کرپشن کی حکمرانی ۔۔محمد اسد شاہ

میں تو ہمیشہ سے اسی بات کا قائل رہا ہوں اور اپنے قارئین کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ کرپشن کا نشانہ چونکہ عوام ہیں، اس لیے کرپشن کے خلاف جنگ بھی عوام کو خود ہی لڑنا ہو گی۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ جو لوگ خود کرپٹ ہیں، جو ان کے پشت پناہ ہیں، جو بالواسطہ یا بلا واسطہ کرپشن سے فوائد حاصل کر رہے ہیں، یا جو کرپٹ لوگوں کے سہارے اقتدار کی منزل پاتے ہیں، وہ کرپشن کے خلاف جنگ لڑیں؟

یہ سوچنے والے ہی احمق ہیں۔ ۔لیکن ان سے بڑے احمق، بلکہ پورے معاشرے کے لیے خطرناک ترین احمق وہ لوگ ہیں جنہوں نے یہ یقین کر رکھا ہے کہ کرپٹ لوگ قوم کو کرپشن سے نجات دلائیں گے۔واضخ کرتا چلوں کہ کرپشن کا مطلب کسی اختیار یا مرتبے کا غلط استعمال ہے۔ مالی کرپشن اس کی صرف ایک معمولی قسم ہے۔ جب کہ اختیار سے مراد صرٖ ف اقتدار ہی نہیں، بلکہ اور بھی بہت سی    ایسی صورتیں  ہیں کہ لوگ بظاہر اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی کرپشن کے ریکارڈ قائم کرتے رہے ہیں۔میرے سامنے ایسی بہت سی رپورٹس ہیں، جن میں سے صرف دو اپنے قارئین کے سامنے رکھنا چاہ رہا ہوں۔ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے موجودہ دور حکومت کو، جسے آج کل ”نیا پاکستان “کہا جاتا ہے، ماضی کی نسبت زیادہ کرپٹ قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ موجودہ وزیراعظم جب تک خود اقتدار میں نہیں آئے تھے، تب تک کئی سال تک ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل ہی کی رپورٹس اپنے جلسوں میں لہرایا کرتے تھے اور اپنے چاہنے والوں کو بتایا کرتے تھے کہ کرپشن کے معاملے میں اس ادارے کی رپورٹس مستند ترین ہوتی ہیں۔ بلکہ اس ادارے کے کام کرنے کا انداز بھی اپنے کارکنوں کو بتاتے تھے اور تعریفوں کے کوہ ہمالیہ کھڑے کر دیا کرتے تھے۔ لیکن جب اسی ادارے نے موجودہ حکومت میں کرپشن کو ماضی کے تمام ادوار سے زیادہ بتایا تو انھوں نے، اور ان کے وزراء اور ترجمانوں نے پریس کانفرنسز کے ذریعے پہلے تو یہ غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی کہ  یہ رپورٹ گزشتہ کسی سال کی ہے۔ لیکن جب میڈیا نے بتایاکہ رپورٹ تو 2018 اور2019کی حکومتی کارکردگی کو بیان کر رہی ہے، تو نہایت پھرتی کے ساتھ پینترہ بدلتے ہوئے ہمیں یہ بتایا گیا کہ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹس ہی ناقابل اعتبار ہیں۔ اب ہم خان صاحب کے گزشتہ دس سالوں کے تعریفی بیانات پر اعتبار کریں یا موجودہ نئے موقف پر؟

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری رپورٹ آٹااور چینی کی قیمتوں میں خوف ناک اور شرم ناک اضافے سے متعلق ہے۔قارئین کو یاد ہو گا کہ موجودہ وزیراعظم گزشتہ حکومت کے خلاف انتہائی شدید موقف رکھتے ہیں، اور اس کے اظہار میں وہ الفاظ، انداز اور حدود کے قائل نظر نہیں آتے۔لیکن اسی گزشتہ دور حکومت میں چینی 48روپے فی کلوگرام کے حساب سے عوام کو دستیاب تھی۔اب وہی چینی86روپے سے لے کر 90روپے تک ملتی ہے۔ آٹا جو گزشتہ حکومت میں 37روپے فی کلو ملتا تھا، چند ماہ پہلے اچانک اس کی قیمت60روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ عوام کے شدیداحتجاج کے بعداس کی قیمت”کم“ کی گئی تو اب وہ آٹاچکیوں پر55روپے فی کلو مل رہا ہے۔ ذہن میں رہے کہ قیمتوں کا یہ موازنہ کرونا وباء شروع ہونے سے پہلے کا ہے۔موجودہ وفاقی وزیرشیح رشید احمد نے اس حوالے سے ہوش ربا انکشافات کیے ہیں اور کہا گیا کہ عوام کی جیبوں پر کئی ہزار ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا گیاہے۔ اس کی رپورٹ تیار ہوئی، جسے خفیہ رکھا گیا۔ لیکن اچانک وہ رپورٹ لیک ہو گئی۔ اس پر حکومت کے اوسان خطا ہوئے لیکن چند دن بعد جب اوسان بحال ہوئے تو اس کا کریڈٹ خود اپنے ہی گلے میں ڈال لیا کہ رپورٹ خود جاری کی۔ لیکن اس رپورٹ میں جن جن افراد، اور کاروباری اداروں کو مجرم ٹھہرایا گیا ہے، ان سے اب تک کوئی بازپرس نہیں کی گئی۔جو وزیر تھے، ان کے محکمے تبدیل کر دئیے گئے۔ کسی سے استعفٰی لینے یا نیب کے ذریعے ریفرنس دائر کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو سکا۔قیمتیں بھی جس بلندی پر پہنچائی گئیں، وہاں سے نیچے اتارنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔کرپشن کے خلاف جنگ کے نعرے لگانے والے وزیراعظم نے اس رپورٹ کی فرانزک رپورٹ کا نیا نظریہ پیش کیا۔ جب کہ اس سے پہلے اسی موجودہ حکومت کے ہی دور میں راجہ قمرالاسلام، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، سابق وزیراعظم پاکستان جناب شاہد خاقان عباسی، سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ، حمزہ شہباز، رانا ثناء اللہ خان، شہباز شریف وغیرہ کی گرفتاریوں سے پہلے تو کبھی کسی رپورٹ یا فرنزک رپورٹ کا کوئی تصور ہی نہیں رہا۔ لیکن وزیراعظم نے حالیہ رپورٹ کی فرانزک رپورٹ کروانے اور پھرایکشن لینے کے لیے عوام کو 25اپریل کی تاریخ دے دی۔ وہ تاریخ گزر گئی، بلکہ مئی کی 25تاریخ بھی گزر گئی اور آج جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو جون کی 4تاریخ ہے۔ نیب اور پولیس کی بھاری نفری گزشتہ دن یہاں لاہور میں مسلم لیگ (نواز شریف) کے صدر شہباز شریف کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارتی رہی ہے۔ لیکن آٹا چینی کرپشن کے میگا سکینڈل میں نام زد شخصیات کے حوالے سے راوی گھوڑے بیچ کے سو رہا ہے۔ اور وہ لوگ بھی مطمئن ہیں جن کا دعوٰی ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمے کے لیے خان صاحب کے سپورٹر ہیں۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply