• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کراچی : نفرتوں کی دھول میں اَٹا شہر(دوسرا،آخری حصّہ)۔ناصر منصور

کراچی : نفرتوں کی دھول میں اَٹا شہر(دوسرا،آخری حصّہ)۔ناصر منصور

شہر کی نمائندگی کے دعویداروں کے نزدیک اس کے شہریوں کی ترقی کبھی بھی مقصود نہیں رہی بلکہ  شہر کی دولت اور قیمتی زمینیں ہی ان کا مطمع نظر رہا ۔ پارک ، باغ ، میدان، ندی نالے تو ہمیشہ سے ہی قبضہ گیروں کے لیے تر نوالہ ثابت ہوئے لیکن انہوں نے  سکول ، کالج کی عمارتوں کو بھی جاگیر تصور کر لیا۔ بجلی ،پانی کی  ترسیل کے مناسب نظام کو تہہ و بالا کر دیا ۔ بجلی کے سو سالہ طریقہ کار کو غیر ملکی کمپنی کے ناتجربہ کار گروہ کے حوالے کردیا جس نے شہریوں کو تاریکیوں میں ڈوبی الم ناک داستان کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ پانی جیسی انسانی ضرورت تک شہریوں کی رسائی ناممکن بنا دی گئی ، شہریوں کے موجود پانی مافیا نے شہریوں ہی  کو پانی بیچنا شروع کر دیا ۔ شہر کے چالیس فی صد سے زائد علاقے آج بھی پانی کی پائپ لائینز سے یکسر محروم ہیں ۔ نکاسی آب کے نظام کی حالیہ بارشوں نے قلعی کھول کر رکھ دی ہے ۔

شہر کا تمام سیوریج اور کچرا قدرتی آبی گذر گاہوں میں پھینک کر قدرتی ماحول پر مجرمانہ حملہ کیا گیا ، شہر کے دو دریا لیاری اور ملیر کے علاوہ ساٹھ سے زائد چھوٹے بڑے ندی نالے جو سمندر میں برساتی پانی گرانے کا قدرتی ذریعہ انہیں گندے نالوں میں تبدیل کر دیا گیا ۔ ان ندی نالوں میں صنعتی ادارے خطرناک کیمیائی فضلہ پھینک رہے  ہیں، جس کے نتیجے میں پورے شہر میں خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ جبکہ سمندر کی جانب پانی کی نکاسی کے چار بڑے مقامات پر غیر قانونی تعمیرات کے ذریعے پانی کے راستے کو بلاک کر دیا گیا ہے۔ یہ ان لوگوں نے کیا جنہیں ملک کے سب سے زیادہ خواندہ ہونے پر ناز رہا ہے ۔

شہر پر قابض مافیا نے پبلک ٹرانسپورٹ کے موثر ترین اداروں کو ترقی دینے کی بجائے بیچ کھایا ۔ آمکاج کراچی شاید دنیا کا واحد میگا سٹی ہے جو پچھلی نصف صدی سے بغیر کسی پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کے اڑھائی کروڑ سے زائد شہریوں کو پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا کے رحم کرم پر چھوڑے ہوئے ہے۔ یہی صورت حال تعلیم اور صحت کے شعبے کی بھی ہے ۔ کراچی کا جثہ اور اور آبادی جس تیزی سے بڑھی ہے صحت اور تعلیم کے موقع اتنی ہی تیزی سے موقوف ہوئے ہیں ۔

موجودہ وزیر اعظم کراچی نے چھٹی بار دورہ کیا اور دوسری بار پیکج کا اعلان کیا ۔ ان کے پچھلے اعلان شدہ ایک سو چھبیس ارب کے پیکج کا آج بھی شہری انتظار کررہے ہیں۔شہریوں کو معلوم ہے کہ یہ پیکج بھی دیگر پیکج کی طرح جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو رہا ہے۔ موجودہ وفاقی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ سو دن میں کراچی کا مسئلہ حل کر دے گی لیکن ڈھائی سال کے بعد بھی کراچی کے مسائل جوں کے توں ہیں۔

کراچی کے شہری یہ سمجھتے ہیں کہ اگر صوبے با اختیار جمہوری شہری حکومتوں کا موثر نظام رائج کریں تو کراچی جیسے شہروں کو کسی پیکیج یا امداد کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔کراچی جیسے شہر کے انتظامی اور سیاسی معاملات چلانے کے لیے ضروری شہری بلدیاتی نظام نہ ہونے کے برابر ہے ۔ شہر کے چالیس فی صد حصہ پر کنٹونمنٹ بورڈز ، ڈی ایچ اےز اور وفاقی اداروں کا قبضہ ہے اور رہی کسر صوبائی حکومت نے کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جیسے شہری ترقی کے اہم اداروں پر قبضہ کر کے شہری حکومت کو مفلوج کرنے کے تمام انتظامات مکمل کر دیے ہیں ۔ شہر کی اضلاع میں تقسیم در تقسیم ، شہر کے انتظامی معاملات پر وفاق اور صوبائی کی بے جا مداخلت ، سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بر خلاف شہر پر کنٹونمنٹ بورڈز اور دیگر وفاقی اداروں کا تسلط شہر کے جسم کو وحشی درندوں کے بھنبھوڑنے کے مترادف ہے ۔

شہر کے مسئلہ کا دائمی حل ایک حقیقی نمائندہ جمہوری ، بااختیار شہری حکومت میں ہی مضمر ہے ، باقی تمام راستے مزید تباہی اور بربادی کا سامان لیے ہوئے ہیں ۔ اس لیے ضروری ہے لسان اور نسلی تعصب اور سندھ کی تاریخی وحدت پر سوال اٹھانے جیسے تباہ کن نظری بیانیہ کو مسترد کرتے ہوئے شہریوں کی حقیقی امنگوں اور مانگوں پر مبنی عوامی مطالبات کا چارٹر مرتب کیا جائے جن میں یہ بنیادی مطالبات شامل ہوں کہ

▪︎عوام کی مشاورت سے ایک بااختیار بلدیاتی نظام کا اجرا کیا جائے ۔

▪︎سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق شہر میں قائم کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے ختم کئے جائِیں اور شہر کا کنٹرول منتخب بدلیاتی اداروں ک سپرد کیا جایا۔

▪︎رینجرز کی انتظامی امور میں مداخلت مکمل طور پر ختم کی جائے۔ عوامی مشاورت سے پولیس کی استعداد بڑھائی جائے ۔

▪︎کے الیکٹرک اور کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کو منتخب بلدیاتی اداروے کے زیر انتظام دیا جائے۔

▪︎تمام شہریوں کو آئین کے مطابق رہائش فراہم کی جائے۔ جن خاندانوں کو بے دخل کیا گیا ہے انہیں متبادل رہائش فراہم کی جائے۔

▪︎ بلدیاتی اداروں کے اختیارات جن میں تعلیم ، صحت ، سٹرکیں، ٹرانسپورٹ، فراہمی و نکاسی آب اور پولیسنک جیسے شعبے شامل ہیں حقیقی معنوں میں آئینی ترمیم کے ذریعے بحال کئے جائیں۔

▪︎ شہری مسائل کو لسانی و نسلی تفرق کے لیے استعمال کرنے کی خوف ناک سازش نا قابل برداشت اور قابل مذمت ہے اور کراچی کی سندھ سے علیحدگی کی ہر سازش کو ناکام بنایا جائےگا۔

▪︎ بلدیاتی انتخابات متناسب نمائندگی بنیادوں پر کرائے جائے ۔ مزدوروں ، عورتوں اور اقلیتی نمائندوں کا انتخاب براہ راست انتخابات کے ذریعے کیا جائے۔

▪︎حلقے بندیاں آبادی اور رقبے پر منحصر ہونی چاہئے اور کسی بھی قسم کے اامتیازی طریقہ کار سے اجتناب کیا جائے۔

▪︎ شہر کی تمام آبی گزر گاہوں کو صاف کیا جائے اور سمندر پر کی جانے والی تمام ناجائز تجاویزات کو ختم کیا جائے۔

▪︎ سندھ کے ساحلی علاقوں بشمول کراچی کو سمندری طوفان سے بچانے کے لئے تمر کے جنگلات اور جزائر کو ہر قسم کی مداخلت سے تحفظ فراہم کیا جائے ۔

▪︎شہر کو پہلے مرحلے میں کم از پانچ ہزار بسیں فراہم کی جائِیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

▪︎پانی سپلائی اور نکاسی آب کا ٹھوس نظام ہنگامی بنیادوں پر وضع کیا جائے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply