تاريخ کا تباہ کن زلزلہ, بارہ سال بيت گئے۔محمد لقمان

آزاد کشميرکی  خوبصورت وادی  ليپا کا رہنے والا دلپذير اعوان کبھی  بھی آٹھ اکتوبر 2005 کے دن کو نہيں بھلا سکتا۔ وہ مظفر آباد ميں اس دن صبح سويرے اپنی تنخواہ نکلوانے بينک کی  طرف رواں دواں تھا۔ کہ اچانک اس کے جسم کو جھٹکا سا لگا۔ زمين تھر تھرانے لگی۔ کسی فکشن فلم کے مناظر کی طرح اچانک ارد گرد کی عمارتيں زمين ميں دھنسنے لگيں۔ يوں اکيسويں صدی کے ايک بڑے زلزلے کی وجہ سے آزاد کشمير کے دارالحکومت کا ايک بڑا حصہ تباہ ہوچکا تھا۔ آٹھ اکتوبر کی صبح سويرے ٹی وی  کی رپورٹس کے مطابق صرف اسلام آباد ميں ايک عمارت مرگلہ ٹاور گری  تھی  ليکن جوں جوں وقت گذرتا گيا۔تباہی  کی  داستانيں عام ہونے لگيں۔ دو تين روز کے بعد اہل پاکستان کو پتہ چلا کہ ريکٹر سکيل پر 7.6 ڈگری  والے زلزلے کی وجہ سے آزاد کشمير اور خيبر پختو نخوا ميں 83 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔ دو شہر مظفر آباد اور بالاکوٹ تو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ تباہی کے بعد ريليف کا کام شروع ہوا تو اربوں ڈالرز کی  غير ملکی امداد آئی۔۔اور مظفر آباد اور بالاکوٹ کو دور بسانے کا فيصلہ کيا گيا۔ بعد ميں مظفر آباد کو کہيں اور بسانے کا ارادہ تو تبديل ہوگيا  مگر بالاکوٹ کو 20 کلوميٹر دور ايک نئی  جگہ پر منتقل کرنے کا فيصلہ کيا گيا۔ مگربارہ سال گذرنے کے بعد بھی نيا شہر بسانے کا خواب پورا نہيں ہوا۔

اسی  طرح زلزلے کی  صورت ميں ملبے سے اموات کو روکنے کے لیے عمارتوں کے طرز تعمير اور خام مال ميں تبديلی  کی  بہت بات کی گئی۔ مگر ابھی تک ان احتياطی تدابير پر عمل درآمد کم ہی نظر آتا ہے۔ ماہرين ارضيات کے مطابق اسلام آباد سميت پاکستان کے بيشتر بالائی علاقے فالٹ لائنز پر موجود ہيں۔ جہاں کسی بھی وقت بڑا زلزلہ آسکتا ہے۔ اس کی مثال 26 اکتوبر2015 کا زلزلہ بھی ہے۔ جس کی شدت آٹھ اعشاريہ ايک تھی۔ جس کی وجہ سے سے پنجاب، خيبر پختون خوا اور کشمير ميں سينکڑوں ہلاکتيں ہوئيں اور ہزاروں مکانات مکمل يا جزوی  طور پر تباہ ہوئے۔زلزلے کی  شدت اتنی  زيادہ تھی کہ لاہور کی متعدد عمارتوں ميں دراڑِيں پڑ گئيں۔

اس زلزلے کے بعد ايک ماہ کے دوران کم و بيش 200 چھوٹے زلزلے اور آفٹرشاکس آئے۔ محکمہ موسميات کے سربراہ ڈاکٹر غلام رسول چوہدری  کے مطابق حاليہ دنوں ميں تو زلزلوں کی تعداد بڑھتي ہی جارہی  ہے۔آنے والے دنوں ميں مزيد بڑی  شدت والے زلزلے آسکتے ہيں۔ بحيرہ عرب ميں ساحل مکران کے قريب سونامی بھی آسکتا ہے۔ جس سے پاکستان اور اومان کے کئی علاقے خطرے ميں ہيں۔ پہلے80 فی صد سے زائد زلزلوں کا آغاز کوہ ہندوکش کے سلسلے سے ہوتا تھا۔۔ليکن اب زلزلے کے نئے مراکز ہزارہ اور کشمير ميں بھی  پيدا ہونے شروع ہوگئے ہيں۔ زلزلے تو آتے ہی  رہيں گے۔ اصل مسئلہ يہ ہے کہ اس سے ہونے والی تباہ کاريوں کو کيسے روکا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس وقت کراچی  ، لاہور اور اسلام آباد ميں پاکستان کے بڑے شہروں ميں آسمان سے باتيں کرتی  بلند و بالا عمارتيں عام ہيں۔ جن کی  تعمير ميں کنکريٹ اور شیشے  کا بہت زيادہ استعمال ہوتا ہے۔ زلزلے کی  صورت ميں يہی  عمارتی مٹيريل مکینوں  کی  موت کا سبب بن جاتا ہے۔ جاپان ، اٹلی  اور ديگر ممالک جہاں زلزلے آتے ہی  رہتے ہيں۔ وہاں اس کا حل موزوں تعميراتی  ٹيکنالوجی اور مٹيريل کے استعمال سے نکالا گيا ہے۔جاپان اور میکسیکو ميں اکثر عمارتوں ميں ايسا تعميراتی  مٹيريل استعمال ہوتاہے کہ وہ زلزلے کے دوران سانپ کی   طرح لہراتی  تو رہتی  ہيں مگر گرتی  نہيں۔ پاکستان ميں بھی اگر کنکريٹ کی  بجائے ہلکے وزن کا تعميراتی  خام مال استعمال کيا جائے توزلزلے کی  صورت ميں عمارتوں تو گريں گی   مگر انسانی  جانوں کا ضياع بہت کم ہوگا۔ اس کے لیے ضروری  ہے کہ ہر حادثے کے بعد ٹی وی  چينلز پر گفت و شنيد کرنے کی  بجائے واقعات سے پہلے ہی  احتياطی  تدابير کو عام کيا جائے۔

Facebook Comments

محمد لقمان
محمد لقمان کا تعلق لاہور۔ پاکستان سے ہے۔ وہ پچھلے 25سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ پرنٹ جرنلزم کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کا بھی تجربہ ہے۔ بلاگر کے طور پر معیشت ، سیاست ، زراعت ، توانائی اور موسمی تغیر پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply