مسئلہِ کشمیر اور مُرغی کی ٹانگ ۔۔۔۔۔۔

سوچا ہم بھی دال سبزی کے لاثانی ذائقوں سے محروم ہوکرایک وقت کسی بُھنی ہوئی مُرغی کی ٹانگ نوچ کر اُس کا ذائقہ معلوم کریں۔ چنانچہ ایک ہوٹل مبارک کا رُخ کیا ، خالی ٹیبل دیکھ کر بیٹھ گئے اور آرڈر دیا ۔ اِدھراُدھر نظر دوڑائی کہ کوئی حسین و جمیل چہرہ ہی نظر آجاواے ، مگر نگاہ حسین کے بجائے سیاسی چہرے پر جا ٹھہری ۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے ایک سیاسی لیڈر ، اور نام نہاد انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کے ایک سربراہ، ہماری جامعہ کے تین طلباء کے ساتھ کُکڑی کی ٹانگیں نوچ رہے تھے۔ اُن پہ نظر پڑتے ہی میں نے نظریں چُرالیں۔۔۔۔۔۔۔ اور خود کو مصروف رکھنے کی خاطر فیس بک پر آن لائن ہوا تو پہلی ہی پوسٹ اُن جناب کی نظر آگئی ، '' مسٹ یونیورسٹی کے طلباء کے ساتھ مسئلہِ کشمیر پر تبادلہِ خیال کرتے ہوئے ''۔ بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی ۔میں نے کمنٹ کیا، ''میں بھی آپ کے دائیں بائیں ہی موجود ہوں ، مجھے بھی اقوامِ متحدہ کے مندوب کی حیثیت سے اِس گول میز کانفرنس میں شریک کرلیجئے ، میں مُرغی کی ٹانگوں کے درمیان سے مسئلہِ کشمیر کا حل برآمد کروں گا''۔

Advertisements
julia rana solicitors

حضرت جی نے کمنٹ پڑھتے ہی پوسٹ عالمِ ارواح میں بھیج دی اور کھانا کھا کر نکل گئے، ہاں جاتے جاتے عجیب سی سمائل بھی دے گئے ۔
مجھے یہ خوف کھائے جارہا تھا کہ کہیں استنجاء فرماتے ہوئے تصویر نہ اپلوڈ کردیں اور کہیں ''مسئلہِ کشمیر کے حل کی راہ ہموار کرتے ہوئے ''۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سوچتا ہوں پاکستانی حکمرانوں سے شکوہ تب کروں ، بھارتی مظالم کا رونا تب روؤں جب میرے ''اپنے'' سیدھے ہوجائیں ۔
ابھی مجھے رُلانے کو میرے اپنے ''لیڈروں'' کے ''انداز''ہی کافی ہیں ۔

Facebook Comments

اُسامہ بن نسیم
اُسامہ بن نسیم کیانی ۔ میں سول انجینئرنگ کا طالبِعلم ہوں، میرا تعلق آزادکشمیر سے ہیں ، کئی مقامی اخبارات اور ویب سائٹس کے لیے کالم نگاری کے علاوہ فیس بک پر مضامین بھی لکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply