا درجہ دے چکا ہے! اور لبرل ازم مغرب میں نیا مذہب بن چکا ہے۔ جسے مستقبل میں سیلیکون ورلڈ کا نام دیا جائے گا۔ سیلیکون ورلڈ یعنی ٹیکنالوجی کی دنیا جس کا دستور لبرل ازم ہوگا۔ آپ جتنا جلد مغربی دماغ کے ساتھ اپنا دماغ ملا کر چیزوں کو دیکھیں گے اتنی ہی زیادہ کامیابی متوقع ہے۔ بےہنگم تصادم سے اسے کچھ نقصان ہو نہ ہو ہمارا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔

دراصل ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ مغربی سوچ ہے کیا۔ وہ آج کھڑے کہاں ہیں۔ 2010 میں امریکہ نے ایک قانون پاس کیا تھا جس کی رو سے ایک مرد مرد سے اور عورت عورت سے شادی کر سکتی ہے۔ اس قانون کے پاس کرنے میں جو جواز بطور دلیل دیا گیا تھا وہ تھا زیادہ سے زیادہ خوشی کا حصول۔ لبرل ازم میں خوشی کی تعریف یہ ہے کہ ہر کام جس کے کرنے سے آپ کو خوشی ملے آپ کا حق ہے کہ آپ اسے کریں۔ آپ کی راہ میں کوئی اساطیری و دساتیری رکاوٹ مانع ہو نہ الہیات کی شقات آپ کو روک سکیں۔ یعنی فرد کی خوشی ہر اخلاق واوصاف اور آسمانی احکامات سے زیادہ مقدس و مقدم ہے! یہ اس نئے مذہب لبرل ازم کی بنیاد و اخلاقیات ہیں۔
اسی دلیل کو لے کر امریکہ میں اس سال ایک اور قانون منظور ہوا ہے جس میں چرس یا میری جوائانہ اور افیون استعمال کی جاسکے گی۔

اسی فریڈم آف سپیچ یا رائٹ آف پلیژر کو لے کر عیسائی فلم میکروں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی پر نہایت متنازعہ قسم کی فلمیں بنا رکھی ہیں۔ ان کے شادی شدہ ہونے پر بھی فلم بن چکی ہے اور ایک خاتون کو انکی بیوی ہونے کا سرٹیفیکیٹ بھی جاری کرچکے ہیں۔ یوسف نام کے ایک شخص کو ان کا والد بھی کہا جاتا ہے۔ اور بہت سی انکی ذات کے حوالے سے دوسری متنازعہ فلمیں اور کتابیں بھی بنائی اور لکھی گئی ہیں، جو معروف عیسائی اور مسلم عقیدے سے متصادم ہیں۔ لیکن وہاں بہرکیف چرچ کو غازیان صف شکن میسر نہیں جو گستاخوں کو اہل حرم کی طرح نمونہ عبرت بنا سکیں۔ سو چپ رہتے ہیں۔

یوں بھی مغرب نے ایک طویل جنگ کے بعد چرچ کی اجارہ داری سے نجات حاصل کی ہے، انہیں اہل مسجد و معبد اور ہیکل کے غازیان کی ذرہ برابر پرواہ نہیں ہوگی!
اس لئے اگر ہم نے پرواہ کرانی ہے تو کچھ حکمت عملی سے کام لے کر معقول راستہ اپنانا ہوگا۔ محض جذبات قتل و غارت اپنے ہی ملک میں توڑ پھوڑ اور احتجاج سے حاصل وصول کچھ نہیں ہوگا۔ الٹا نقصان ہی ہوگا۔ ملک گرے سے بلیک لسٹ میں چلا جائے گا جس سے بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جنہیں سہارنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگا۔

ہم مسلمانوں کے لئے حرمت رسول ہماری جانوں اور جذبات سے زیادہ مقدم ہونا ہمارے ایمان کا حصہ ہے لیکن اس کی مناسب اور پراز حکمت ڈسپلے کا اہتمام ہمارے جذبات کو زیادہ بہتر انداز میں پیش کرسکتا ہے اور یہی معقول راستہ اپنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ وگرنہ لبرل ازم کا عفریت ہماری اقدار کو کھا جائے گا۔ اگر ہم خود کو نہ بچا سکے تو حرمت کو کیسے بچا پائیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors

تاہم لبرل ازم کی کاٹ مارکسزم ہے
آج اگر آپ کے ملک میں سوشل ازم نافذ ہو جاتا ہے تو میں گارنٹی دیتا ہوں کہ کل مغرب آپ کے پیچھے پیچھے سگ بن کر چل رہا ہوگا۔ یہاں تک کہ اونٹ کے پیشاب کو بھی مقدس قرار دے کر آپکی خوشنودی حاصل کرنے کا بہانہ قرار دے کر غٹا غٹ پی رہا ہوگا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ لبرل ازم کو ہڑپ کرنے کی شکتی کیمونزم کے ٹائیگر کے سوا اور کسی ازم میں نہیں۔ آپ کیمونزم نافذ کرکے ایک طاقتور ملک بن جائیں گے۔ آپ محنت کشوں سے کام لیں بدلے میں روٹی کپڑا اور مکان دیجے جواب میں صرف دو سال میں ساؤتھ ایشیا کا چین بن جائیے۔ جب معیشت مضبوط ہوگی تو آپ کے تمام ابنارمل خیالات بھی نارمل اور زریں قرار دے دئیے جائیں گے۔

Facebook Comments