سانحہ اکتوبر۔توقیر ماگرے

8 اکتوبر 2005 کی صبح ملک بھر میں قیامت بن کی آئی ۔ اس روز جب سورج طلوع ہوا تو لوگ زندگی کو حسین بنانے کے خواب لیے گھروں سے نکلے، طالب علم اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مستقبل سنوارنے کا مقصد لیے زیر تعلیم تھے کہ 8 بج کر 52 منٹ پر قدرت نے ایک ہی جھٹکے میں سارے تصورات، خیالات اور خواب زمیں بوس کر دیے۔

مظفرآباد سے 12 میل دور مشرقی جنوب میں آنے والے 7.6 شدت کے اس زلزلے نے پاکستان، بھارت اور افغانستان کو متاثر کیا۔ مگر تباہی کا مرکز پاکستان تھا ۔ چند سیکنڈز کا یہ زلزلہ 80 ہزار لوگوں کو موت کی آغوش میں لے گیا۔ ایک لاکھ سے زائد لوگ زخمی ہوئے جبکہ تقریباً 40 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔ شدت کے حساب سے یہ زلزلہ 1935 میں کوئٹہ میں آنے والے ہولناک زلزلے جیسا ہی تھا۔

اس زلزلے نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لیا، کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، کی شاہراہیں زمین بوس ہوگئیں جس کے باعث مختلف علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔ اسلام آباد، لاہور اور ملتان سمیت کئی شہر اس زلزلے سے متاثر ہوئے مگر آزاد کشمیر، شمالی علاقہ جات، مظفرآباد اور خیبر پختونخوا وغیرہ توجیسے کھنڈرات میں ہی بدل گئیں ۔ پہاڑوں نے اپنے ہی لوگوں کو نگل لیا۔ اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور نے اپنے ہی مکینوں کو دبا دیا۔ ہزاروں اسکول تباہ ہوئے مگر اس تباہی کے بعد پاکستانیوں نے جس   اخوت اور ایثار کا مظاہرہ کیا اس کی مثال تاریخ میں شاید ہی کہیں ملتی ہو۔ اس حادثے نے بطور قوم ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ لوگوں نے اپنے متاثرہ بھائیوں کی دل کھول کر مدد کی، ملک کے کونے کونے سے امدادی سامان سے بھرے کئی ہزار ٹرک متاثرہ علاقوں میں بھیجے گئے۔ غیر ملکیوں نے بھی دل کھول کر امداد کی۔ یہ امداد حقداروں تک پہنچی بھی مگر بدقسمتی سے اس امداد کا ایک بڑا حصہ سرکاری ونجی محکموں میں ہی غائب ہو گیا جس کے باعث تعمیر نو کا کام تاحال نامکمل ہے۔ آزاد کشمیر کے کئی شہر اور دیہات آج بھی تباہی کی داستان سنا رہے ہیں، یہ اجڑی بستیاں بارہ سال گزرنے کے باوجود آج تک آباد کیوں نہ ہو سکیں یہ ہمارے با اختیار لوگوں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

8اکتوبر 2005 کا زلزلہ ایک ایسا سانحہ تھا کہ جس کی تباہ کاریاں دیکھ کر ذہن میں تاریخ کے وہ ابواب گھوم جاتے ہیں جن میں عذاب الٰہی نے قدرتی آفات کی صورت میں پوری کی پوری بستیوں کو صفہ ہستی سے غائب کر دیا تھا۔ بحیثیت مسلمان یہ ہمارا ایمان ہے کہ اس قسم کی آفات بطور قوم ہمارے اعمال کا ہی نتیجہ ہوتی ہیں۔ جس قسم کے ظلم اور ناانصافیوں کے بازار آج ہمارے ملک میں گرم ہیں، ہمیں عذابِ الٰہی سے ڈرنا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ ہم توبہ و استغفار سے اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کریں کیونکہ یہی ہماری نجات کا راستہ ہے۔

Facebook Comments

توقیر ماگرے
"جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں، میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply