• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اقبال کیسے مہنگا پڑے گا؟ لیجیے ایک جھلک دکھا ہی دیتے ہیں۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

اقبال کیسے مہنگا پڑے گا؟ لیجیے ایک جھلک دکھا ہی دیتے ہیں۔۔ڈاکٹر محمد شہباز منج

تصوف کے حوالے سے مخالف حلقوں میں ابن عربی سے کہیں بڑھ کر بدنام حسین بن منصور حلاج ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے خود کو خدا کہا تھا۔ صوفیوں کے قبیلے میں حلاج وہ شخص تھا جو اپنے مشاہدات اور روحانی تجربات کو برملا بیان کرنے سے باز نہیں آتا تھا، یہاں تک کہ صوفیہ کا بھی ایک وسیع حلقہ اس کا مخالف ہو گیا تھا۔ان صوفیوں کا خیال تھا کہ وہ ایسے دعوے کر رہا ہے، جو تصوف کی خاص دنیا میں درست مانے جاسکتے ہیں مگر عوام میں ہرگز بیان نہیں کرنے چاہییں۔ چنانچہ کئی صوفیوں نے اس کو اپنی مجالس سے نکال دیا تھا، تاہم بہت سے صوفی اس کے حامی بھی تھے۔ اس کے حامیوں نے اس کے دعویٰ اناالحق کی تعبیر مختلف انداز سے کی ہے، جس سے اس پر نہ صرف یہ کہ کفر لازم نہیں آتا بلکہ وہ وحدت الوجودی صوفیہ میں ایک بڑا ہی پامرد اور بلند پایہ صوفی قرار پاتا ہے۔

خیر سردست ہم اس موضوع کو چھوڑتے ہیں، اور اپنے اس سٹیٹس کی وضاحت کی طرف آتے ہیں جو کل ہم نے لگایا تھا، کہ تصوف کی مخالفت میں اقبال کے حوالے بہت مہنگے پڑیں گے۔ تو جناب یہ حلاج (علمائے ظاہر جس سے بڑا “کافر” صوفیوں کی جماعت میں کوشش سے بھی نہیں نکال سکتے) آپ کے ممدوح اقبال کا محبوب ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ اس سے متعلق خیالات اقبال کی نو عمری کا قصہ ہوں گے، تو اس کی وضاحت کے لیے عرض ہے کہ ہر گز نہیں ، یہ اقبال کے آخری زمانے اور عروج کے دور کی کہانی ہے۔ اقبال پہلے اوروں کی طرح حلاج کو گمراہ ہی سمجھتا تھا (جیسا کہ ابتدا میں وہ ابن عربی کی فصوص وغیرہ کوبھی الحادو زندقہ خیال کرتا تھا) پھر جب اس نے فرانسیسی مستشرق لوئیس ماسینو ن (Louis Massignon) کی وہ تحقیق پڑھی ،جو اس نے حلاج کی کتاب “الطواسین” کے مقدمے میں اس کے نظریات سے متعلق کی تھی ، تو اقبال کے افکار میں تبدیلی واقع ہو گئی، اور ماسینون سے اقبال کی ملاقات پیرس میں 1932 ء میں ہوئی تھی ، ان کا وحدت الوجودی بننا اس کے بعد کا قصہ ہے۔مستشرق مذکورنے خود بیان کیا ہے کہ 1932ء میں ان سے ملاقات تک اقبال وجودی نہیں شہودی تھے، جس سے واضح ہے کہ یہ آخری دور کا اقبال تھا جو شہودی سے وجودی ہوا تھا۔ تو جناب اس حلاج کو اقبال مردِ حق اور اس کے خلاف دیے جانے والے فتوؤں اور اس کی پاداش میں اسے سولی پر چڑھا دینے کو فتنہ قرار دیتے ہیں، فرماتے ہیں:
کم نگاہاں فتنہ ہا انگیختند
بندۂ حق را بدار آویختند
(کم نگاہوں نے یہ فتنہ برپا کیا کہ مردِ حق کو سولی پر لٹکا دیا)

واضح رہے مذکورہ شعر جاوید نامہ کا ہے، اور جاوید نامہ وہ کتاب ہے جسے اقبال اپنی زندگی کا حاصل قرار دیتے تھے، اور یہ کتاب 1932ء میں اقبال کی وفات سے چھے سال قبل شائع ہوئی تھی۔(یعنی یہ خیالات اس زمانے کے ہیں جب اقبال اپنی  فکر کی معراج پر تھے۔)

اقبال کو حلاج کے راستے اور اس کی مشکلات سے کتنا تعلق تھا؟ اس کا اندازہ اس کرید سے لگایئے کہ وہ جب عالمِ تخیل میں حلاج سے اس کا قصور پوچھتے ہیں تو وہ کہتا ہے کہ میرا قصور وہی جو تیرا قصور ہے، تجھے بھی اپنے دور کے نادانوں سے ڈرنا چاہیے ، کہیں تیرا بھی وہی حشر نہ کردیں جو میرا کر دیا تھا:
آنچہ من کردم تو ہم کردی بترس
محشرے بر مردہ آوردی بترس

اب ذرا انا الحق کے اس نعرے کا استعمال دیکھیے جس کی بنا پر حلاج پر فتویٰ  لگا اور اسے سولی پر جھولنا پڑا، اور جس سے باز آنے کا علما نے ہی نہیں کئی صوفیوں نے بھی اس کو مشورہ دیا تھا، فرماتے ہیں:
کیا نوائے انا الحق کو آتشیں جس نے
تری رگوں میں وہی خوں ہے قم باذن اللہ
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مردِ قلندر نے کیا راِزِ خودی فاش

Advertisements
julia rana solicitors

ان اشعار سے متعلق بھی واضح رہنا چاہیے کہ یہ ضرب کلیم سے ہیں ، جو 1936ء میں اقبال کی وفات سے صرف دو سال پہلے شائع ہوئی ۔ اب خود سوچ لیجیے کہ  علمائے ظاہر کے یہاں بدنام ترین صوفی کے بارے میں اقبال کا نظریہ یہ ہے کہ وہ اسے اپنا آئیڈیل قرار دے رہا ہے، اور وہ بھی اپنے بچپن و لڑکپن میں نہیں، آخری عمر میں ۔ یہ ایک معمولی سا حوالہ ہے ، ایسے حوالوں سے کلام اقبال بھرا پڑا ہے۔ تو جناب اقبال کو آپ کس برتے پر تصوف کے خلاف استعمال کرنا چاہ رہے ہیں، ایسے بندے کے حوالے دینے سے پہلے اس کے افکار پر اچٹتی نظر بھی ڈال لی جائے تو آدمی ایسی غلطی نہ کرے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر