تصوف کی حقیقت۔سائرہ ممتاز/حصہ اول

صاحب اسرارِ قلزمِ حیات واصف علی واصف کہتے ہیں  دراصل مجاز بذات خود ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت اس وقت تک مجاز کہلاتی ہے. جب تک رقیب ناگوار ہو. جس محبت میں رقیب قریب اور ہم سفر ہو، وہ عشق حقیقی ہے. اپنا عشق، اپنا محبوب اپنے تک ہی محدود رکھا جائے تو مجاز اور اگر اپنی محبت میں کائنات کو شریک کرنے کی خواہش ہو تو حقیقت ہے. رانجھے کا عشق مجاز ہو سکتا ہے لیکن وارث شاہ کا عشق حقیقت ہے. عشق حقیقی عشق نور حقیقت ہے. یہ نور، جہاں سے بھی عیاں ہوگا ، عشق کے لیے محبوب ہوگا، عشق نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم عشق حقیقی ہے عشق آل نبی عشق حقیقی ہے، عشق اصحاب نبی عشق حقیقی ہے. عشق جامی عشق حقیقی ہے. اویس قرنی کا عشق حقیقی ہے. عشق رومی عشق حقیقی ہے بلکہ اقبال کا عشق بھی عشق حقیقی کہلائے گا.

محبت اور تصوف آپس میں لازم و ملزوم ہیں یہ بات سمجھنے کے لیے ہمیں بہت پیچھے ان قرنوں کی سیر کرنا پڑے گی جب آدم ابھی آب و گل کے درمیان تھے. جب آدم کو خلق کیا جا رہا تھا تو فرشتے کہتے تھے

” اے ہمارے رب! تو نہیں جانتا کہ پہلے جو مخلوق تھی وہ زمین پر کشت و خون کرتی پھر رہی تھی؟ اب تو اسے بنانے لگا ہے یہ بھی خون بہائے گا” تو اس ذات حق نے فرمایا

” جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے! یہ زمین پر میرا خلیفہ بنے گا”

صاحبان اسرار و رموز کہتے ہیں کہ آدم کو اللہ نے خالص جذبہ ء محبت کی وجہ سے تخلیق کیا. کچھ دیر رکیے، توقف کیجئے کیا وہ احد، واحدہ لاشریک اپنی تنہائی سے اکتا گیا تھا؟ جب ارد گرد نوریوں اور ملائک کا ہجوم ہو اور وہ جو چاہتا ہو بنا چکا ہو تو پھر اس مٹی کے پتلے کو بنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی. واقف اسرار لاہوت و لامکاں فرماتے ہیں اس نے اپنا محبوب چاہا جس سے وہ محبت کرے اور جس کی خاطر یہ ہست و بود سجائی تھی اسے جیسے اس نے چاہا تھا ویسے وجود بخش کر اپنی محبت اور اپنے عشق کا اعلان کرے. اپنی تمام تر مخلوقات پر یہ واضح کردے کہ میرے اس محبوب جیسا کوئی خلق نہیں ہوا. اس نے اسے آدم کے صلب میں رکھا اور پھر انسانی بقا کی ایسی ترتیب و تدوین پیدا کی کہ اپنے محبوب کو سب سے کامل و اکمل اور مبرا من العیوب کر کے، افضل البشر کے رتبے پر پیدا کیا. اور وہ سجدہ جو فرشتوں سے کروایا گیا وہ آدم کے پردے میں محبوب کو کروایا گیا. کوئی اس بات سے لاکھ انکار کرتا رہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ عشق دنیا کا وہ عمل ہے جس میں خدا انسان کو اپنے ساتھ شریک کرتا ہے. اور اس شرط پر کرتا ہے تم بھی اسی سے محبت کرو جس سے میں محبت کرتا ہوں. صاحبو یہ عشق آدم کی مٹی میں رکھا گیا تھا جس سے آپ آج منہ چھپاتے پھرتے ہیں

محبت یا عشق کی اس مختصر تفہیم کے بعد تصوف اور مذاہب عالم میں اس کا مقام و مرتبہ دیکھتے ہیں کیا ہے. تصوف کو ہر دور میں جس قدر مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے اتنا ہی اس کے خلاف لکھا گیا. تصوف کو غیر شرعی و غیر اسلامی قرار دیا گیا. صوفیاء قتل کیے گئے پھانسی چڑھائے گئے. منصوراناالحق کہتا دریا برد کر دیا گیا. بودلے شاہ حاضر لعل سائیں کہتا گوشت کی دیگ سے ذرہ ذرہ اڑتا ہوا آکر مجسم ہوتا گیا. کسی نے اپنی انگلیاں غار میں فگار کروا لیں اور یار غار بن گیا کوئی محبوب کی آغوش میں پلا اور دہن سے اسرار الہی، علوم الٰہیات، اور عشق الٰہیات پی پی کر محبوب کا محبوب بنتا رہا. کوئی اپنے دانت توڑ کر خدا کے عشق میں شریک ہوا. کسی نے گھنگرو پہن کر سرمدی رقص کیا اور اسے عشق کا مزہ چکھایا گیا الغرض دنیا میں کچھ اور بچا ہو نا بچا ہو عشق کے پردے میں تصوف بچا ہے اور تصوف کے پردے میں عشق بچ گیا ہے۔

پیران پیر حضرت سید علی ہجویری رحمت اللہ علیہ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں کہ ” تصوف کا انکار ساری شریعت کا انکار ہے”
آج کل کے دور میں یورپ کے مصنفین جنہیں معتدل علمی فکر اور غیر متعصب رائے کا سرغنہ کہہ کر مستشرقین کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اور لبرل بیانئے کے تناظر میں اسلام اور تصوف کو پرکھنے کے لیے جن کی کتب ریفرنس کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور ہر نئے پڑھنے والے کو فکری علم اور بالغ نظری کے خوبصورت شیشوں کا عکس دکھا کر انھیں ان کی لکھی کتب کے حوالے فراہم کر کے تصوف سے بدظن کیا جاتا ہے وہ دراصل، وہ متعصب لوگ ہیں جو عیسائیت کو اسلام سے افضل ثابت کرنے اور عیسائی اقوام کی برتری ثابت کرنے کے لیے اسلام اور شریعت اسلامی میں سو طرح کے نقائص نکال ہر اس چیز کی مذمت کرتے ہیں جس سے اسلام پھیلا ہو.

ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے ہم مانتے ہیں تاریخ میں چند لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہیں طرفین کے مقصد و مطلب سے کوئی غرض نہ  تھی اور انہوں نے جو کچھ تاریخ کے حوالے کیا وہ حتی الامکان عدل کے ترازو پر تول کر جیسا تھا ویسا پیش کر دیا لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے. پھر تاریخ آپ کو ہر زاویے اور ہر سنگم پر یہی بتاتی نظر آئے گی کہ اسلام عرب سے نکل کر جہاں بھی گیا تیر و تلوار سے نہیں پھیلا بلکہ محبت و الفت سے پھیلا. اس ضمن میں ہو سکتا ہے کچھ لوگ یہ اعتراض کریں کہ جہاد اسلام کے بنیادی اراکین میں سے ہے اور رسول اللہ اور ان کے اصحاب نے جنگیں بھی لڑیں اور تاریخ میں بنو عباس، بنو امیہ نے ہر میدان میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے.

مدعے سے ہٹ کر تھوڑی سی وضاحت لکھتی چلوں کہ رسول اللہ نے جتنی جنگیں لڑیں وہ دفاعی تھیں اور بعد والوں نے جنگوں سے صرف زمینیں اور ملک فتح کیے دلوں کو فتح کرنے کا کام اس وقت بھی اللہ والے کر رہے تھے جنہیں آپ اولیاء و صوفیاء کہتے ہیں. تصوف کے خلاف عام طور پر یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ یہ لفظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں مروج نہیں تھا. اگر تصوف اس وجہ سے غیر اسلامی ہے کہ یہ لفظ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں رائج نہیں تھا تو تمام اسلامی علوم مثل تفسیر، حدیث، فقہ، معانی بیان اور صرف و نحو بھی غیر اسلامی ہوئے کیونکہ ان پر بھی بعد از حیات نبوی کام ہوا اور جن حضرات نے قرآن کے معانی و مطالب پر کام کیا وہ مفسرین کے نام سے موسوم ہوئے اور ان کے علم کا نام علم تفسیر ہوا.

اسی طرح بالترتیب حدیث پر کام کرنے والے محدثین کے علم کا نام علم حدیث مذکور ہوا اور اسلام کے قانون پر کام کرنے والے فقہا کہلائے. جن حضرات نے اصحاب صفہ کی دیکھا دیکھی میں تزکیہ ء نفس اور روحانیت میں کمال حاصل کیا وہ صوفی کہلائے اور ان کا علم تصوف کے نام سے موسوم ہوا. لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اصحاب ان علوم اور تصوف و روحانیت سے بے بہرہ تھے بلکہ وہ سب سے بڑے محدث، فقیہ اور صوفی تھے لیکن ان ناموں سے موسوم نہیں تھے. بالفاظ دیگر ان کے ہاں حقیقت تھی نام نہیں تھا. اور آج کل نام ہے حقیقت بہت کم پائی جاتی ہے۔

تصوف کی دوسری وجہ تسمیہ یہ ہے کہ متقی لوگ نفس کشی کی خاطر اکثر اون کا لباس پہنتے تھے جسے عربی زبان میں صوف کہا جاتا ہے اس لیے وہ لوگ صوفی کے نام سے موسوم ہونے لگے. لیکن تصوف کی حقیقت دراصل مرتبہ احسان ہے جس کی تشریث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بے حدیث جبریل میں یوں فرمائی ہے کہ

“اس طرح عبادت کرو کہ تم خدا تعالٰی کو دیکھ رہے ہو اگر نہیں دیکھ سکتے تو پھر یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے”

چنانچہ یہی مشاہدہ ء حق صوفیائے کرام کا منتہائے نظر رہا ہے جس کے حصول کے لیے انہوں نے غلبہ ء نفس کو کم کرنے کے لیے مجاہد اور ریاضیات سے کام لیا.لیکن بعض علمائے ظواہر جو” مولانا ” کے القاب سے آراستہ ہیں کے ان کلمات کو دیکھ کر ہنسی آتی ہے کہ اسلامی عبادات کا پروگرام تو بہت مختصر تھا صوفیوں نے خوامخواہ مجاہدات و ریاضات کر کے اپنے آپ کو سزا دی ہے. معلوم ہوتا ہے ان کی نظر اس آیت پر نہیں پڑی جس میں حق تعالٰی نے اپنے ان مخلص بندوں کی تعریف فرمائی ہے جن کے بدن رات کو بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں. قرآن کے الفاظ یہ ہیں :
” اللہ کے مخلص بندگان رات بھر اپنے راب کے حضور میں سجود و قیام میں بسر کرتے ہیں”

اور نہ ہی کبھی اس آیت پر عمل فرمایا ہے۔۔۔
” رات کو اٹھو لیکن کم، نصف رات ہو یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اور تلاوت قرآن کرو اچھی طرح کیونکہ رات کا جاگنا نفس کشی کے لیے بہت سخت ہے اور بات کو مضبوط کرتا ہے یعنی آدمی مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے.”

تصوف کسی نئے مذہب کا نام نہیں ہے بلکہ قرب حق کے حصول کے لیے مندرجہ ذیل حدیث قدسی (بخاری) کے مطابق فرائض اور واجبات کے علاوہ زائد عبادت کا اصطلاحی نام تصوف پڑ گیا ہے. جس طرح قرآن کے مطالب پر غور کرنے کا نام علم تفسیر ہو گیا ہے.

رسوم اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم الہی ہوا کہ میرے بندوں کو بتا دیں کہ :
” اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میرا جو بندہ نوافل (زائد عبادت) کے ذریعے میرا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے تو میں اس سے محبت کرتا ہوں (یعنی وہ میرا محبوب بن جاتا ہے )اور اس سے اس قدر قریب ہو جاتا یے کہ اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں اور وہ مجھ سے دیکھتا ہے (بی یبصر) . میں اس کے کان بن جاتا ہوں اور وہ مجھ سے سنتا ہے (بی یسمع) اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں اور میری طاقت سے کام کرتا ہے اور میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں اور مجھ سے چلتا ہے اور مجھ سے جو کچھ طلب کرتا ہے اس کو دیتا ہوں اور جب میری پناہ طلب کرتا ہے تو پناہ دیتا ہوں.

نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :
الفقر فخری ” فقر میرا فخر ہے” فقر کیا یے تصوف ہی تو ہے نیز آپ نے فرمایا ” فقر عالم غیب کا وطن ہے”
علاوہ ازیں یاد رہے کہ تصوف چار ارکان پر مشتمل ہے
شریعت طریقت، حقیقت، اور معرفت. جس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت ایک راستہ ہے. راستے پر چلنے کا نام طریقت یے. اور اس راہ پر چل کر جس منزل مقصود پر رسائی ہوتی ہے اس کا حقیقت یے اور منزل. قصور پر جو اسرار و رموز بتائے جاتے ہیں ان کا نام معرفت ہے
مندرجہ ذیل حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تصوف کے ان چاروں ارکان کا ذکر فرمایا ہے.
> الشیعۃ اقوالی ، الطریقۃ افعالی، والحقیقت احوالی، والمعرفۃ سری (شریعت میرے اقوال کا نام ہے، طریقت میرے اعمال کا نام ہے، حقیقت میرے باطنی احوال ہیں اور معرفت میرا راز ہے)

یہ حدیث علمائے دیوبند بند جیسے سخت گیر حضرات نے شرح مثنوی مولانا روم رحمتہ علیہ میں نقل کی ہے جو ان کے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کی شرح ہے. اگر یہ حدیث صحیح نہ ہوتی تو علماے دیوبند اس کو ہرگز نقل نہ کرتے. نیز حضرت امام مالک جو تابعی ہیں اور جو ساری عمر مدینہ میں رہے ان کا مندرجہ ذیل قول بھی ظاہر کرتا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کے زمانے میں بھی لفظ تصوف مروج تھا

Advertisements
julia rana solicitors

آپ فرماتے ہیں کہ (من تصوف ولا تفقھہ تذ ندق من تفقھہ ولا تصوف یفسق من جمع بینھما تحقق) جس نے تصوف سیکھا لیکن فقہ نا سیکھا گمراہ ہوا. جس نے فقہ سیکھا لیکن تصوف نہ سیکھا فاسق ہوا جس بے دونوں کو جمع کیا حقیقت پہچانی۔
جاری ہے۔۔!

Facebook Comments

سائرہ ممتاز
اشک افشانی اگر لکھنا ٹھہرے تو ہاں! میں لکھتی ہوں، درد کشید کرنا اگر فن ہے تو سیکھنا چاہتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تصوف کی حقیقت۔سائرہ ممتاز/حصہ اول

Leave a Reply