کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(قسط59)۔۔گوتم حیات

دوہزار بیس سے دوہزار اکیس تک کا بجٹ پیش کیا جا چکا ہے، کچھ لوگوں کو ابھی بھی امید تھی کہ وبا کی وجہ سے عوام کا جو معاشی نقصان ہوا ہے اس کے ازالے کے لیے بجٹ کو ہر ممکن طریقے سے عوام دوست بنا کر پیش کیا جائے گا، لیکن افسوس کہ یہ سب اُمیدیں اُس وقت خاک میں ملتی چلی گئیں جب اسمبلی میں بجٹ پیش کیا جا رہا تھا۔ موجودہ حکومت کو اب دو سال پورے ہو گئے ہیں، ان کے پاس ہمہ وقت عوام کو دینے کے لیے لفّاظی سے بھرپور تقریریں ہیں، ایک کے بعد ایک بحران ہے مگر افسوس کہ ان کے نزدیک غریب عوام کو کسی بھی قسم کا ریلیف پہنچانا ایک جُرم ہے، یہ سراسر ناانصافی ہے، جسے کسی بھی صورت میں نہیں دیا جا سکتا۔ محض تقاریر کرنا،سابقہ حکمرانوں پر بےبنیاد الزامات لگانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہ جانے دینا اور عملی طور پر کچھ نہ کرنے کی بدولت نتیجہ اب ہم سب کے سامنے ہے۔
لاتعداد مسائل کا انبار ہے اور ان کے درمیان سسکتی ہوئی غربت کی ماری ہوئی عوام۔۔ آہ غربت۔۔۔ معاشی تنگ دستی، ملک بھر میں عوامی بہبود، تعلیم اور صحت کے شعبوں کو ایسے نظرانداز کیا جا رہا ہے جیسے کہ یہ ان کی ذمہ داری نہ ہو۔ شاید حکمراں ابھی بھی کسی آسمانی مسیحا کے انتظار میں ہیں اسی لیے ان شعبوں کو مکمل طور پر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
کسی بھی ملک میں جب مخصوص ہاتھوں میں وسائل کا کنٹرول ہو گا تو غربت سیلابی ریلے کی مانند سر اُٹھائے گی، بےروزگاری بھی اسی رفتار سے اپنا راستہ بناتی ہوئی آگے بڑھے گی اور عوام بے سہارا تنکوں کی طرح ان بے رحم پانیوں کی بلند ہوتی لہروں کے درمیان ڈولتے رہیں گے۔
یہ حالات کب ٹھیک ہوں گے۔ ہمارے شہر اور ملک بھر کے معتبر حساس لوگ اپنی آنکھوں میں امیدوں کے روشن دیے جلائے رخصت ہو چکے ہیں۔ ان ستّر برسوں میں کچھ بھی تو نہیں بدلا۔اگر کچھ بدلا ہے تو وہ محرومیوں کی شکلیں بدلی ہیں، معاشی تنگ دستی کے سائے میں کراچی سے پشاور تک ہر پیدا ہونے والے روشن چہرے کو بھوک کا عذاب فراہم کیا گیا ہے، کم عمری میں ہی ان کے نازک ہاتھوں میں کھلونوں اور کتابوں کی جگہ کبھی اوزار رکھے گئے اور کبھی کشکول رکھے گئے کہ ان ذرائع سے یہ اپنا اور اپنے والدین کا پیٹ پال سکیں۔
اس ملک کے ہر باشعور شہری نے گلیوں، شاہراہوں اور بازاروں ایسے لاتعداد بچوں کو دیکھا ہو گا جو اپنے والدین کے ساتھ بھیک مانگ کر گزر بسر کر رہے ہیں۔
بہت سے بچے بڑے شہروں کی بڑی شاہراہوں پر گلاب فروخت کرتے ہوئے، بچوں کی کتابیں فروخت کرتے ہوئے یا ہاتھ میں وائپر لے کر سگنلز پر رکنے والی گاڑیوں کو صاف کرتے ہوئے بھی دیکھے ہوں گے۔ اور آپ نے یقیناً ایسے غریب مگر ہنرمند بچوں کو بھی دیکھا ہو گا جو کسی چائے کے ہوٹل، دکان، ورکشاپ یا فیکٹری میں روزانہ کی معمولی اجرت پر کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔
آخر ان بچوں کو اس حال میں پہنچانے والے کون ہیں؟ کیا اُن کا تعلق دشمن ملک اسرائیل یا ہندوستان سے تو نہیں ہے  یا ان کو ہم ہی نے اس حال پر پہنچایا ہے۔ اب ہم معصوم اور بےگناہ بن کر اپنے فرعونی کاموں پر پردہ ڈال کر دشمن ملکوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور ان دشمن ملکوں کو سبق سکھانے کے لیے ہر سال اپنے دفاعی بجٹ میں اضافہ کیے جا رہے ہیں؟ کیا ایسا ہی ہے۔۔۔ یا ایسا نہیں ہے۔؟؟ اس افسوسناک صورتحال کو سمجھنے کے لیے آئیے ہم اپنے شہر کراچی کی ایک دلیر شاعرہ محترمہ “سعدیہ بلوچ” کی نظم بعنوان “تم ہمیں معاف مت کرنا” کا سہارا لیتے ہیں۔ ہمیں ممنون ہونا چاہیے کہ سعدیہ کی یہ نظم اس ملک کے کروڑوں بچوں کا مرثیہ ہے، وہ بچے جو دم توڑ چکے۔ وہ بچے جو موجود ہیں اور وہ بچے جو آج پیدا ہوئے اور جو کل اور آنے والے برسوں میں پیدا ہوں گے۔۔
تلخ حقائق سے پردہ اٹھاتی ہوئی یہ نظم حاضرِ خدمت ہے؛

تم ہمیں معاف مت کرنا
ہم نے تمہیں بھوکا رکھا
جاہل رکھا۔۔۔
اور ان کی پرورش جاری رکھی
جو آج تمہیں محفوظ رکھنے میں ناکام ہیں
تمہارے حصے کا لباس ان کی وردیاں بنانے میں کام آیا
تمہارے حصے کا نوالہ ان کے ہتھیار خریدنے کی نذر ہو گیا
جن پیسوں سے تمہارے کھلونے آنے تھے
ہم نے انہیں بارود خریدنے کو دے ڈالے
تم پر کیے ظلموں کی سزا پا رہے ہیں ہم
گود اجڑنے اور اپنی ہی کوکھ جَنوں کی
سربریدہ لاشوں پر ماتم کرنے سے زیادہ جانکاہ سزا اور کیا ہو گی۔۔۔؟؟؟
تم ہمیں معاف مت کرنا
ننھے ننھے خواب دیکھنے والی آنکھوں
جُگنو تتلی سے باتیں کرتے دہنوں
بھوکے پیٹ جہالت کے اندھیروں سے لڑتے میرے بچوں
تم ہمیں معاف مت کرنا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply