جھوٹی” کے جھوٹ سے معاشرہ پریشان۔۔رمشا تبسم

اقراء عزیز کے نئے آنے والے ڈرامہ سریل ’’جھوٹی‘‘ کے دو ٹیزر جاری کئے گئے ہیں۔جاری کردہ ٹیزر میں اقراء عزیز سسرال کی طرف سے کئے جانے والے جھوٹے تشدد کو دکھا کر ہنس رہی ہیں۔ اس ٹیزر پر شائقین نے سوشل میڈیا پر تنقید شروع کر دی اور کہا کہ پاکستان میں ایسے حساس موضوعات پر ڈرامے نہیں بنانے چاہیے جبکہ ہمارے معاشرے کی خواتین پہلے ہی بہت مشکلات کا شکار ہیں اور حقیقتاً تشدد سہہ رہی ہیں لہذا ایسے ڈرامے دکھانے کے بعد خواتین کی سچائی پر بھی کوئی یقین نہیں کرے گا۔یاد رہے ڈرامہ سیریل میرے پاس تم ہو کے بعد ڈرامہ سیریل جھوٹی سب سے زیادہ تنقید کا شکار ہوتا نظر آ رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس قسم کی تنقید کرنے والوں نے ایک بات واضع کر دی کہ پاکستان کے مسائل یا خواتین کے مسائل خواہ کتنے ہی سنجیدہ کیوں نہ ہوں  مگر کسی بھی  سکرپٹ یا ڈرامے سے بخوبی انکی حقیقت سے انکار کیا جا سکتا ہے۔یا انکی سنجیدگی کا تمسخر اڑایا جا سکتا ہے۔دنیا میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں۔کوئی سچ بولتا ہے اور کوئی جھوٹ ۔تشدد ایک حقیقت ہے خواہ عورت پر ہو یا کسی بھی انسان پر۔ڈرامہ سچائی پر مبنی ہو یا نہ ہو مگر پاکستان نہ سہی دنیا میں کسی نہ کسی انسان کی کہانی ضرور ہو سکتا ہے۔ہر ڈرامہ ایک انسان کا چہرہ یا کردار دکھاتا ہے نا کہ معاشرے کی اجتماعی طور پر نمائندگی کر رہا ہوتا ہے۔اکثر خواتین تشدد نہ ہوتے ہوئے بھی گھر والوں سے جھوٹ بولتی ہیں یا تو وہ طلاق کی غرض سے ایسا کرتی ہیں یا سسرال سے الگ ہونے کی خاطر۔لہذا ڈرامہ سیریل جھوٹی میں بھی صرف ایک ایسی ہی عورت کو دکھایا جا رہا ہے جس کویا تو سسرال سے مسئلہ ہے یا شوہر سے یا غربت سے لہذا وہ جھوٹ کو سچ ثابت کر کے اپنا راستہ بناتی نظر آئے گی۔
جھوٹی ڈرامہ سیریل سے لوگوں کو خاص طور پر صرف اس لئے مسئلہ ہوا کیونکہ جھوٹی کا کردار ایک عورت ادا کر رہی ہے اور عورتوں پر ہونے والے تشدد کی غلط عکاسی کر رہی ہے لہذا معاشرے کے کچھ عناصر کو عورت کا جھوٹی ہونا اور تشدد پر ڈرامے بازی کرنا بالکل اسی طرح برداشت نہیں ہوا جیسے ڈرامہ “میرے پاس تم ہو” میں ایک عورت کا دو ٹکے کی ہونا برداشت نہیں ہوا۔
ورنہ پاکستان میں ہی کئی ایسے ڈرامے بن چکے ہیں جس میں مرد کی بے تحاشا کردار کشی کی جاتی ہے۔بحیثیت باپ بیٹی کو بیچتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔بحیثیت بھائی بہن کو قتل کرتا دکھایا جاتا ہے۔بحیثیت شوہر دوسری عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات میں دکھایا جاتا ہے۔ایسے کسی بھی ڈرامے سے نہ کبھی مرد ذات خطرے میں پڑی اور نہ ہی اس نازک سماج کی اقدار کو فرق پڑا۔نہ ہی کسی کو مرد ذات کو غلط طریقے سے پیش کرنے سے فرق پڑا۔ہم نے “من مائل” جیسے ڈرامے بھی دیکھے جہاں عورت طلاق ہونے کے بعد ماں باپ کے گھر نہیں بلکہ ایک غیر مرد کے گھر قیام پذیر رہی۔ہم نے ‘ذرا یاد کر”جیسا ڈرامہ بھی دیکھا جہاں دولت کے لالچ میں عورت شوہر سے طلاق لے کر امیر آدمی سے شادی کرنا چاہتی ہے ۔اور پھر ناکام ہونے کی صورت میں واپس اپنے پرانے شوہر سے شادی کرنے کی غرض سے حلالہ کے لئے خود مرد ڈھونڈتی دکھائی دیتی ہے۔ہم نے “سنگ مرمر” جیسا ڈرامہ بھی دیکھا جہاں دو عورتوں کی حرکتوں کی وجہ سے کئی لوگ موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔اور ڈرامہ “چاند کی پریاں” میں ایک باپ اپنی ہی تین بیٹیوں کو چند پیسوں کے عوض بیچتا ہوا دکھائی دیا۔اور کئی ڈراموں میں لڑکیوں اور لڑکوں کو اسلامی اور اخلاقی اقدار سے بغاوت کی وجوہات بھی دکھائی گئی اور نت نئے طریقوں سے ماں باپ کی عزت خاک میں ملانا بھی دکھایا گیا۔حتی کہ ڈرامہ “باغی” میں ایک عورت کو جائز کام نہ ملنے پر غلط راستوں کا انتخاب کرنا اور اس کی دلیل دینا بھی دکھایا گیا۔
اور اس طرح کے کئی ڈرامے جو اخلاقی, مذہبی, سماجی یا انسانیت کے لحاظ سے انتہائی غیر مناسب تھے بنے بھی مشہور بھی ہوئے ۔اور حقیقت میں ان سے معاشرے میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا تو پھر حیرت ہے کہ صرف ایک ڈرامہ “جھوٹی” سے عورتوں پر ہونے والے گھریلو تشدد کی حقیقت خطرے میں کیسے پڑ گئی؟
کوئی بھی ڈرامہ یا کہانی کسی ایک کردار کے گرد گھومتی ہے اور اسی قسم کے کردار کی عکاسی کر رہی ہوتی ہے ناکہ معاشرے کو اجتماعی طور پر ایسا ظاہر کر رہی ہوتی ہے۔لہذا ایسی صورتحال میں ہنگامہ برپا کرنے سے بہتر ہے ہر قسم کی حقیقت کو تسلیم کیا جائے۔اور کسی قسم کی بھی حقیقت کسی دوسری حقیقت کو نہ تو نگل سکتی ہے نہ چھپا سکتی ہے۔
ڈرامہ ایک کہانی ہوتی ہے۔کہانی کو کہانی رہنے دیا جانا چاہیے ناکہ  کسی بھی کہانی کو لے کر فتوے لگانا شروع کر دینے چاہئیں۔
ہم ڈرامہ سیریل جھوٹی کی کامیابی کے لئےدعا گو ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply