دِتو مڈل کلاسیا۔۔زیرک سجاد شاکر

دِتو ایک مڈل کلاس گھرانے میں جوان ہوا اور  اپنا کاروبار کیا ۔ دتو اب تیس سال کا ہوچکا تھا اور اس کی  زندگی مڈل کلاس مسائل کے ساتھ لڑنےمیں گزر رہی تھی۔کورونا کے باعث اسے کاروبار میں بھی خاصا نقصان ہوا تاتھا۔

دل اور دماغ دونوں مل کر بھی کچھ کر نہیں پا رہے تھے لگنے لگا تھا کہ اب شاید زندگی ختم ہوجائے گی وہ کہاں جائے گا ۔ وہ بے حد پریشانی  اور اضطراب کی حالت میں تھا ۔ اس کے ذہن میں کچھ سوال تھے جو اسکے حالات کے سبب پیدا ہوئے تھے۔ ان سوالوں کے جوابات  نہ  ملنے اور اپنے زوال کی وجہ سے وہ سمجھ رہا تھا کہ شاید واپسی ممکن نہ  ہو، سو اس نے کسی ایسے شخص کی تلاش شروع کر دی جو اس کے سوالوں کے جواب دے پائے۔ اس نے اپنے دوست اختر کو بتایا کہ وہ کن مشکلات سے دو چار ہے،اس نے کہا مجھے اللہ کے ایک نیک بندے کا پتا ہے، مجھے وہ مسجد میں ملے تھے ۔ میں انکا گھر بھی جانتا ہوں ۔ ۔یہ سن کر دِتو نے اس کو فوراً ساتھ چلنے کا کہا۔

کچھ دیر بعد  دِتو اور اختر دونوں 10 منٹ کا سفر کرنے کے بعد ایک پرانے مگر صاف ستھرے گھر کے سامنے پہنچ گئے، بابا جی کا گھر ایک قریبی بستی میں تھا، گھر کے باہر ایک چار پائی پڑی تھی۔ دروازہ کھٹکھٹایا ،اندر سے کسی دوشیزہ کی آواز آئی، جی کون؟ اختر بولا بابا جی ہیں۔ آگے سے کوئی جواب نہ ملا ۔  شش و پنج میں کھڑے کچھ ہی وقت گزرا کہ  ،ایک بابا جی جو کہ ظاہری طور پر ایک روحانی شخصیت معلوم ہوتے تھے،انہیں اپنی جانب آتے دکھائی دیے۔۔

سلام دعا کے بعد دِتو نے اپنا مدعا بیان کرنے کی اجازت طلب کی۔۔
اور اشارہ پاتے ہی اپنی کتھا بیان کرنے لگا۔۔

دِتو نے اپنی کہانی سنانی شروع کی۔ ۔مگر وہ بالکل بے ربط طریقے سے بول رہا تھا اس کا ذہن ساتھ نہیں دے رہا تھا اور زبان بھی لڑکھڑا رہی تھی وہ گبھراہٹ کا شکار تھا۔
بابا جی نے اُس کی گھبراہٹ کو بھانپتے ہوئے،اُسے پانی کا گلاس تھمایا۔۔

اس دوران بابا جی اٹھ کر گئے اور اندر سے ایک شاپر لے آئے جس میں باجرہ تھا اور گھر کے سامنے لگے درخت کے نیچے پڑے ہوئے پیالے میں انڈیل دیا ۔
اتنے میں دتو نے اپنے جیب سے نیلی سی ڈبی نکالی اور سگریٹ سلگانے لگا ۔ اب اختر تھوڑا شرمندہ تھا مگر بابا جی نے اس بات کو بالکل محسوس نہیں کیا اور بولے
حکم کر پتر میں تیری گل سُن رہیا آں۔ دتو نے سگریٹ کا ایک بڑا سا کش لگایا اور آنکھیں بند کرکے سارا دل کا حال کہہ ڈالا وہ بولتا گیا بولتا گیا ،بابا جی اس کو غور سے سنتے گئے۔ اس کے بعد ایک دم دتو نے آنکھیں کھولیں اور ہاتھ کو جھٹکا ۔ کیوں کہ سگریٹ جل رہا تھا اور دتو اپنی کہانی میں اتنا گم ہوچکا تھا کہ اس کو دھیان ہی نہ رہا کہ کب سگریٹ نے انگلیوں کو بھی سلگا دیا۔
اب دِتو چپ ہوگیا
بابا جی نے اپنا سیدھا ہاتھ اٹھایا اور اپنی شہادت والی انگلی سے سورج جوکہ ابھی آدھا غروب ہوچکا تھا اس کی طرف اشارا کرتے ہوئے دتو کو مخاطب کیا اور کہا دیکھو اس سورج کی طرف ۔ تمھیں کیا لگتا ہے ۔ وہ بولا غروب ہو رہا ہے۔
بابا جی نے ایک اور سوال کیا ۔ کیا یہ پریشان دکھتا ہے؟ یا یہ روتا ہوا نظر آرہا ہے؟ یا پھر بالکل سکون سے غروب ہو رہا ہے؟
دتو بولا : سورج بہت سکون سے غروب ہوتا ہے اور بہت دل فریب منظر ہے یہ۔
بابا جی بولے : کیا یہ کل طلوع ہوگا؟
دتو بولا بالکل اگر رات میں قیامت نہ  آئی تو یہ بالکل طلوع ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بابا جی نے پہلے سے اونچے لہجے میں کہا تے فیر پتر غم کس گل دا۔ اج توں غروب ہو رہیاں ایں تے کل طلوع ہوویں گا۔
دیکھ پُتر۔۔طلوع ہونے کے لیے غروب ہونا لازمی ہے ۔ اگر تم غروب نہیں ہونا چاہتے تو طلوع کے امیدوار مت بنو۔ اپنے غروب کو سکون اور شکر کے ساتھ گزارو ۔ دتو کے چہرے سے صاف عیاں تھا کہ اسکو اسکے سوالوں کا جواب مل گیا ہے ۔ اب دتو نے کہا بابا جی میرے تمام سولوں کا جواب دے دیا آپ نے ۔
سو ہم بھی اپنے غروب کو اچھے سے گزاریں تاکہ ہمارا طلوع بھی بہت چمکدار اور خوبصورت ہو۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو بہت حسین اور خوبصورت طلوع عطا کرے ۔ آمین

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply