عمانوئیل اور الفریڈ نوبل۔حسنین امام

عمانوئیل زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن وہ ایک ذہین آدمی تھا۔ عمانوئیل کے زرخیز ذہن میں بڑے بڑے منصوبے تھے لیکن وسائل کی کمی آڑے آ رہی تھی۔ اچانک اس کے ذہن میں اپنی ملکی فوج کے لیے کام کرنے کی امنگ پیدا ہوئی۔ اس نے ربڑ کا ہلکا پھلکا تھیلا ایجاد کیا جو فوج کی بہت سی مشکلات آسان کر سکتا تھا۔ لیکن افسوس کہ سویڈن کی فوج بھی قلاش تھی اور اس کی ایجاد کچھ خاص شہرت حاصل نہ کر سکی۔

اس وقت اس کی کوشش تھی کہ کوئی ایسی چیز ایجاد کرے جو مقبول ہو جائے تاکہ بعد ازاں وہ حکومتی خرچ پر مزید ایجادات کر سکے۔ اس زمانے میں نہر سویز کھودی جا رہی تھی۔ نہر کا کام سست رفتاری سے ہو رہا تھا۔ عمانوئیل کسی ایسے دھماکا خیز مواد کے متعلق غور کرنے لگا جو کام کی رفتار کو بڑھا سکے۔ اس دور میں کام کی سست رفتاری کا یہ عالم تھا کہ شہنشاہ کلاڈیس نے تین میل لمبی نہر کا منصوبہ بنایا جو گیارہ برس میں مکمل ہوا جبکہ تیس ہزار مزدور کام میں جتے رہتے تھے۔ اس سے پیشتر پانچ میل لمبی پہاڑی سڑک ڈیڑھ صدی میں مکمل ہوئی تھی۔ کان کنی میں تو سست رفتاری کی حد نہیں تھی۔ دنیا کسی ایسے مادے کی تلاش میں تھی جس سے ان مشکلات پر قابو پایا جا سکے لیکن شاید ابھی قدرت انسانوں پر مہربان نہیں ہوئی تھی لہذا وہ سر توڑ کوشش کرنے کے باوجود کامیاب نہیں ہو رہے تھے۔ عمانوئیل کے سر میں موجد کا دماغ تھا جو ہر پل بے چین رہتا۔ ایک روز وہ اپنے مکان کے پچھواڑے میں دھماکا خیز مواد پر تجربہ کر رہا تھا کہ اچانک کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا جو اتنا شدید تھا کہ قریبی مکانوں کی کھڑکیوں کے شیشے چکنا چور ہوگئے۔ حکومت نے لوگوں کی شکایات پر موجد کے خلاف سخت کارروائی کی اور دھماکا خیز مواد سے چھیڑ چھاڑ پر پابندی لگا دی۔

عمانوئیل اپنے ہم وطنوں کی کم ظرفی پر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا اور آخر ایک روز اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر روزگار کی تلاش مصر پہنچا تو مصر کے گورنر محمد علی نے اسے اپنے ہاں ملازم رکھ لیا۔ برطانیہ کے شاہی مہمانوں کی آمد آمد تھی جب گورنر کے ایما پر نوجوان انجینئر نے اپنے فن کا مظاہرہ اس ذہانت سے کیا کہ مہمانوں کا دل جیت لیا۔ اس نے ایسا استقبالی دروازہ بنایا کہ بڑے بڑے معمار اسے دیکھ کر دنگ رہ گئے۔بعد میں اس نے خاندان سمیت روس کا سفر کیا اور سینٹ پیٹرز برگ میں مستقل رہنے لگے۔
ہجرت سے قبل 21 اکتوبر 1833 میں عمانوئیل نوبل اور آندریتے اہیلسل نوبل نے سٹاک ہوم، سویڈن میں ایک بچے کو جنم دیا، جس کا نام الفریڈ رکھا گیا، الفریڈ اپنے والدین کی تیسری اولاد تھا۔ جس وقت الفریڈ پیدا ہوا، اُس وقت اُس کا والد عمانوئیل دھماکہ خیز مواد ایجاد کرنے میں مصروف رہتا تھا یوں کہا جا سکتا ہے کہ الفریڈ کو یہ تصور ورثے میں ملا تھا۔

یہاں عمانوئیل نے تارپیڈو بنانے کا کام شروع کیا اور کچھ عرصے بعد پلائی وڈ کی ایجاد بھی کی جو بہت مقبول ہوئی۔الفریڈ نوبل اس وقت صرف چار برس کا ہمیشہ بیمار رہنے والا کمزور سا بچہ تھا۔الفریڈ کی ذہانت سکول کی تعلیم کے دوران میں پہلی بار کھل کر سامنے آئی تو اس کی ماں حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی۔ رفتہ رفتہ یہ حیرت فخر میں تبدیل ہونے لگی۔ الفریڈ جو بات سنتا، وہ اس کے ذہن میں نقش ہو جاتی۔ حد یہ کہ اس نے کتابوں میں لکھے ہوئے الفاظ نقل کرکے اپنی ماں کے سامنے رکھ دیے۔ اس نے پروفیسر نکولائی نکولائیوچ زینن سے بھی کیمسٹری پڑھی اور 18 سال کی عمر میں 4 سال کے لئے کیمسٹری پڑھنے کے لیے امریکا چلا گیا۔ یہاں اس نے کچھ عرصے کے لئے جان ایریکسن کے پاس بھی کام کیا۔
1859ء میں اسکے والد کی فیکٹری اس کے دوسرے بھائی لودویک نوبل کی نگرانی میں چلی گئی، لودویک نے اس فیکٹری کو بہت وسعت دی۔ لیکن بعد میں الفریڈ کے خاندان کا کاروبار دیوالیہ ہو گیا۔اس وقت الفریڈ اپنے والد کے ساتھ وطن واپس چلا گیا، یہاں اس نے دھماکہ خیز مواد کے مطالعے اور تجربے کا آغاز کیا، یہاں وہ ایک کمیا دان اور انجینیر کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا،عمانوئیل اپنے بیٹوں پر فخر کرتا تھا لیکن چھوٹے لڑکے الفریڈ اور اس کے درمیان رفتہ رفتہ ذہنی رقابت کی دیوار حائل ہونے لگی۔ عمانوئیل جس الجھن میں ہفتوں گرفتار رہتا، اس کا ذہین بیٹا الفریڈ اسے چٹکیوں میں دور کردیتا تھا۔

اس وقت زار روس نپولین کو تباہ کرنے کے بعد طاقت کے بام عروج پر پہنچ چکا تھا۔ لیکن نپولین کا عزیز تخت فرانس پر براجمان ہوا تو سیاسی صورت حال اس قدر کشیدہ ہوگئی کہ روس کو اپنی بندرگاہیں محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس طرح عمانوئیل کی مائنز پھر منظر عام پر آئیں۔ زار روس کی رہائش تک جانے والا دریائی راستہ پانی میں مائنز بچھا کر بند کر دیا گیا۔ یہ مائنز ٹین کے ڈبوں میں گن کا ٹن بھر کر تیار کی جاتی تھیں۔ برطانوی بـحری جہاز پیٹرز برگ تک جانے کی جرات نہ کر سکے۔ ان مائنز کی تباہ کاری اتفاقیہ معلوم ہوئی۔ ایک برطانوی ملاح نے ایک عجیب و غریب ٹین کا ڈبہ پانی میں بہتا ہوا پایا۔ تیرتے ہوئے تباہ کن ڈبوں کی داستان اس نے سن رکھی تھی۔ ڈبے کو بحفاظت نکال کر اپنے کمانڈر کے جہاز پر لے گیا تاکہ ماہرین اس کا معائنہ کر سکیں۔ یہ تباہی کو گھر کے اندر مدعو کرنے والی بات تھی۔ متعدد نگاہوں کے سامنے ڈبے کا معائنہ شروع ہوا۔ ہر نگاہ میں تجسس تھا۔ ایک ماہر نے جرات کرکے ڈبے کوکھولنے کی کوشش کی تو وہ دھماکے سے پھٹ گیا اور وہ وہیں پرمرگیا۔ تماشائی حیران رہ گئے۔

برطانوی نیوی پھر ایسی مرعوب ہوئی کہ روسی ٹھکانوں تک پہنچنے کی جرات نہ کر سکی۔ راتوں رات عمانوئیل کی فیکٹری کے نصیب جاگ اٹھے۔ مستولوں والی ہر شے کو بھاپ کی طاقت سے چلانے والا منصوبہ سامنے آیا۔ عمانوئیل کو اس کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا لیکن اب اس کا پڑھا لکھا ہونہار شاگرد اور بیٹا الفریڈ موجود تھا لہذا اس نے پانچ سو ہارس پاور سے چلنے والے تین جہاز تیار کر دیے۔ اس کے فوراً بعد دو سو ہارس پاور کے پانچ جہاز بھی تیار ہوئے۔ اسی دوران روسی بحری فوج کو جدید جہازوں سے مسلح کرنے کا عظیم منصوبہ زیر عمل آیا۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ روسی نیوی کی جڑیں نوبل خاندان نے مضبوط کیں۔

دن رات کی مشقت نے الفریڈ کی صحت پر برا اثر ڈالا اور وہ بیمار ہوگیا۔ الفریڈ نے واپس اپنے وطن سویڈن جانے کو ترجیح دی۔
یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب الفریڈ صرف چودہ برس کا تھا۔ اٹلی کے ڈاکٹر اسکانیو نے نائٹرک ایسڈ (شورے کا تیزاب) کو گلیسرین میں ملایا تو گاڑھے تیل جیسی شے حاصل ہوئی جو بے حد دھماکا خیز ثابت ہوئی لیکن خطرناک بات یہ تھی کہ دھماکے کا تعین نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گویا یہ ایسی بلا تھی جس کی چابی کا کسی کو علم نہیں تھا الفریڈ سویڈن آ کر اس چابی تک پہنچنے کی کوششوں میں مصروف ہو گیا۔

الفریڈ ساری دنیا کے معاملات کو بھول کر اس بلا کو لگام دینے کے متعلق غور کرنے لگا۔ نائٹروجن گلیسرین بالکل ناقابل اعتبار شے تھی اور جس شے کا اعتبار نہ ہو اس سے چھیڑ چھاڑ مہنگی پڑتی ہے۔۔۔۔ پہلے اس نے اس شے کے متعلق دن رات پڑھنا شروع کیا حتی کہ وہ اس کی جزئیات سے واقف ہوگیا۔ پھر اپنے مطالعہ کی روشنی میں وہ قدم قدم آگے بڑھنے لگا۔صبح اٹھ کر اس نے مکمل تیاری کی۔ پہلے اس نے نائٹروگلیسرین شیشے کی ایک ٹیوب میں ڈالی اور اس ٹیوب کو اچھی طرح بند کر دیا۔ پھر ایک دھات کی ٹیوب میں گن پاؤڈر رکھ کر شیشے کی ٹیوب اس کے اندر ڈال دی۔ اب نائٹرو گلیسرین کا گن پاؤڈر کے اندر ہوتے ہوئے بھی گن پاؤڈر سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ دھات کی ٹیوب میں اس نے ایک فیتہ لگا دیا اور فیتے کو آگ دکھا کر جب اس نے دریا کے بہتے پانی میں پھینکا تو تھوڑی دیر بعد کان پھاڑ دینے والا دھماکا ہوا اور اندازے سے کئی گنا زیادہ پانی اچھل کر دریا کے کنارے تک آ گیا۔

اس کا تجربہ کامیاب تھا لیکن یہ اصل کامیابی نہیں تھی۔ کامیابی ابھی دور تھی۔
اس نے نئے سرے سے ہر شے کا جائزہ لیا اور بات کی تہہ تک پہنچ گیا۔ بات بالکل معمولی تھی لیکن اس کے ذہن میں نہیں آ رہی تھی۔ ہر شے اپنی جگہ پر ٹھیک تھی خامی صرف اس کی تیاری میں تھی۔ وہ نائٹروگلیسرین اور سارے مرکب کو اچھی طرح بند نہیں کر پا رہا تھا۔ اس طرح مرکب کا رشتہ بیرونی مداخلت سے پاک نہیں ہو رہا تھا۔ سادہ الفاظ میں وہ گن پاؤڈر کو اچھی طرح “سیل” نہیں کر پا رہا تھا اور شیشے کی نائٹروگلیسرین سے بھری ٹیوب کو مناسب دھچکا نہیں لگ رہا تھا لہذا وہ پھٹ نہیں پا رہی تھی۔ اس نے دھات کی ٹیوب کے دونوں سرے سیلنگ ویکس سے اچھی طرح بند کر دیے۔ بیرونی ہوا کا رشتہ مکمل منقطع ہوگیا۔ وہ پراعتماد قدموں سے کھڑا ہوگیا اور نتیجے کا انتظار کرنے لگا۔ چند لمحوں کے بعد زبردست دھماکا ہوا۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ اس نے دیو پر قابو پا لیا تھا۔ ایسا دیو جو چٹانوں، پہاڑوں کو روئی کے گالوں کی طرح اڑا سکتا تھا۔ دنیا میں انقلاب برپا ہونے والا تھا۔ اس نے فوراً اپنی ایجاد کو قانونی تحفظ دینے کے لیے سویڈن کی حکومت کو درخواست پیش کی۔ اس کی درخواست منظور ہوگئی۔

پھر فرانس، برطانیہ اور بلجیم کی حکومت نے بھی نائٹروگلیسرین پراڈکٹ کو تسلیم کر لیا۔ قانونی تحفظ مل جانے کے بعد وہ بھاگم بھاگ پیرس پہنچا۔ الفریڈ نے ایک بینک سے رابطہ قائم کیا اور اسے کام کرنے کے لیے کچھ رقم مل گئی۔عظیم الشان منزل کا راستہ اسے مل گیا تھا لیکن ڈھیر سارا کام ابھی باقی تھا۔ اصل کامیابی یہ تھی کہ قلیل مقدار والے مواد سے زیادہ سے زیادہ مواد کو تحریک دی جائے اور زیادہ شدت والا دھماکا میسر آ سکے۔ جیسے دیا سلائی کے معمولی شعلے سے سارے جنگل کو آگ لگائی جاتی ہے، آگ کے بہت بڑے الاؤ سے صرف ایک درخت کو جلانا تو کوئی کارنامہ تصور نہیں کیا جاتا۔ بعد میں الفریڈ کے اس اصول کو “پرائمری چارج” کا نام دیا گیا اور آج بھی دنیا میں اسی پر عمل کیا جا رہا ہے۔ حد یہ کہ ہائیڈروجن بم تک میں یہی اصول کارفرما ہے۔ گن پاؤڈر کی دریافت سے لے کر آج تک اس میدان میں الفریڈ کا یہ قدم سب سے بڑا تھا۔

ایک روز الفریڈ، سویڈن کے بہت بڑے سرمایہ دار اسمتھ سے مذاکرات کرنے گیا تھا۔ آسکر اور کیمیا دان ایرک تجربات میں مصروف تھے کہ اچانک دھماکے سے تمام درو دیوار لرز اٹھے اور الفریڈ کی تجربہ گاہ شعلوں کی لپیٹ میں آ گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے تجربہ گاہ جل کر راکھ ہوگئی۔ آسکر، ایرک اور دو ملازموں کے علاوہ اس حادثے میں الفریڈ کا بھائی ایمل بھی مارا گیا۔ الفریڈ کو اس المناک حادثے کی خبر ہوئی تو وہ بھاگم بھاگ واپس آیا۔تحقیق سے پتا چلا کہ سارا قصور تجربہ کرنے والوں کا تھا۔ نائٹروگلیسرین کی صفائی کی جا رہی تھی لیکن درجہ حرارت کا خیال نہ رکھا گیا۔ نائٹرو گلیسرین 180 درجے سنٹی گریڈ پر دھماکے سے پھٹ جاتی ہے۔قیامت خیز دھماکے کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ اس کوتاہی کی پاداش میں سزا بھی ہو سکتی تھی لیکن پولیس نے نائٹروگلیسرین کی تیاری پر پابندی لگانے کے بعد کیس رفع دفع کر دیا۔اس حادثے کے بعد الفریڈ کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی جس کا ذکر آگے کیا جائے گا۔

ارب پتی اسمتھ دھماکے کی شدت کے پیش نظر مطلوبہ رقم خرچ کرنے پر تیار ہوا تو ہائی ایکسپلوسوز کمپنی تشکیل دی گئی۔ اس کے ایک سو پچیس حصص تھے۔ تریسٹھ دو سرمایہ کاروں نے خریدے اور باسٹھ الفریڈ کی ملکیت قرار دیے گئے۔ الفریڈ نے نصف شیئرز اپنے باپ کے نام منتقل کر دیے۔ الفریڈ نے ایک وسیع و عریض جھیل کے عین درمیان فیکٹری لگائی اور سویڈن دنیا میں “ہائی ایکسپلوسوز” تیار کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔ دولت فراوانی سے آنے لگی اور نوبل خاندان کے وارے نیارے ہو گئے۔الفریڈ کے کاروبار نے بین الاقوامی حیثیت اس وقت اختیار کی جب مختلف کارخانے لگانے کے بعد ہیمبرگ میں ایک عظیم الشان فیکٹری لگائی گئی تاکہ دھماکا خیز ہتھیار ساری دنیا کو فراہم کیے جاسکیں۔ فن کان کنی اور شاہراؤں کی تعمیر میں الفریڈ کے مال کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ اس سارے معاملے میں خطرناک مواد کی نقل و حرکت ایک مسئلہ تھی۔ لا علمی یا سستی کی بنا پر حادثات میں اضافہ ہوا لیکن کرۂ ارض پر سست رفتار سے ہونے والے کام، برق رفتاری سے ہونے لگے۔ فائدے کے مقابلے میں نقصانات کم تھے۔ اس کے باوجود الفریڈ محفوظ مواد کی تلاش میں تھا۔

وہ کوئی ایسی شے دریافت کرنا چاہتا تھا جو نائٹروجن گلیسرین کو مکمل طور پر جذب کرلے اور اس کی انفرادیت و وحدانیت کو بھی قائم رکھے۔ یہ چیز اتفاقیہ اسے معلوم ہوگئی۔۔یہ ڈایاٹومائٹ نامی مٹی جیسی شے تھی، پرانے زمانے میں گنبد بنانے، تیل پانی وغیرہ کو فلٹر کرنے اور کاغذ کی چمک کو بڑھانے کے کام آتی تھی (عرف عام میں اسے ڈیاٹم کہتے ہیں) اسی کی مناسبت سے الفریڈ نے اپنی ایجاد کو ڈائنامائٹ کا نام دیا۔ اب گن پاؤڈر کا استعمال ترک کر دیا گیا اور ڈائنامائٹ کا بول بالا ہوگیا۔الفریڈ کی زندگی میں وہ یادگار دن بھی آیا جب سویڈن کی سائنس اکیڈمی نے اس کی خدمات کا اعتراف کر لیا اور اسے سنہری تمغہ عطا کیا۔ اس تمغے میں اس کے باپ عمانوئیل نوبل کو بھی شریک کیا۔ یہی وہ اکیڈیمی ہے جو الفریڈ نوبل کی وصیت کے مطابق سائنس، ادب، آرٹ اور انسانی فلاح و بہبود کے بہترین کارناموں پر نوبل انعام عطا کرتی ہے۔ اس کے متعلق آگے ذکر کیا جائے گا۔

ڈائنامائٹ کی ایجاد کے بعد کان کنی، شاہراہوں کی تعمیر اور پتھروں کا سینہ شق کرنے کی دنیا میں انقلاب آ گیا۔ یہ الگ بات کہ پاگل دنیا اسے جنگی مقاصد کے لیے بھی استعمال کرنے لگی۔ الفریڈ نوبل خاندان کے لیے ڈائنامائٹ سونے کی کان ثابت ہوئی لیکن لالچی لوگ بھی برساتی مینڈکوں کی طرح نکل کر ٹرانے لگے۔ لوگوں نے یہاں تک دعوی کر دیا کہ نائٹروگلیسرین الفریڈ نوبل خاندان کی نہیں، ان کی دریافت ہے۔زندگی کے آغاز میں جب نوبل خاندان تیل کی ناکارہ کھیپ خرید بیٹھا تھا تو الفریڈ نے تیل صاف کرنے کا مناسب طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ آئل ریفائنری کے بعد الفریڈ کی تجویز پر پائپ لائن بچھائی گئی جس سے خام تیل (کروڈ آئل) کی نقل و حمل میں آسانی ہوگئی۔ اسی زمانے میں الفریڈ نے دنیا کو تیل بردار جہازوں سے متعارف کرایا۔

ڈائنامائٹ کی ایجاد تو خیر اس کی شہرت کا باعث تھی، مصنوعی سلک بنانے کا نظریہ بھی الفریڈ ہی نے دنیا کو دیا۔ اس کے علاوہ گندھک کے تیزاب کی صفائی، لوہے کی صفائی جو بعد میں سٹیل ملز کے قیام کی بنیاد بنی اور ریفریجریشن کا سامان بنانے میں اس کے عظیم ذہن نے حیرت انگیز کارنامے انجام دیے۔ اس کا دماغ ایسی ایسی عجیب و بظاہر ناممکن باتیں سوچتا تھا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مثلاً بے آواز دھماکے کا تصور جب اس نے پیش کیا تو اسے دیوانا سمجھا گیا۔ جب اس کا عملی مظاہرہ اس نے کیا تو دنیا حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی۔الفریڈ اب کافی عمر رسیدہ ہو چکا تھا لیکن اس نے ساری زندگی شادی نہیں کی، لیکن اس کے سوانح نگار اس کے تین معاشقے لکھتے ہیں۔الفرید کا پہلا معاشقہ روس میں ایک روسی لڑکی الیکزینڈرا کے ساتھ تھا ، جس نے اس کے شادی کے پیغام کو رد کر دیا۔

1876ء میں بیروتھا کنسکی اس کی سیکٹری بنی، لیکن کچھ عرصے بعد اس نے ، اس کو چھوڑ کر “بارن آرتھر گونڈاکار شٹنز” کے ساتھ شادی کر لی۔ اگرچہ اس کا الفریڈ کے ساتھ تعلق بہت کم عرصے رہا لیکن اس نے الفریڈ کے ساتد خط و کتابت 1896ء میں اس کی موت تک رکھی ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنی وصیت میں امن کا نوبل انعام رکھنے کا فیصلہ بھی اسنے بیروتھا کے مشورے سے کیا تھا۔ 1906ء کا امن نوبل انعام بیروتھا وان شٹنز کو اس کی امن کے لئے کوششوں پر دیا گیا ۔الفریڈ کی تیسری اور سب سے زیادہ عرصے تک 18 سال تک قائم رہنے والی محبت ویانا کی ایک پھول بیچنے والی لڑکی صوفیہ کے ساتھ تھی ۔ اپنے بہت سارے خطوط میں الفریڈ نے اس کو “میڈم صوفیہ نوبل”بھی لکھا ہے جس سے یہ ظاہر بھی ہوتا ہے کہ شاید ان دونوں نے خفیہ شادی کر لی ہو، لیکن اس کے امکان بہت کم ہیں۔

الفریڈ کی زندگی میں وہ لمحہ بڑا خوش گوار ثابت ہوا جب اسے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری سے نوازا گیا۔ اس کے بعد اس نے نائٹروگلیسرین کو امن کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر غور شروع کیا۔ مثلاً ربر یا چمڑے وغیرہ کا نعم البدل تیار کرنا وغیرہ۔ اس نے سائیکلوں میں گیئر لگانے کا نظریہ بھی پیش کیا۔اس کے یہ سارے کام جاری تھے اور وہ ایک سے بڑھ کر ایک بہترین ایجاد کرتا چلا جا رہا تھا۔ لیکن اس دوران الفریڈ کی زندگی میں ایک حادثہ رونما ہوا جس نے اس کی سوچ کے زاویے بدل کر رکھ دیے، الفریڈ کی تجربہ گاہ میں اس کی غیر موجودگی میں ایک بہت بڑا حادثہ پیش آیا۔ نائٹروگلیسرین کی صفائی کے دوران درجہ حرارت کا خیال نہ رکھا گیا جس کی وجہ سے وہ دھماکے سے پھٹ گئی اس حادثے میں اس کا بھائی بھی مارا گیا۔ اس روز جب الفریڈ صبح سو کر اُٹھا توتو اخبار پر نگاہ پڑتے ہی اس کی سٹی گم ہوگئی۔ اخبار میں اس کی موت کی خبر شائع ہوئی تھی۔ مختصر تعزیتی تبصرہ تیر کی طرح اس کے سینے میں پیوست ہو گیا۔ تبصرہ نگار نے لکھا تھا: “ڈائنامائٹ کا شہنشاہ جس نے اجتماعی موت کے مہلک ہتھیار سے دولت کے انبار اکٹھے کیے تھے، آخر کار موت سے ہمکنار ہوگیا۔ دنیا جہاں کی دولت سانسوں کا تسلسل قائم نہ رکھ سکی اور آخر کار سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی۔”

دراصل اخبار کے رپورٹر نے غلط فہمی کی بنا پر ایمل کی بجائے الفریڈ کی موت کی خبر چھاپ دی تھی۔اخبار الفریڈ کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی۔ شدید نفرت نے اسے ضمیر کی عدالت میں لا کھڑا کیا۔”توگویا دنیا مجھے تباہی کا شہنشاہ تصور کرتی ہے۔” اس نے زیر لب دہرایا۔ “لیکن میں نے جو شے ایجاد کی ہے، اس کا افادی پہلو کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ تیز دھار آلے سے مظلوم کا گلا بھی کاٹا جا سکتا ہے اور جاں لیوا عذاب میں مبتلا مریض کا آپریشن بھی کیا جا سکتا ہے۔” الفریڈ نے جو ڈائنامائٹ پہاڑوں اور نہروں کی کھودائی کے لیے بنائی گئی تھی وہ جنگی مقاصد کے لیے استعمال کی جارہی تھی اور دنیا اس کا ذمہ دار ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈ کو سمجھتی تھی۔الفریڈ کو خود سے نفرت محسوس ہوئی، مشکلات سے لڑنے والا الفریڈ اب خود سے جنگ کر رہا تھا، اپنے خلاف اس کی جنگ مختصر ثابت ہوئی۔ اس نے زندگی کا سب سے بڑا اور عظیم الشان فیصلہ کر ڈالا۔
اُس نے کاغذ اور قلم سنبھالا اور اپنی وصیت بدلنے لگا “میں الفریڈ دنیا جسے موت کا سوداگر کہتی اور سمجھتی ہے، اپنی ساری دولت دنیا میں امن و امان قائم کرنے والوں اور انسانی فلاح و بہبود کے علم برداروں کے لیے وقف کرتا ہوں۔”

الفریڈ کا انجام گوشۂ تنہائی میں ہوا۔ اس نے عمر کے 63 ویں برس میں قدم رکھا۔ وہ اٹلی والی تجربہ گاہ میں اپنے خیالات کو کاغذ پر منتقل کر رہا تھا کہ دماغ نے بغاوت کر دی۔ وہ کرسی سے لڑھک کر ایک طرف گر گیا۔
اس کے نوکر نے مالک کو اٹھا کر پلنگ پر لٹایا اور ڈاکٹر سے رابطہ قائم کیا۔ لیکن الفریڈ نے کبھی نہ کھولنے کے لیے دونوں آنکھیں بند کر دیں۔ یہ دس دسمبر 1896ء کا دن تھا۔ دوسرے روز اس کی لاش کو سویڈن لے جایا گیا۔ ایک وکیل نے وصیت پڑھ کر سنائی۔یہ وصیت ہر لحاظ سے انوکھی تھی۔ پہلی بات یہ کہ الفریڈ نے خاندان کے ہر فرد کو جائیداد سے محروم کر دیا تھا اور ساری جائیداد بنی نوع انسان کی فلاح کے لیے وقف کر دی۔ اپنی زمینوں، ڈائنامائٹ اور دیگر ایجادات سے کمائی گئی دولت کے باعث 1896ء میں اپنے انتقال کے وقت نوبل کے اکاؤنٹ میں 90 لاکھ ڈالر کی رقم تھی۔ جس پر الفریڈ کی وصیت کے مطابق عمل کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الفریڈ کی وصیت کے مطابق سوئیڈش اکیڈمی میں ایک فنڈ قائم کیا گیا جس سے حاصل ہونے والا منافع نوبل انعام کے حق داروں میں تقسیم کیا جانے لگا۔نوبل انعام کا آغاز جب پہلی بار 1901ء میں ہوا تو یہ انعام 14 ملین کے ایک چیک‘ ایک طلائی میڈل اور ایک ڈپلوما پر مشتمل تھا۔ موت سے قبل الفریڈ نے اپنی وصیت میں لکھ دیا تھا کہ اس کی یہ دولت ہر سال ایسے افراد یا اداروں کو انعام کے طور پر دی جائے جنہوں نے گزشتہ سال کے دوران میں طبیعیات، کیمیا، طب، ادب اور امن کے میدانوں میں کوئی کارنامہ انجام دیا ہو۔ 1968ء سے نوبل انعام کے شعبوں میں معاشیات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ نوبل فنڈ کے بورڈ کے 6 ڈائریکٹر ہیں جو دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں اور ان کا تعلق سویڈن یا ناروے کے علاوہ کسی اور ملک سے نہیں ہو سکتا۔
نوبل فنڈ میں ہر سال منافع میں اضافے کے ساتھ ساتھ انعام کی رقم بھی بڑھ رہی ہے۔ 1948ء میں انعام یافتگان کو فی کس 32 ہزار ڈالر ملے تھے، جب کہ 1997ء میں یہی رقم بڑھ کر 10 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔ نوبل انعام کی پہلی تقریب الفریڈ کی پانچویں برسی کے دن یعنی 10 دسمبر 1901ء کو منعقد ہوئی تھی۔ تب سے یہ تقریب ہر سال اسی تاریخ کو ہوتی ہے۔

Facebook Comments

حسنین امام
حسنین امام (خانقاہی) سیاسیات کے طالبعلم ہیں۔ مختلف اخبارات میں ہفتہ وار کالم اور فیچر لکھتے ہیں۔اسلامی و معاشرتی موضوعات میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ کہانی و افسانہ نگاری کا شوق رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply