ثمرِ محبوب: ہان کینگ (ترجمہ: عاصم بخشی)قسط1

مئی کے آخری دنوں کی بات ہے جب مجھے پہلی بار اپنی بیوی کے جسم پر خراشیں نظر آئیں۔ ڈیوڑھی بان کے کمرے کے باہر کیاریوں میں گُلِ یاس کی ارغوانی پتیاں یوں نظر آتی تھیں جیسے باہر نکلی زخمی زبانیں ہوں ، بزرگ شہریوں کے سینٹر میں داخلی راستے کی فرشی سلیں پھولوں کی سوکھی ہوئی سفید پتیوں سے اَٹی پڑی تھیں جو آنے جانے والوں کے جوتوں تلے پامال ہو رہی تھیں۔

سورج قریب قریب نصف النہار پہ تھا۔

رس بھرے شفتالو رنگ کی روشنی چھن کر بیٹھک کے فرش پر پڑتے ہوئے لاتعداد ریتلے ذرات اور زردانے نچھاور کر رہی تھی۔

نیم گرم سورج کی تلخ و شیریں روشنی میری سفید بنیان کے عقب میں پیوست ہو رہی تھی۔ میں اور بیگم اتوار کے اخبار کی ورق گردانی میں مشغول تھے۔

مہینوں سے محسوس ہوتی تھکن پچھلا پورا ہفتہ بھی بدستور قائم رہی۔ ہفتے کے اختتام پر کچھ سستانے کا وقت مل ہی جاتا ،لہٰذا میں ابھی چند منٹ قبل ہی جاگا تھا۔ پہلو کے بل لیٹے ہوئے میں نے آہستگی سے اپنے ناتواں اعضا کو ذرا آرام دہ حالت میں سمیٹا اور حد درجہ سست رفتاری سے اخبار پر نظر ڈالنے لگا۔

’ذرا دیکھو گے؟ نہ جانے یہ خراشوں کے نشان ختم کیوں نہیں ہو رہے۔‘

معنی خیز لگنے کی بجائے مجھے اپنی بیوی کے یہ الفاظ پردۂ سکوت میں ارتعاش پیدا کرتے محسوس ہوئے۔ میں نے سر اٹھا کر اس کی جانب خالی خالی نظروں سے دیکھا۔خیر اخبار میں موجود خبر پر جس جگہ پہنچا تھا وہاں انگلی رکھی اور ہتھیلی سے آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ کر سیدھا بیٹھ گیا۔ وہ اپنی قمیص کو انگیا تک چڑھا چکی تھی، کمر اور پیٹ پر گہری خراشیں نقش و نگار کا ایک نمونہ سا پیش کر رہی تھیں۔

’یہ کیسے ہوا؟‘

اس نے کمر کو اس حد تک بل دیا کہ میں اس کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے اس کی چُنٹ دار  سکرٹ کی زِ پ سے اوپر جاتے دیکھ سکتا تھا۔ کسی نوزائیدہ بچے کی مٹھی جتنی ہلکے نیلے رنگ کی خراشیں، اتنی واضح جیسے سیاہی سے پڑنے والے نقوش۔

’ بولو بھی ؟ یہ کیسے ہوا؟‘ میری تیز اصرار کرتی آواز ہمارے مختصر سے پیانگ یانگ فلیٹ کے سکوت کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔

’مجھے نہیں معلوم۔۔۔میں نے یہی سوچا کہ شاید انجانے میں کسی چیز سے ٹکرا گئی ہوں گی اور خراشیں خود بخود غائب ہو جائیں گی۔۔۔لیکن یہ تو مزید بڑھ رہی ہیں۔‘

وہ اس طرح نظریں چرا رہی تھی جیسے کوئی بچہ چوری چھپے شرارت کرتے پکڑا جاتا ہے۔ اپنے لہجے کی کاٹ پر ندامت محسوس کرتے ہوئے میں نے ذرا نرم خو لہجہ اپنایا۔

’کیا درد نہیں ہو رہا؟‘

’نہیں، بالکل بھی نہیں۔ بلکہ خراشوں کی جگہ بالکل بے حس ہو گئی ہے۔ لیکن یہ تو اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات ہے۔‘

کچھ لمحے قبل نظر آنے والی ندامت کی جگہ اب ایک ہلکی سی بے محل مسکراہٹ نے لے لی تھی۔ میری بیوی کے ہونٹوں پر کھیلتی وہ مسکراہٹ یہ سوال کرتی محسوس ہوتی تھی کہ کیا اسے ہسپتال جانا چاہیے؟

ساری صورت حال سے کچھ عجیب سی لاتعلقی محسوس کرتے ہوئے میں نے اپنی بیوی کے چہرے پر ایک سرد غیر جذباتی نگاہ ڈالی۔ سامنے موجود چہرہ اجنبی سا محسوس ہوتا تھا۔ نہ صرف اجنبی بلکہ تقریباً مصنوعی، گمان ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم چار سال سے ایک بندھن میں بندھے تھے۔

وہ مجھ سے تین سال چھوٹی تھی اور اِسی سال انتیس برس کی عمرکو پہنچی تھی۔ شادی سے پہلے ہم اکٹھے باہر نکلتے تو وہ شرمسار حد تک کم عمر نظر آتی، اکثر لوگ اسے کوئی اسکول کی بچی سمجھ بیٹھتے۔لیکن اب اس چہرے پر تھکن کے واضح آثار تھے جو اس کی بچگانہ معصومیت سے میل نہیں کھا رہے تھے۔ بعید از قیاس تھا کہ اب کوئی اسے اسکول کی بچی تو کیا یونیورسٹی کی طالبہ بھی سمجھتا۔ اب وہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ لگتی تھی۔ کچے سیبوں کے سےرخسارجن میں ابھی سرخی آنا شروع ہوئی ہو ،گندھی ہوئی مٹی کی طرح دبے دبے تھے۔کمر جو کبھی ننھی سی شکر قندی کی طرح نرم و گداز تھی ،پیٹ جو زاویہ دار خوبصورت بل رکھتا تھا، اب قابل رحم طور پر دبلے نظر آتے تھے۔

بےساختہ وہ لمحہ ذہن میں دھندلایا جب میں نے اپنی بیوی کو آخری بار برہنہ دیکھا تھا ، یعنی اتنی روشنی میں کہ ٹھیک سے نظر آ جائے۔ اِس سال نہیں ،یہ تو خیر پکی بات تھی، میں تو پچھلے سال کے بارے میں بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔

ایک ایسے انسان کے جسم پر موجود اتنی گہری خراشیں کس طرح میری نظر سے اوجھل رہ سکتی تھیں جس کے ساتھ میں رہتا تھا؟ میں نے اپنی بیوی کی آنکھوں کے کناروں پر موجود چمکتی شکنوں کو گننے کی کوشش کی۔ پھر اسے تمام کپڑے اتارنے کے لیے کہا۔ رخساری ہڈیوں کی سرحد پر شرم کی سرخی سی نمودار ہوئی جو اس کے گرے ہوئے وزن نے مزید نمایاں کر دی۔ اس نے دبا دبا احتجاج کیا ۔

’اگر کسی نے دیکھ لیا تو؟‘

زیادہ تر فلیٹوں کی طرح جن کے سامنے کوئی باغ یا کار پارک تھا، ہماری بالکونی کا رخ مشرقی شاہراہ کی جانب تھا۔ چونکہ ہم نزدیک ترین رہائشی بلاک سے تین گلیاں دور تھے اور بیچ میں نہ صرف شاہراہ بلکہ چونگ نیانگ ندی بھی پڑتی تھی، ایک تیز ترین دوربین کے بغیر کسی کا تانکنا جھانکنا ناممکن تھا۔سڑک پر تیز  رفتاری سے رواں دواں گاڑیوں میں سے بھی کسی کو ہماری بیٹھک کی ایک جھلک ہی نظر آنی تھی۔ لہٰذا میں نے اپنی بیوی کے احتجاج کو بس شرم کی علامت سمجھا۔نئی نئی شادی ہوئی تو اسی بیٹھک میں، جس کے ایک طرف برآمدے میں جاتا ہوا شیشے کا دروازہ کھل رہا تھا اور دوسری طرف اگست کی تپش سے بھرپور گرمی کے توڑ کی خاطر کھڑکی کھلی ہوئی تھی، ہم دن دیہاڑے ایک دوسرےسے کئی کئی بار پیار میں مشغول رہتے، اناڑی پن سے اس نئے تجربے میں مصروف آخر کار تھک ہار جاتے۔

ایک آدھ سال گزرا تو محبت کے ان اولین تجربات کی شدت بتدریج ماند پڑ گئی۔ میری بیوی جلد سونے چلی جاتی ، اس کی نیند غیر معمولی طور پر گہری تھی۔ اگر رات کو دیر سے گھر لوٹتا تو مجھے یقین ہوتا کہ وہ پہلے ہی سو چکی ہو گی۔ داخلی دروازے کے تالے میں چابی گھما کر فلیٹ میں قدم رکھتا تو خوش آمدید کہنے کے لیے کوئی موجود نہ ہوتا،نہا دھو کر اندھیرے بیڈ روم میں داخل ہوتا تو اس کے سانسوں کا اتار چڑھاؤ مجھ پر ایک انوکھی سی مغمومیت طاری کر دیتا۔ تنہائی کو ختم کرنے کی امید پر بغل گیر ہوتا تو اس کی نیم وا نیند سے بھری آنکھیں بالکل سراغ نہ لگنے دیتیں کہ آیا وہ میری گرم جوشی کو دھتکار رہی ہے یا بھرپور جواب دے رہی ہے۔ وہ صرف اپنی خاموش انگلیاں میرے بالوں میں پھیرتی رہتی یہاں تک کہ میرا جسم ساکت ہو جاتا۔

’سب کچھ؟ تم چاہتے ہو کہ میں سب کچھ اتار دوں؟‘

آنسو روکنے کی کوشش کرتے شکن دار چہرے کے ساتھ میری بیوی نے ابھی ابھی اتارے ہوئے زیر جامے کا گیند سا بنا کر ایک طرف لڑھکایا اور اپنے پشمی حصے کو ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔

سو یہ تھا اس کا برہنہ جسم، بہار کی دھوپ میں پوری طرح کُھلا ہوا۔واقعی کافی عرصہ ہو گیا تھا۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ  جائزہ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply