بولوں گا تو بولو گے کہ بولتا ہے۔۔فرزانہ افضل

پاکستان کی سیاسی صورتحال اس وقت ایک نہایت نازک موڑ سے گزر رہی ہے۔ میں پاکستان کی سیاست پر تبصرہ کرنے سے عموماً گریز کرتی ہوں۔ مگر آج کل سوشل میڈیا پہ ہر شخص تجزیہ کار بنا ہوا ہے۔ بھئ آزادی رائے ہے تو ہر شخص کو اپنے اس حق کا پورا استعمال کرنا چاہیے۔ جب سے تحریک عدم اعتماد شروع ہوئی ہے، حکومتی پارٹی اور اپوزیشن دونوں نے بڑے بڑے جلسے کیے ہیں۔ مجھے اس پوری کاروائی میں اب تک ایک ہی مثبت بات نظر آئی ہے کہ کسی قسم کی سکیورٹی تھریٹ درپیش نہیں ہوئی۔ اور ہزاروں لاکھوں کی تعداد کے مجمعے کے جلسے بخیریت نبٹ گئے۔ دعا ہے کہ آئندہ بھی امن و امان کی یہ صورتحال برقرار رہے۔ خدا تعالی عمران خان اور عوام کی جانوں کو محفوظ رکھے۔ آمین۔ کل ایک بہت نامور ادیبہ کی تحریر عمران خان کی ذات کے حوالے سے پڑھنے میں آئی، جس میں عمران خان کو مغرور گردانا گیا۔ حقیقتاً بہت افسوس ہوا کہ پڑھے لکھے لوگ بھی غرور اور وقار میں امتیاز نہیں کر پاۓ۔ اگر غرور کی ہی بات کی جائے تو مریم نواز شریف سے زیادہ مغرور اور نک چڑھی عورت کون ہوگی ۔ کبھی ہماری شہزادی کیٹ مڈلٹن کو دیکھا ہے جو چہرے پر میٹھی مسکان لیۓ شاہانہ اور عوامی تقریبات میں نظر آتی ہیں، اپنے ملبوسات کو ایک سے زیادہ تقریبات میں دوہرانے پر بھی کوئی ہتک محسوس نہیں کرتیں۔ جبکہ محترمہ مریم نواز شریف کے چہرے پر سوائے غصے، نفرت اور نخوت کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ان کے والد محترم جن کی نہ تو کوئی تعلیم ہے نہ پرسنلٹی، ہاں مگر ہیرا پھیری میں اور 2 جمع 2 برابر 22 کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ پورے خاندان نے ملک اور قومی خزانے کو نوچ کھایا ہے۔ بین الاقوامی اجلاس میں ان لوگوں کو بات تک کرنی نہیں آتی۔ جب دوسرے ملکوں کے سربراہان سے انگریزی بولنے کی کوشش کرتے ہوئے مشکل میں پڑ جاتے تھے، تو ہم اپنے گھر میں ٹی وی کے سامنے شرمندگی اور بے چینی کے مارے صوفے پر پہلو بدلتے رہتے تھے ۔ یہ عمران خان ہی ہے جس نے اپنی تعلیم، وقار اور قابلیت سے پاکستان کا نام بین الاقوامی دنیا میں بلند کیا ہے۔ غلط کو غلط کہنا کوئی برائی نہیں۔ عمران خان ان کی کالی کرتوتوں کو عوام کے سامنے کھول کر بیان کرتا ہے تو اس پر بد زبان ہونے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ یعنی میں بولوں گا تو بولو گے کہ بولتا ہے۔ اور یہ بد زبانی کا طعنہ وہ لوگ دے رہے ہیں جن کے اپنے منہ سے تو گویا پھول جھڑتے ہیں۔ یہ شروع سے عمران خان کے ذاتی کردار پر انگلیاں اٹھاتے رہے ہیں اور اب جب عمران خان ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں اپنی تقریروں میں آیات کا حوالہ دیتے ہیں تو یہ بات بھی ان کو ہضم نہیں ہو پارہی۔ یعنی جاؤں تو جاؤں کہاں۔ عمران خان کی بدنصیبی یہ رہی ہے کہ انکو مخلص حواری نہیں ملے۔ غدار اور لالچی سیاستدان پاکستان کے سیاسی نظام کی جڑوں میں بیٹھ گئے ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری قوم کا مائنڈ سیٹ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ وہ امارت اور پیسے سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور بکاؤ سیاست کا کلچر تو ہمیشہ سے ہے۔ جب سے عمران خان نے امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی ہے اور امریکہ کی انا پر شدید ضرب لگی ہے، امریکہ جو پوری دنیا کے ممالک کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ اسے یہ بات برداشت نہیں ہو پائی اور عمران خان کی حکومت کو گرانے کے لیے ایک کڑی سازش رچی گئی ہے۔ جس میں اپوزیشن اور تمام اتحادی پارٹیوں کو اس گھناؤنی شطرنج کے مہروں کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ کرسی کے لالچ نے سب کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ دی ہے کہ انہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس سیاسی بحران سے ریاست پاکستان کے مستقبل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بہرحال یہ سیاسی منظر نامہ ہر روز ایک نیا موڑ لے رہا ہے۔ خدا تعالی ملک و قوم کے حال پر رحم کرے، ان ضمیر فروشوں کے ہاتھوں ملک کا سودا ہونے سے بچائے اور پاکستان کو محفوظ ہاتھوں میں رکھے۔ آمین

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply