خوف اور انسانی کیفیات-مبارکه منور

مبارکہ منور

Advertisements
julia rana solicitors london

ہر انسان اپنے مزاج اور حالات کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے.پسند نا پسند بھی ہر کسی کی مختلف ہوتی ہے.ایک چیز جو کسی کو بہت پسند ہے وہی چیز کسی دوسرے کی ناپسندیدہ بھی ہوتی ہے.باالکل یہی شوق اور مشاغل کا حال ہے.خوف ایک انسانی جبلت ہے جس سے واسطہ ہر آدمی کو کسی نہ کسی صورت پڑتا رہتا ہے, لیکن یہی حالت مختلف طبعیتوں پہ مختلف طرح سے وارد ہوتی ہے, یعنی ایک ہی حالت کسی کے لیے تو خوف کا باعث ہے اور وہیں پر کوئی بے خوف بھی ہے,لیکن ایسا کیوں ہے یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا. پروفیسر انور مسعود کا کہنا ہے کہ” انسان ابھی تک پورا دریافت نہیں ہو سکا ”
ایسی ہی چند یادیں ہیں کچھ باتیں ہیں جن سے انسان کی فطرت، دلچسپی، اور غیر دلچسپی کا ایک محدود سا اندازہ ہوتا ہے. ہماری ایک کزن ہیں جن کی بعض عادتیں ہمیں بھی مختلف لگتی ہیں. اُن میں سے چند ایک کا ذکر مقصود ہے.
موصوفہ شعری ذوق بہت اعلٰی رکھتی ہیں لیکن خود قادرالکلام نہیں ہیں,اس کا حل انہوں نے یہ نکالا ہوا ہے کہ جہاں کہیں شاعر کلام میں اپنا نام لگاتا ہے تو وہ شاعر کے نام کو اپنے نام سے بدل کر اپنے ذوق کی تسکین کرتی ہیں.حافظہ اچھا ہے بہت سارے اشعار یاد رہنے کی وجہ سے بیت بازی کا مقابلہ اکثر جیت لیتی ہیں.
اُن کی ایک منفرد صفت یہ بھی ہے کہ معمولی جانداروں، جانوروں، اور چیزوں سے غیر معمولی خوفزدہ ہوجاتی ہیں.
ہم لوگ دیہات کے رہائشی ہیں تو پالتو مویشی، چوپائے مال، اور پالتو و غیر پالتو کتے، بلیاں ہمارے ماحول کا لازمی حصہ ہیں,لیکن وہ ان سے نالاں ہی رہتی ہیں. بہرحال بہت پرجوش خاتون ہیں ہر نیا کام شوق سے کرتی ہیں.
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مون سون کے موسم میں بارشیں اچھی ہوئی تھیں تو ڈھورے میں بہت زیادہ مچھلیاں پیدا ہوگئیں.( ڈھورا مقامی زبان میں برساتی پانی کی گزر گاہ کو کہتے ہیں.)
یہ ڈھورا ہم سے” سڈ پندھ” پر واقع ہے (سڈ پندھ سندھی زبان کی ایک اصطلاح ہے سڈ کے معنی ہیں آواز اور پندھ کے معنی ہیں فاصلہ یا دوری یہ فاصلہ ناپنے کا ایک پیمانہ ہے جس سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ وہ چیز جس کے بارے میں بتایا جارہا ہے وہ یہاں سے اتنے فاصلے پر واقع ہے کہ اگر آواز لگائیں تو وہاں تک پہنچ جائے گی. یعنی فاصلہ ناپنے کے زرائع میں روشنی ہی نہیں آواز بھی شامل ہے.) گھر میں صبح شام مچھلی آنے لگی تو مچھلی پسند کرنے والوں کے وارے نیارے ہو گئے. یہ صورت حال دیکھ کر کزنز گروپ نے مچھلی پکانے کا مقابلہ منعقد کیا.
مقابلے کے قواعد یہ تھے کہ مچھلی بنانے کے مقابلے میں ہرشریک ممبر کو ایک سی اشیاء فراہم کی جائیں گی اور یہ بھی کہ مچھلی فرائی یا روسٹ وغیرہ نہیں بلکہ مچھلی کا سالن ہی بنایا جائے تاکہ جسے روٹی ، یا چاول کے ساتھ کھایا جاسکے.ترکیب استعمال کا استعمال کنندہ کو اختیار دیا گیا چاہے تو سب کچھ استعمال کر لے نہ چاہے تو نہ کرے. ججز وہ ممبر تھے جنہوں نے تمام مطلوبہ اشیاء فراہم کیں. ججز کے فیصلے کو حتمی اور آخری تسلیم کرناشرط تھی.
مچھلی بنانے کے کام میں شریک بس ہم دو ممبر ہی تھے یعنی میرے بالمقابل میری مذکورہ کزن. انکا کہنا تھا کہ مچھلی کو جب تک بھنے ہوئے مصالحے کے ساتھ اچھی طرح سے بھون نہ لیا جائے تب تک مچھلی اچھی نہیں بنتی,جبکہ میرا خیال تھا کہ بھنے ہوئے مصالحے میں مچھلی کو بس دم پر ہی پکانا چاہیے ورنہ مچھلی ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور اپنا مزہ کھو بیٹھے گی.پھیلے ہوئے کانٹے الگ مشکل پیدا کردیں گے.
بہرحال پکانے والے کو یہ آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنی مرضی سے جس طرح چاہیں پکائیں.پھر ہمارا ہری پیاز پر بھی اختلاف ہوا کہ میں نے کہا شامل کرنی چاہئے اور انہوں نے کہا کہ نہیں.غرض اسی طرح اختلاف و اتفاق کرتے ہوئے ہم نے اپنی اپنی ڈشز تیار کر لیں.اور فیصلے کے لیے ججز کے سامنے دھر دیں جنہوں نے “ہڑپنے” کے ساتھ ساتھ فیصلہ سازی بھی کرنی تھی.
کھانے کے بعد ججوں نے میری تیار کردہ ڈش کو اول قرار دیا. دوم پوزیشن آنے پر کزن نے دھاندلی اور اقربا پروری کا الزام عائد کیا. ججز نے انہیں دلیل سے سمجھایا کہ
نمبر 1 کھانا ہم سے پہلے ہماری آنکھیں کھاتی ہیں یعنی دیکھنے میں اگر کھانا اچھا ہو تو اکثر کھانے میں بھی اچھا ہوتا ہے,آپکی بنائی ہوئ مچھلی چورا ہوچکی ہے جو کہ دیکھنے میں ہی مچھلی کم لگتی ہے اور یہ کہ ہری پیاز اور بعض اور مصالحوں کے استعمال سے زیادہ بہتر ذائقہ بنا ہے جبکہ آپ نے اُن کو شامل ہی نہیں کیا.فیصلہ میں مزید یہ نکتہ بھی شامل کیا گیا کہ آپ کا بنایا ہوا سالن بالکل خشک ہے جس سے نوالہ ہی تر نہیں ہوتا.
ان “دلائل قاطعہ” کے بعد ججز کا فیصلہ با دل ناخواستہ انہیں قبول کرنا ہی پڑا.
دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دن ہم کسی جگہ کی سیر کو گئے جہاں ریت کی اُونچی، نیچی چوٹیاں تھیں جس کے نتیجے میں ہلکی، گہری کھائیاں بھی تھیں. وہیں ایک چوٹی ایسی بھی تھی جو کہ تھوڑی سی ڈھلوان کے ساتھ تقریباً سیدھی تھی اور خاصی بلند بھی تھی. یہاں پھر مقابلہ بازی کی فضا پیدا ہوگئی, احباب نے اس چوٹی کو سر کرنے کا مقابلہ رکھا. کچھ نے حصہ لیا کچھ نے انکار کر دیا اور ساتھ ہی نصیحت بھی کی کہ اس پر چڑھنے سے گریز کیا جائے کیونکہ سیدھی چڑھائی کے ساتھ یہ بھر بھری ریت کی چوٹی خطرناک بھی ثابت ہوسکتی ہے.حصہ نہ لینے والوں میں ہماری مذکورہ کزن بھی تھیں.
مقابلہ شروع ہوا کم ہی لوگوں نے حصہ لیا. کچھ آگے کچھ پیچھے چل پڑے ابھی کچھ ہی اُوپر گئے ہوں گے کہ پیچھے سے مجھے مذکورہ کزن کی زوردار آواز آئی کہ “رکو بچاؤ” میں نے حیرت سے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا تو پہلے سے بڑھ کر حیرت ہوئی کہ مذکورہ کزن رکو بچاؤ کی آوازیں لگاتی اندھا دھند اُوپر کی طرف دوڑی چلی آ رہی ہیں کیونکہ انکے قریب میں کہیں سے گھاس پھوس چرتا ہوا ایک” کٹا “آ نکلا تھا جس سے وہ خوفزدہ ہو کر بچاؤ کی خاطر اُوپر آرہی تھیں.
مجھے تو وہ “ریلو کٹا” بے ضرر لگا بلکہ اپنی ہی روزی روٹی کے لیے پریشان دکھائی دیتا تھا.لیکن محترمہ مارے خوف کے وہاں ٹھہر نہ سکیں اور اپنے بچاؤ کی خاطر اُوپر کی طرف دوڑ لگا دی.
میں نے بہتیرا کہا کہ ارے وہ کٹا خطرناک نہیں بلکہ اس بھر بھری چڑھائی پر دھیان سے چڑھو,لیکن بقول پطرس بخاری ایسے موقعوں پر پردھان کی بھی کوئی نہیں سنتا,
محترمہ کا جواب بھی انوکھا تھا کہنے لگیں اس چڑھائی نے مجھے ٹکر نہیں مارنے لیکن اس کٹے کا کیا بھروسہ.یوں دیکھتے ہی دیکھتے وہ چوٹی پر پہنچ گئیں اور انجانے میں مجھ سے مقابلہ بھی جیت گئیں اور اس کا احساس انہیں بعد میں ہوا جب میں نے انہیں جیت کی مبارک باد دی.
اس ساری صورت حال کو بیان کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ خوف کیاہے؟کیا اس کی کوئی واضح تعریف متعین ہوسکتی ہے؟کیا خوف ہر کسی کے لیے الگ کیفیت کا نام ہے یا خوف فی ذاتہ سرے سے کوئی چیز ہے ہی نہیں؟میرا یہ سوال ہر اس فرد سے ہے جو اس کا جواب دے سکے.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply