• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پروفیسر عنایت علی خان۔۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

پروفیسر عنایت علی خان۔۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

مشہور و معروف اور ممتاز شاعر پروفیسر عنایت علی خان اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے۔ سال 2020 نے تو جیسے قسم کھائی ہو کہ ہر روز کوئی نہ کوئی جانکاہ خبر ضرور دینی ہے۔۔۔
پروفیسر عنایت علی خان سفید داڑھی، سر پہ جناح کیپ اور زیادہ تر شیروانی میں ملبوس، کسی کو معلوم نہ ہو کہ آپ اردو کے مزاحیہ شاعر ہیں تو انہیں مولوی ہی سمجھتا لیکن جب وہ مشاعرہ پڑھنے مائیک پر تشریف لاتے تو محفل زعفرانِ زار بن جاتی۔ پی ٹی وی کا عید مشاعرہ ہو، کسی کالج یونیورسٹی میں منعقد مشاعرے ہوں یا اب بھانت بھانت کے پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر منعقدہ مشاعرے، جناب عنایت علی خان کے بغیر پھیکے اور ادھورے محسوس ہوتے۔ آپ کے مزاحیہ طنز میں بلا کی کاٹ تھی، ویسے تو اُن کی مزاحیہ شاعری کا ہر شعر اور قطعہ ہی باکمال ہے لیکن امریکہ اُن کے طنزومزاح کا شائد پسندیدہ موضوع تھا، امریکہ کے بارے میں قطعہ کہتے تو کاٹ اور بھی بڑھ جاتی۔ اُن کے دو تین قطعے دیکھیے۔
کسی زمانے میں اور شاید اب بھی فصلوں پرامریکی سنڈیوں کے حملوں کا بڑا چرچہ ہوا کرتا تھا، تو اُن کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
تشویش و اضطراب سے کہتا تھا اک کسان
امریکی سنڈیاں میرے کھیتوں میں آ گئیں
میں نے کہا میاں! تجھے کھیتوں کی فکر ہے
امریکی سنڈیاں تو تیرا ملک کھا گئیں

ہمارے عوام کے امریکہ کے بارے طرزِ عمل اور امریکہ کی ہماری طرف پالیسیوں کے حوالے سے دیکھیے وہ کیا کہتے ہیں:
ہمارے ایشیائی لوگ کیسے اُس پہ ریجھے ہیں
جسے دیکھو وہ کہتا ہے کہ میں امریکہ جاتا ہوں
اُدھر اک دلبرانہ شان سے امریکہ کہتا ہے
حضرت آپ کیوں زحمت کریں میں خود جو آتا ہوں

آپ کی نظم بول میری مچھلی، جو محترمہ بےنظیربھٹو شہید کے دور میں آپ نے لکھی اور پڑھی تھیِ، نے خوب شہرت پائی۔ اس نطم میں اُس وقت کے طرزِ حکومت، صدرِ مملکت اور فوج کے کردارپر جو نکتہ آرائی آپ نے کی، وہ لاجواب ہے:
سنو رے لوگو نئی کہانی
ایک ہے راجہ، ایک ہے رانی
راج پاٹ سب راجہ کا ہے
رانی ہے بس نام کی رانی
پَل پَل اُس سے پوچھ رہی ہے
بول میری مچھلی کتنا پانی

پِرجا بولی پیاری رانی
دیس میں ہو گئی سخت گرانی
مہنگائی نے گاڑے جھنڈے
شورکرو تو کھاؤ ڈنڈے
ہو گئے سب کے چولہے ٹھنڈے
کس بِرتے پر تتا پانی
بول میری مچھلی کتنا پانی

پِرجا کی یہ بپتا سُن کر
آگ بگولہ ہو گئی رانی
بولی کوئی نہیں مہنگائی
جھوٹی ہے یہ رام کہانی
محل سرا سے محل سرے تک
مجھ کو لگتی ہے ارزانی
کیک اور برگر کیوں نہیں کھاتے
جن کو ملتی نہیں گُڑ دانی
راجہ کو کوئی کچھ مت کہیو
وہ ہے میرا دلبر جانی
دلبر جانی کر من مانی
بول میری مچھلی کتنا پانی

رانی نے اک طوطا پالا
رنگت جس کی دھانی دھانی
یہ طوطا گر چونچ ہلائے
راج پاٹ چوپٹ ہو جائے
بیٹھا سر نیہوڑائے ہوئے ہے
گونگے کا گُڑ کھائے ہوئے ہے
بولے تو وہ کیسے بولے
کیسے اپنی چونچ وہ کھولے
اُس کو بھی ہے پریت نبھانی
اُس کو بھی ہے چُوری کھانی
بول میری مچھلی کتنا پانی

رانی کا اک نوکر بھی ہے
وردی ہے جانی پہچانی
کہنے کو جی دار بڑا ہے
رَن میں جا کر خوب لڑا ہے
پر وہ بھی چپ چاپ کھڑا ہے
نیل گگن کو دیکھ رہا ہے
اَن داتا (انکل سام) کی مرضی کیا ہے
رہنی ہے رانی یا جانی
بول میری مچھلی کتنا پانی

طوطا بیٹھا چُوری کھائے
راجہ بیٹھا بِین بجائے
نوکر بیٹھا تال ملائے
تک تاک دنا دن تاکے سے
پِرجا مر گئی فاقے سے
بھلے مرے کوئی فاقے سے
تک تاک دنا دن تاکے سے
نوکر بیٹھا تال ملائے
رانی بیٹھی گانا گائے
بول میری مچھلی کتنا پانی
بول میری مچھلی، بول میری مچھلی
کانون میں رس گھول میری مچھلی
موقع ہے انمول میری مچھلی
ہیرے موتی رول میری مچھلی
ڈول خوشی سے ڈول میری مچھلی
بول میری مچھلی، بول میری مچھلی
بول میری مچھلی کتنا پانی

عنایت علی خان صاحب نے جتنی بھی مزاحیہ شاعری تخلیق کی، اُس میں کوئی نہ کوئی بامقصد پیغام ضرور دیا۔ اُن کے اپنے الفاظ ہیں کہ “جب لطیفہ گوئی ہوتی ہے تو پہلے اُس کا معیار لطافت ہوتا ہے، پھر کثافت اور آخر میں غلاظت”، اس جملے میں دیکھیے کتنی بڑی حقیقت پوشیدہ ہے، اُن کا یہ شعر دیکھیے:
لطیفہ گوئی کا جو رات چل پڑا تھا سلسلہ
اُبل پڑے کئی گٹر، مذاق ہی مذاق میں
اور پروفیسر صاحب نے لطیفہ گوئی پر مشتمل شاعری میں ہمیشہ لطافت کے معیار کو برقرار رکھا۔

یہ تو اُن کی مزاحیہ شاعری یا شاعرانہ طنزومزاح کی چند جھلکیاں تھیں جو عنایت علی خان کی پہچان بنیں۔ لیکن اُن کا اصل کام اُن کا سنجیدہ کلام بھی ہے جو بہت پائے کا ہے۔ مزاحیہ شاعروں کے ساتھ یہ تھوڑی سی زیادتی ہو جاتی ہے کہ اُن کے طنزومزاح کے مقابلے میں اُن کا سنجیدہ کام پیچھے چھُپ جاتا ہے۔ انور مسعود صاحب نے ایک مشاعرے میں سمجھیں تو زبردستی ہی اپنی ایک سنجیدہ غزل سے یہ کہتے ہوئے آغاز کیا کہ سنجیدہ شاعری سنانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ یہی معاملہ باقی شعراء کی طرح عنایت علی خان صاحب کے بھی ساتھ تھا۔ اُن کی ایک غزل کا یہ شعر بہت ہی مقبول ہوا کہ
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر
اُن کا یہ شعر غالباً سمارٹ فون آنے سے پہلے کا ہو گا ورنہ اب تو سانحہ اِس سے بھی سِوا ہے کہ لوگ ٹھہرتے ہیں، فلم بناتے ہیں اور چل دیتے ہیں۔

اور پھر اُن کا ایک اور باکمال شعر بھی دیکھیے کہ:
ضبطِ غم نے جسے پلکوں سے نکلنے نہ دیا
اک وہی اَشک میرے عشق کا حاصل نکلا

انہوں نے ایک حمد لکھی اور کیا ہی کمال لکھی، اُس حمد میں بھی آپ کا عشقِ رسول ﷺ چھلکتا دکھائی دیتا ہے:
مجھے تُو نے جو بھی ہنر دیا بکمالِ حسنِ عطا دیا
میرے دل کو حُب رسول دی میرے لب کو ذوقِ نوا دیا
تُو نے جو دیا ہے مجھے اُسی کا حساب دینے کی فکر ہے
مجھے اس سے ہو بھلا کیا غرض ا،سے کیا دیا اُسے کیا دیا
حالانکہ ہمارا طرزِ عمل تو یہ ہے کہ جو اپنے پاس ہے اُس کے نہ حساب کی فکر ہے نہ شُکر کا جذبہ اور اسی پر جلن کڑھن ہے کہ خدایا جو اِسے اُسے دیا مجھے کیوں نہ دیا۔

آپ کی یہ نعت اور نعت کیا ہے، حضور بنیِ اکرم ﷺ کے عشق اور محبت میں ڈوبا ایک ایک لفظ جو صرف عشقِ نبی ﷺ کی دعوت نہیں دے رہا بلکہ عشق جن اعمال کا تقاضا کرتا ہے، اُن اعمال کے نہ ہونے کا نوحہ بھی ہے اور عشقِ رسول ﷺ کے دعویداروں کے لیے آئینہ بھی ہے اور دعوتِ فکر بھی کہ عمل کے بغیر عشق نامکمل اور ادھورا ہے۔ اس نعت کا ایک ایک لفظ ہیرے جواہرات میں تولے جانے کے لائق ہے۔ پوری نعت تو یہان نقل کرنا ممکن نہیں ہے لیکن دو ایک شعر دیکھیے:
کسی غمگسار کی محنتوں کا یہ خوب میں نے صلہ دیا
کہ جو میرے غم میں گھُلا کیا، اُسے میں نے دل سے بھُلا دیا
جو جمالِ روئے حیات تھا، جو دلیلِ راہِ نجات تھا
اسی رہبر کے نقوش پا کو مسافروں نے مٹا دیا
میں ترے مزار کی جالیوں ہی کی مدحتوں میں مگن رہا
ترے دشمنوں نے ترے چمن میں خزاں کا جال بچھا دیا
ترے حسن خلق کی اک رمق مری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در و بام کو تو سجا دیا
ترے ثور و بدر کے باب کے میں ورق الٹ کے گزر گیا
مجھے صرف تیری حکایتوں کی روایتوں نے مزا دیا
کبھی اے عنایتِ کم نظر ! ترے دل میں یہ بھی کسک ہوئی
جو تبسمِ رخِِ زیست تھا اسے تیرے غم نے رلا دیا
کیا ہی آبِ زر سے لکھنے کے لائق اشعار ہیں، دو ایک شعر لکھنے لگا تھا کہ عنایت صاحب کی اس نعت نے پانچ چھے شعر لکھوا دیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پروفیسر عنایت علی خان نے شعروادب کے علاوہ سیاست میں بھی پنجہ آزمائی کی کوشش کی اور جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر ایک بار غالباً صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑا۔ شاعری کی طرح سیاست کے میدان میں عوام نے اُن کی پذیرائی نہ کی اور ویسے بھی سیاست شرفاء کو پذیرائی دیتی بھی کب ہے!  پروفیسر صاحب انتہائی بزرگ ہو چکے تھے اور غالباً بیمار بھی تھے۔ لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرتے بکھیرتے اُن کی آنکھوں میں آنسو چھوڑ کر گزشتہ روز اپنے  رب سے ملاقات کو چل دیے۔ مجھے یقین ہے کہ ربِ رحیم نے بھی ہنستے  ہنساتے اپنے بندے کا استقبال کیا ہو گا۔ بے شک ہم اللہ ہی کے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ اُن کے جانے سے مزاحیہ شاعری یتیم نہیں تو بے آسرا ضرور ہو گئی ہے۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply