پاکستانی ڈرامہ زوال پذیر کیوں؟۔۔سید عمران علی شاہ

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے کہ جہاں ادب اور فنونِ لطیفہ کا ایک عظیم ورثہ موجود ہے، فن مصوری ہو یا خطاطی، سنجیدہ نثر نگاری ہو یا مزاح نگاری، شاعری ہو یا فن موسیقی، سٹیج ہو یا ٹی وی ڈرامہ ہو،پاکستان دنیا بھر میں اپنا ایک عظیم مقام رکھتا ہے، ادب کی تمام اصناف میں پاکستان میں ایسے ایسے نادر و نایاب گوہر پیدا ہوئے کہ وہ اپنے وطن کی پہچان بن گئے، موسیقی کی دنیا میں مہدی حسن خاں صاحب، استاد امانت علی خاں صاحب، میڈم نور جہاں، نیرہ نور، اقبال بانو، عطاءاللہ عیسٰی خیلوی، اور استاد نصرت فتح علی خاں صاحب جیسے عظیم لوگ اس دھرتی سے ابھرے اور موسیقی افق کے درخشندہ ستارے بن گئے،صنف شاعری میں ناصر کاظمی، محسن نقوی، فیض احمد فیض، احمد فراز اور پروین شاکر جیسے نامی گرامی شعراء کرام نے اپنے فن کا لوہا منوایا،
پاکستان نے کھیل کے میدان میں کرکٹ، ہاکی، کبڈی، کشتی اور سنوکر کے میدانوں میں عالمی سطح کے مقابلہ جات میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے۔
مزاح نگاری کے میدان میں ابن انشاء اور مشتاق یوسفی جیسے بڑے ناموں نے پوری دنیا میں پاکستان کے روشن چہرے کو روشناس کروایا، لیکن ان تمام شعبوں میں پاکستان کا جو شعبہ پوری دنیا میں توجہ کا مرکز رہا ہے وہ پاکستان میں بنایا جانے والا اعلیٰ میعار کا ڈرامہ رہا ہے، جس کا سہرا بلاشبہ پاکستان ٹیلیویژن کےسر جاتا ہے،
پی ٹی وی کراچی سنٹر سے خدا کی بستی، ففٹی ففٹی، سٹوڈیو ڈھائی، ہوائیں، دھوپ کنارے، ان کہی، کوئٹہ سنٹر سے دھواں، لاہور سنٹر سے وارث، اندھیرا اجالا، راہیں، بوٹا فرام ٹوبہ ٹیک سنگھ، اسلام آباد سنٹر سے گیسٹ ہاؤس، جیسے اعلی میعار کے شہرہ آفاق ڈرامے پیش کیے گئے، جن کو پاکستان سمیت پوری دنیا میں پذیرائی ملی، ان ڈراموں کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ان کا اعلیٰ میعار کا سکرپٹ اور جاندار ڈائریکشن کے ساتھ ساتھ، اداکاروں کی جاندار اداکاری تھی، جس ان ڈراموں کو پوری دنیا میں ایک مثال بنا دیا،
اس دور کے ڈراموں کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کے مصنفین ہماری معاشرتی اقدار کی مکمل پاسداری کیا کرتے تھے اور اس طرح کے سکرپٹ لکھا کرتے تھے کہ پوری فیملی ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کر ان ڈراموں سے لطف اندوز ہو سکتی تھی کیونکہ یہ ڈرامے بامقصد اور سبق آموز ہوا کرتے تھے،
مگر پھر پاکستان میں میڈیا انڈسٹری میں ایک انقلاب آیا اور تقریباً سن 2000 کے بعد نجی چینلز کا ایک طوفان امڈ آیا،
اور جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ڈراموں میں سماجی اقدار کو یکسر نظر انداز کرکے، اس جگہ گلیمر نے لے لی، یہی پاکستانی ڈرامے کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، اور اب تو نجی چینلز کے ڈرامے مکمل طور پر بے لگام اور بیہودہ ہو چکے ہیں، کمرشلزم  کے تباہ کن اثرات نے ادب کی اس صنف سے اس پہچان ہی کھینچ لی ہے،
اب پاکستان کے نجی چینلز کے ڈراموں میں الفاظ کا چناؤ تو غیر ذمہ دارانہ ہے ہی مگر ساتھ کے ساتھ رشتوں کی پامالی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگا ہے حال ہی میں پاکستان میں دکھایا جانے والا ڈرامہ “میرے پاس تم ہو” جو کہ عوام میں بہت مقبول ہوا، اس ڈرامے کا سکرپٹ بہت جاندار تھا مگر اس کی کہانی ہمارے معاشرے کی عکاس نہیں تھی،اس میں عورت کے کردار کو جس قدر پست دکھایا گیا تھا وہ قابل ستائش نہیں تھا، اس ڈرامے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس طرح کے ڈراموں کے ذریعے ہمارے مضبوط خاندانی نظام کو متاثر کیا جا رہا ہے اور کہیں کہیں اس میں حقیقت بھی دکھائی دیتی ہے،،ان ڈراموں کا میعار اس قدر گر چکا ہے کہ اب یہ ڈرامے کم از کم فیملیز کے ساتھ بیٹھ کر دیکھے جانے قابل نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن ایسے میں ترکی ڈرامے ارتغل غازی نے عوام میں اپنی ایک مؤثر جگہ بنا لی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ اس ڈرامے میں ایک مسلمان راہنماء کے جاندار کردار کو بہت شاندار انداز میں پیش کیا جانا ہے اور اس ڈرامے کا سکرپٹ بہت شاندار ہے جس نے ناظرین پر اپنا سحر طاری کردیا ہے ، لیکن ڈرامے پر پاکستان میں فلم اور ڈرامے کی صنعت سے وابستہ لوگوں میں ایک شدید قسم کا اضطراب دیکھنے میں آیا ہے، کہ یہاں ترکی کے ڈرامے نہیں دکھائے جانے چاہیئں، اس سے ہماری مقامی ڈراموں کو نقصان ہوگا، تو ان سے یہ پوچھنا بنتا ہے کہ پاکستانی ڈراموں کے زوال کا ذمہ دار کون ہے،
کس نے ڈرامے میں، کمرشلزم، جدت اور گلیمر کے نام پر بیہودگی کو فروغ دیا،
پاکستان میں ڈراموں کو پسند کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد آج بھی، انور مقصود، فاطمہ ثریا بجیا، احمد ندیم قاسمی، اصغر ندیم سید، حسینہ معین جیسے بڑے لکھاریوں کے ڈراموں کو یاد کر تی ہے،
پاکستان میں موجودہ دور میں دکھائے جانے والے ڈراموں کو اپنا میعار بہتر بنانے ہوگا اور ان کو معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ کرنا ہوگا، ورنہ پاکستانی ڈرامے کو مکمل زوال پذیر ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا،
آج بھی ہمارے پاس بڑے اور اعلیٰ پائے کے ڈرامہ نگار موجود ہیں ان سے امید ہے کہ وہ پاکستانی ڈراموں کے کھوئے ہوئے وقار اور ساکھ کو بحال کرنے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ ایک بار پھر پوری فیملی کے ساتھ بیٹھ کر ڈرامہ دیکھنے کا رواج عام ہو۔

 

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply