• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انوکھا لاڈلا کپتان،کھیلن کو مانگے پاکستان۔۔محمد وقاص رشید

انوکھا لاڈلا کپتان،کھیلن کو مانگے پاکستان۔۔محمد وقاص رشید

انوکھا لاڈلا کپتان،کھیلن کو مانگے پاکستان۔۔محمد وقاص رشید/لاطینی زبان کا مقولہ ہے “منتقم مزاج آدمی کی سوچ اپنے انتقام سے آگے نہیں بڑھ سکتی” ۔
عمران خان نے بطورِ اپوزیشن لیڈر 22سالہ سیاست میں کرپشن کو اپنا موضوع بنایا, اور پوری قوم کو جس میں راقم الحروف بھی شامل ہے یہ باور کرانے میں کامیاب ہو گئے کہ پاکستانی عوام کی تمام مشکلات حکمران طبقے کی کرپشن کی وجہ سے ہیں اور انکا واحد حل عمران خان ہے۔

کل وزیر اعظم صاحب کا خطاب سنا جس میں انہوں نے پاکستان کو فلاحی ریاست کی طرف موڑنے کے لیے بقول انکے تاریخ کے سب سے بڑے پیکج کا اعلان کیا  اور اس میں انہوں نے ایک مخصوص جملہ دہرایا تو یوں لگا کہ لاطینی زبان کے کسی موجد نے یہ مقولہ انہی کی نفسیات کو مد نظر رکھ کر بنایا تھا ۔ وہ انتقامی نفسیات کی رسی جو” NRO نہیں دونگا “سے شروع ہوئی تھی ” ایک کو بھی  نہیں چھوڑوں گا “سے ہوتی ہوئی  “میں دونوں بڑے خاندانوں سے ریکوئسٹ کرتا ہوں”  تک پہنچتی پہنچتی تین سالہ نااہلی کی آگ میں جل گئی لیکن اسکے بل نہیں گئے۔ یہ بل کن کن مراحل سے گزرتے ہوئے یہاں تک پہنچے اور اس ریاضی کی مساوات میں مہنگائی نے کیسے ایک constant کا کردار ادا کیا ،ذرا انکے درج ذیل بیانات کی روشنی میں دیکھتے ہیں اور پھر کچھ حقائق اور اعدادو شمار ۔۔۔
۔NRO نہیں دونگا،مہنگائی کی وجہ سے گھبرانا نہیں،
شریفوں کا لفافہ میڈیا شور مچا رہا ہے ۔مہنگائی اتنی ہے ہی نہیں۔۔۔لفافے نہیں دونگا
شریف اور زرداری مافیاز پر ہاتھ ڈال کر رہوں گا،جن کی وجہ سے مہنگائی ہے
انکے بچے بھی ارب پتی بن گئے، جنید صفدر نے انگلینڈ میں گھوڑا رکھا ہوا ہے میں انگلینڈ میں رہا ہوں، مجھے پتا ہے وہاں گھوڑا رکھنا کتنا مشکل ہے، مہنگائی انہی کی وجہ سے ہے اور عوام کے لیے پیغام ہے کہ زندگی میں مشکلات آتی جاتی رہتی ہیں، سکون صرف قبر میں ہے۔
(پورے ملک کے بیورو کریٹس بلا کر) شریف اور زرداری ٹولہ مایوسی پھیلا رہا ہے،صرف دو سال مشکل ہیں، پھر پیسہ ہی پیسہ ہو گا،آپ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں پڑھا سکیں گے (یاد رہے کہ یہ نہیں کہا تھا کہ سرکاری سکول دو سال بعد پرائیویٹ جیسے ہو جائیں گے)
ایک کو بھی نہیں چھوڑوں گا،مہنگائی انکے ذخیرہ اندوز کر رہے ہیں
حکومت کیا جان بھی چلی جائے ان کو نہیں چھوڑوں گا مہنگائی انکی بیورو کریسی کر رہی ہے
امریکہ سے آکر تیرا AC اتار لوں گا،مہنگائی کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے لگا ہوں
خدا سے وعدہ کیا ہے قیدیوں میں فرق نہیں کروں گا،مہنگائی پرائس کنٹرول کمیٹی دور کرے گی
(منہ پر ہاتھ پھیر کر) تجھے بورس جانسن کو کہہ کر واپس لاؤں گا،عام جیل میں ڈالوں گا،مہنگائی ٹائیگر فورس دور کرے گی
(سری لنکا میں) پاکستان ترقی کر رہا تھا پھر کرپٹ حکمران آ گئے، واپس جا کر سری لنکا والی ٹیکنالوجی استعمال کروں گا مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے
“معیشت ” ٹھیک طرف نکل گئی ہے اور شریف اور زرداری کو یہی مسئلہ ہے، اب مہنگائی نیچے آئے گی
یہ میرے سے تین لفظ سننا چاہتے ہیں این آر او،کسی صورت نہیں دونگا، پاکستان سستا ترین ملک ہے
مہنگائی تو پوری دنیا میں بڑھی ہے، میں دو خاندانوں سے ریکوئسٹ کرتا ہوں کہ اپنی لوٹی ہوئی دولت سے آدھے پیسے بھی واپس لے آئیں تو میں مہنگائی آدھی کر دونگا

مراد سعید کے مطابق 200ارب ڈالر واپس لانے سے ایک دن پہلے حلف اٹھانے والے وزیر اعظم نے حلف اٹھانے سے پہلے ایسے نظام کا وعدہ کیا جو اس سے پہلے پاکستان میں کبھی آیا ہی نہیں ۔ وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان صاحب نے اپنی سربراہی میں ایک  اعلیٰ سطحی کمیشن کا اعلان کیا جس نے پچھلے دس سال کے قرضوں کا حساب لگانا تھا، اس کمیشن کی رپورٹ اسی لیے کبھی پبلک نہیں ہوئی کہ اس کے مطابق پچھلے دس سال کے قرضوں کا ریکارڈ ریاستی اداروں کے پاس موجود ہے ۔

وہ بہترین موقع تھا کہ عمران خان یہ باور کرتے کہ اس انتقام کی خو میں جلنے کی بجائے انہیں اپوزیشن لیڈر کی خو کم کر کے ایک حکمران بن کے سوچنا ہے اور اپوزیشن کو دھیرے دھیرے ساتھ ملا کر ملک میں ایک سیاسی و سماجی امن و امان اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنا ہے جس کے ذریعے بیرونی سرمایہ کاری بڑھے اور ہماری درآمدات میں اضافہ ہو ، روزگار کے مواقع بڑھیں ۔۔شرح نمو میں اضافہ ہو ، روپیہ مستحکم ہو ،فی کس آمدنی بڑھے ،قوتِ خرید میں اضافہ ہو تو تھوڑی بہت مہنگائی سے کچھ خاص فرق نہ پڑے ،یعنی ملکی معیشت مجموعی طور پر ترقی کرے لیکن لاطینی محاورہ  ؟

خان صاحب نے کیا اس سے بالکل الٹ ہر روز کی تقریر حتی کہ رحمت للعالمین کانفرنس میں یہ کہتے ہوئےبھی کہ اسلام لوگوں کو اکٹھا کرتا ہے نبی کریم ص اس لیے دنیا کے سب سے بڑے لیڈر تھے کہ انہوں نے تمام مذاہب کے انسانوں کو اکٹھا کیا، اسی لیے رحمت للعالمین ہیں، سیاسی حریفوں پر وار کیے۔  نتیجہ بے یقینی بڑھتی گئی۔۔ جس وقت میں نئی حکومت آ کر اپنے معاشی و اقتصادی روڈ میپ کا اعلان کرتی ہے اور اسکی تیاری کرتی ہے خان صاحب نے کبھی کہا محترمہ خاتون اوّل سے پتا چلتا ہے کہ میں وزیراعظم ہوں، کبھی فخر سے ٹی وی پر آکر کہا ڈالر کا ریٹ ٹی وی سے پتا چلتا ہے،کٹوں ،انڈوں مرغیوں اور وزیراعظم ہاؤس کی بھینسیں بیچنے سے لے کر یہ کہنے تک کہ “دو سال تو  معیشت کی سمجھ ہی نہیں آئی”اپنی بھی بھد اُڑوائی اور غریب عوام کا تو بیڑہ غرق کیا ہی ۔۔

مجھے یاد ہے اس حکومت کے آغاز میں جب IMF کے پاس جانے کا معاملہ تھا تو اس وقت کے وزیرِ خزانہ اسد عمر صاحب نے ٹی وی پر آ کر کہا تھا خان صاحب کے سامنے دونوں اعدادوشمار رکھ دیے تھے , اور خان صاحب نے کہا تھا تمہیں پتا ہے اسد میں کرکٹ میں بھی رسک لیتا تھا , آئی ایم ایف کے پاس جانے یا نہ جانے کا فیصلہ انکا اپنا ہے۔ پھر دوست ممالک سے پیسے لئے گئے اور جب بے یقینی اور بے سمتی حد سے بڑھی تو اسد عمر کو اپنی انا پر مبنی کئے گئے فیصلے کی بھینٹ چڑھا کر آئی ایم ایف کے پاس گئے اس حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنا کر جو انکی نظر میں کبھی ” IMF Stooge ” تھا۔ یہ دوسرا موقع تھا جب خان صاحب یہ دیکھتے کہ “عمران راہی” بننے سے کام نہیں چلنا اور کرکٹ والی اَنا گیارہ کھلاڑیوں کی ٹیم تو شاید چلا سکتی ہے لیکن 22کروڑ کا ملک نہیں  لیکن اَنا کا عالم یہ تھا کہ پی ڈی ایم کے جلسے کا ردعمل دینے کے لئے کتوں کو کھانا ڈالتے خان صاحب کی تصویر آفیشلی جاری کی گئی۔  اب اپنے کتوں کا پیٹ بھر کر حاکم کروڑوں بھوکے انسانوں کو مدینے کی ریاست بنانے کا دعوی کرتے ہوئے “گھبرانا نہیں ” کہے تو بھیا خود اس طرزِ حکمرانی کی تنسیخ کے لیے تو ریاستِ مدینہ قائم کی گئی تھی۔

اپنی انانیت کے خول سے نکل کر ایک قومی رہبر کے طور پر ابھرنے کے بے شمار مواقع آتے جاتے رہے ، لیکن خود کو پاکستان کا واحد ایماندار ،دیانت دار ،پرہیز گار ، محب وطن اور ہر فن مولا سمجھنے کی خو نے انہیں اس خول میں مقید رکھا اور تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کے ساتھ چیئر مین نیب کی مشاورت سے انکار کر دیا اور صدر سے کہہ دیا کہ آپ یہ مشاورت کریں۔ ۔یعنی جیسے تیسے جس نظام کے تحت یہ صاحب وزیر اعظم ہیں اسی کے تحت وہ اپوزیشن لیڈر لیکن پھر وہی لاطینی محاورہ۔۔۔  اور بس!

انکے کروڑ و ارب پتی وزیروں نے تو جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کسی نے دو میں سے ایک روٹی کھانے کا کہا کسی نے دس نوالے کم کرنے کا، دس نوالوں والا وزیر وہی تھا جس نے اپنے کمسن بیٹے کی گاڑی چلاتے ہوئے ویڈیو ٹویٹ کی تو سوال پوچھے جانے پر “مدینے کی ریاست” کے وزیر والا جواب دیا اور کہا” میری زمین میری پجارو میرا بیٹا تمہیں کیا ہے” ؟

اب آتے ہیں اعداد و شمار کی طرف۔ کل جب خان صاحب نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بارہ کروڑ لوگوں کو 120 ارب روپے کا پیکج دال ،آٹا اور گھی پر 30 فیصد رعایت کا  اعلان کیا اور اسے 3سال کی ڈیٹا کلیکشن کی محنت قرار دیا اور اپنی ٹیم کو مبارکباد دی تو اسی وقت قوم کو پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی خبر بھی دے دی۔ اس پیٹرولیم مصنوعات سے کتنی مہنگائی ہو گی،تمام اشیاء کی قیمتوں میں کتنا اضافہ ہو گا اور ان میں سے کیا تین چیزوں پر 30فیصد سبسڈی دینے سے کم ازکم آمدنی 18000 روپے میں ایک مزدور کا گزارہ ہو پائے گا۔  ؟

کاش کہ میں ان سے پوچھ سکتا جیسے اصلی مدینے کی ریاست میں حضرت عمر سے  رض سوال ہوا تھا کہ خان صاحب کیا آپ کے کتوں کا ماہانہ کھانا 15 سے 18 ہزار کا آ جاتا ہے ۔؟
اور اسکے بعد خان صاحب نے حسبِ معمول شریف خاندان اور زرداری خاندان کو “ریکوئسٹ” کرتے ہوئے کہا کہ جتنے پیسے لوٹ کر بیرون ملکوں میں لے کر گئے ہیں اگر آدھے بھی واپس لے آئیں تو خان صاحب ہر چیز کی قیمت آدھی کر دیں گے۔

اب یہاں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں ۔ مراد سعید کے مطابق تو اگلے دن اور خان صاحب کے مطابق دو سال بعد جو پیسہ ہی پیسہ باہر سے آنا تھا اور خان صاحب نے جو منہ پر ہاتھ پھیر کر بورس جانسن سے ملنا تھا وہ تو تین ساڑھے تین سال بعد ریکوئسٹ پر آگئے۔  ایک سوال اور بھی ہے کہ وہ جو آپ نے حکومت میں آکر 7,8 حکومتی کارپوریشن میں ایک ہزار ارب کی چوری روکنی تھی وہ پیسے کدھر ہیں؟ ۔ تازہ تر ین اطلاعات کے مطابق تو نیب کی کاغذی ریکوریوں اور خزانے میں موجود پیسوں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا خان صاحب کے قول و فعل میں ۔

اب آئیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کرتے ہیں ۔ شریف خاندان پر نیب ریفریسنز کی کُل مالیت 7 ارب روپے ہے۔  زرداری کے  سوئس بینکوں میں خان صاحب ہی کے کہنے کے مطابق 6 ارب روپے موجود تھے ۔چلیں آپ ان رقوم کو جمع کر کے دس سے ضرب دے لیں تو یہ 130 ارب روپے بن جاتے ہیں ۔ اب خان صاحب کے فارمولے کے مطابق 2 پر تقسیم کرتے ہیں تو یہ رقم 75 ارب روپے بنتی ہے ۔تو کیا پاکستان میں خان صاحب کو 75 ارب روپے درکار ہیں تمام اشیاء کی قیمتوں کو نصف پر لانے کے لیے جبکہ صرف پیٹرولیم لیوی کی مد میں بجٹ میں ماہانہ 50 ارب روپے سے زائد رقم رکھی گئی ہے۔  اسکا مطلب یہ وہی سیاسی انتقام کی خو ہے۔

حقیقت کیا ہے۔  ؟ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان صاحب اور انکی جماعت کی ایک ملک چلانے کی اہلیت ہی نہیں تھی، یہ کوئی الزام و بُغض نہیں ۔ صرف ایک چیز پر غور کر لیں صرف ایک چیز پر ۔۔ چینی اور گندم کی بمپر کراپ آئی، حکومت نے بغیر منصوبہ بندی کے اسے باہر بھیج دیا،  ملک میں قلت پیدا ہو گئی ،ہونی ہی تھی۔  قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا۔  یہی دونوں چیزیں دوگنا قیمت پر باہر سے منگوانی پڑیں ۔ڈالر کی پہلے ہی کمی تھی حکومتی نااہلی کی وجہ سے اور قلت ہوئی۔  روپے پر بوجھ پڑا ۔ بیلنس آف پیمنٹس متاثر ہوا ۔ اب عمران خان صاحب نے مندرجہ بالا بڑھکیں مارنی شروع کر دیں لیکن سوا تین سال بعد قیمتیں اوپر ہی گئیں واپس نہ آئیں اور اس پر ستم در ستم یہ کہ انکوائریاں کروائیں۔ نام آنے والے وزراء میں سے ایک کو ہٹایا پارٹی کا جنرل سیکرٹری بنا دیا ۔ دوسرے کو کابینہ میں اس سے اہم وزارت دے دی۔  ایک کا نام چینی انکوائری میں آیا۔ وہ کابینہ میں نہیں تھا اسے کچھ دن بعد وفاقی وزیر بنا دیا۔  اب بے حمیتی کی انتہا ہے کہ انہی  کو سامنے بٹھا کر کل ہی فرما رہے تھے کہ میں اپوزیشن لیڈر سے اس لیے ہاتھ نہیں ملاتا کہ وہ کرپٹ ہے  اور وہ سارے سامنے بیٹھ کر تالیاں بجا رہے تھے ، منافقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔

خود اپنا فرمان ہے آج سے کوئی 3ماہ پہلے کا سرگودھا میں کھڑے ہو کر کہا کہ عوام کی جیب سے 125ارب روپیہ صرف چینی مافیا نے نکالا۔  آٹا ، دوائی ، گیس ، ایل این جی وغیرہ کے اربوں کھربوں انکے علاوہ ہیں۔

ایک اور بہت بڑا دھوکہ جو عمران خان کی حکومت کے “وزیرِ پالک ” جناب شہباز گل نے دینا شروع کیا اور خان صاحب کو وہ طریقہ اتنا پسند آیا کہ  انہوں نے اسے اپنا ہی لیا، کہ کیونکہ پاؤنڈ ،ڈالر ،ریال ، درہم  حتیٰ کہ بھارتی روپیہ ہم سے زیادہ ہے ۔ تو کیا کرتے ہیں کہ پیٹرول وغیرہ کی قیمت بتاتے ہوئے اسے اپنی کرنسی میں بتاتے ہیں، جیسے بھارت میں پیٹرول انکے 110 روپے میں ہے اور ہمارے وہ 250بن جاتے ہیں ۔بھئی کیا اتنا بدھو سمجھ لیا پوری قوم کو؟ ۔ بھوکی ٹھوکریں انسان کو بہت سیانا کر دیتی ہیں، تقابل کرنا ہے تو انکی فی کس آمدنی کا بھی پاکستانی روپوں میں کیجیے خان صاحب ۔ ورنہ دھوکہ اور جھانسہ دینے کے لیے پاکستان بنتے ہوئے دادی مرحومہ کو بے موسمی پالک چھوڑنی پڑتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قصہ مختصر یہ کہ خان صاحب ہی نے ونسٹن چرچل کا یہ قول ایک جلسے میں ہمیں سنایا تھا کہ اگر آپ تمام لوگوں کو تھوڑی سی دیر کے لیے بے وقوف بنانا چاہیں تو ہو سکتا ہے ،اگر آپ تھوڑے سے لوگوں کو تمام عرصے کے لیے بے وقوف بنانا چاہیں تو بھی ممکن ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ تمام لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بے وقوف بنا لیں۔ خان صاحب کی سوا تین سال سے صرف ایک کوشش ہے کہ ان کی ہر نااہلی کی سزا عوام بھگتے لیکن اسکا ذمہ دار پچھلوں کو ٹھہرائے ۔لاطینی محاورہ جہاں ان پر صادق ہے وہاں یہ یادگار گیت بھی ۔
“انوکھا لاڈلا کپتان کھیلن کو مانگے پاکستان ”
(پسِ تحریر:امدادی پیکج کے اعلان کے چوبیس گھنٹے بعد ہی پیٹرول 8 روپے مہنگا کر دیا گیا۔ اس سے امدادی پیکج میں شامل تینوں چیزوں کی قیمت میں کتنا اضافہ ہو گا اور پھر اسکے بعد اس میں سے تیس فیصد کی سبسڈی کے بعد لوگوں کو کتنا فائدہ ہو گا، عمران خان کی تبدیلی اور فلاحی ریاست کی حقیقت یہی ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply