اندھوں کا جزیرہ(7)۔۔وہاراامباکر

فرض کیجئے کہ آپ ایسے جزیرے میں پہنچ گئے ہیں جہاں پر تمام لوگ پیدائشی نابینا ہیں۔ وہ سب بریل پر ناول، کہانیاں، ڈرامے، افسانے پڑھتے ہیں۔ اپنی انگلیوں سے چھو کر ننھے منے سے پیٹرنز سے معنی اخذ کرتے ہیں۔ آپ یونہی انہیں انگلیاں پھیرتے ہوئے کھلکھلا کر ہنستا ہوا دیکھتے ہیں یا کبھی آنکھ سے آنسو ٹپک پڑتا ہے۔ کیا جذبات ان کی انگلیوں کی پوروں میں ہیں؟
آپ انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب آپ ناول پڑھتے ہیں تو اپنی چہرے پر لگی دو گیندوں سے نشانہ اس کتاب کی خاص لکیروں اور خموں پر باندھ لیتے ہیں۔ چہرے کی ہر گیند خلیوں کا میدان ہے جس سے فوٹون ٹکراتے ہیں اور آپ ان سے لکیروں کی شکلوں کو محسوس کرتے ہیں۔ آپ کو قوانین کا ایک بڑا سیٹ ازبر ہے کہ کس شکل کا معنی کیا ہے۔ خمدار نقوش کو آپ کسی آواز کی طرح کا سمجھتے ہیں جیسے کوئی سر کے اندر بات کر رہا ہو۔ اس سے بننے والے نیوروکیمیکل سگنلنگ پیٹرن کی مدد سے آپ ہنس پڑتے ہیں یا اداس ہو جاتے ہیں۔
نہیں، آپ کوشش کرنے کے باوجود جزیرے والوں کو کچھ بھی نہیں سمجھا پائے۔
آپ اس سادہ سچ پر متفق ہو جاتے ہیں کہ انگلیوں کی پوریں یا چہرے پر لگی گیندیں صرف آلات ہیں جو باہر کی دنیا کی انفارمیشن کے مطابق دماغ میں کوئی سگنل پیدا کرتی ہیں۔ اور اس انفارمیشن کی تعبیر کرنا دماغ کا کام ہے۔ ان میں اور آپ میں فرق صرف سگنل کو پہنچانے کے طریقے کا ہے۔
جو بھی سگنل دماغ تک پہنچے، یہ اس کے معنی بنانا سیکھ سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس ڈیٹا کا سٹرکچر ایسا ہو جو بیرونی دنیا کے بارے میں کوئی اہم انفارمیشن دے سکے۔ دماغ اس کو سیکھ کر ڈی کوڈ کر لے گا۔ اور ایک مرتبہ اس فیکٹ کو اچھی طرح سے سمجھ لیں (نہیں، اس کو سمجھنا آسان نہیں) تو پھر اس کا اہم مطلب ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کو نہ ہی معلوم ہے اور نہ ہی دلچسپی ہے کہ ڈیٹا کہاں سے آ رہا ہے۔ اس تک انفارمیشن پہنچ رہی ہو تو یہ اس سے معنی اخذ کرنا سیکھ سکتا ہے اور اس کام کو کرنے میں دماغ بہت ہی ایفی شنٹ مشین ہے۔ یہ ایک جنرل پرپوز کمپیوٹنگ ڈیوائس ہے۔ اور اس تک سگنل پہنچانے کے لئے فطرت نت نئے طریقے بنا لیتی ہے۔
الیکٹرومیگنیٹک شعاعوں کے انعکاس سے پکڑے گئے فوٹون، ہوا میں کمپریشن، حرارت کی اور ٹیکسچر کی انفارمیشن جو بڑے سے حسیاتی مادے سے وصول ہوتی ہے جس کو جِلد کہتے ہیں۔ کیمیائی مالیکیول کے دستخط جو چکھنے اور سونگھنے کی انفارمیشن ہے۔ کھوپڑی کی بند تاریک تجوری میں یہ سب انفارمیشن ترجمہ ہو کر برقی سپائک کی صورت میں پہنچتی ہے۔
ترجمے کا کام ان سنسرز کا ہے۔ اور اس سے جو زبردست نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ کہ کوئی بھی سنسر لگایا جا سکتا ہے۔ اور ہم میں کئی اقسام کے سنسر ماحول کی معلومات اکٹھی کرنے کے لئے لگے ہیں جو مختلف قسم کے ذرائع سے ڈیٹا لا کر اسے ایک ہی شکل میں دیتے ہیں۔
لیکن کیا ہماری حسیاتی ڈیوائسز کو ایک ہی قسم کا دیکھا جا سکتا ہے؟ ایک خلیے سے ایک جاندار کا بننا ایک زبردست طریقے سے ہوتا ہوا بڑا پریسائز عمل ہے۔ حسیات کے یہ آلات اسی سے برآمد ہوتی ہے۔ ایک ہماری جینز بڑی ہی خاص ترتیب میں کھلتی ہیں۔ ایک کا ایکسرپیشن اگلے کو، وہ اس سے اگلے کو کھولتا جاتا ہے۔ فیڈبیک بھی ہے، فیڈ فارورڈ بھی لیکن یہ سب بہت ہی خاص طریقے سے ہوتا ہے۔ اس پورے پروگرام میں ہونے والی ایک بھی ہچکی بڑا فرق ڈال دیتی ہے۔ کسی کی آنکھ نہیں بن پاتی، کسی کے کان۔ صرف ایک پروٹین کی میوٹیشن کسی پوری حس کو آف کر دیتی ہے۔ تکلیف، خارش، درجہ حرارت سمیت کئی سنسر جلد کے ہیں، کئی بار ان میں سے کوئی بند ہو جاتے ہیں۔ دماغ اس سگنل کے ڈیٹا کے بہاوٗ سے محروم ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ بہت سے دیگر اقسام کے ڈیٹا کے بہاوٗ ہیں جن سے معنی اخذ کرنے کی صلاحیت سے ہم محروم ہیں، لیکن یہ ہمیں بائیولوجیکل دنیا میں نظر آتے ہیں۔ اگر آپ سانپ ہیں تو اپنی کھال سے انفراریڈ انفارمیشن پکڑ لیں گے۔ اگر آپ سیاہ نائف مچھلی ہیں تو برقی فیلڈ کو۔ اگر آپ بلڈ ہاونڈ ہیں تو انواع و اقسام کی بو کو۔ اگر آپ مول ہیں تو ناک پر بائیس انگلیوں جیسے سٹرکچرز کی مدد سے سرنگ کا تھری ڈی ماڈل بنا لیں گے۔ پرندے، گائے اور کیڑے مقناطیسی فیلڈ کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اور ان سب کے لئے فطرت کا حربہ یہ ہے کہ ہر حس کے لئے دماغ کو الگ سے ری ڈیزائن کرنے کی ضرورت نہیں۔ نئے سینسر آ سکتے ہیں۔ دماغ کا آپریشن اسٹیبلش ہونے کے بعد اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ خود کیسے ہیں۔
ڈیٹا سٹریم کا یہ تصور نئے ممکنات کھولتا ہے۔ جو سینسر ہمیں ملے ہیں، لازم نہیں کہ ان تک ہی محدود رہیں۔ لچکدار زندہ دماغ کے ماڈل کی پیشگوئی ہے کہ حسیات کے کسی بھی چینل پر کوئی دوسری انفارمیشن بھیجی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ویڈیو سگنل کو جِلد پر لمس میں بدلا جا سکے تو کیا دماغ جلد سے آنے والے ڈیٹا کی مدد سے “دیکھ” لینا سیکھ سکے گا؟ کیا بصارت میں آنکھ کو مکمل طور پر بھی بائی پاس کیا جا سکتا ہے؟
اس کا جواب ہاں میں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متبادل حسیات کی سائنس فکشن سے زیادہ عجیب دنیا میں خوش آمدید۔

Facebook Comments