شان تاثیر اور ملائیت،دونوں اعتدال کا راستہ اختیار کریں

ہمارا معاشرے کئی حوالوں سے انتہا پسندی کا شکار ہو چکا ہے۔ مذہبی و مسلکی انتہائی پسندی نے تو ملک کی بنیادیں تک ہلا دی ہیں،ایک اور طرح کی انتہا پسندی نے معاشرے کو اپنے پنجوں میں لے لیا ہے،یہ ہے مذہب بیزار انتہا پسندی،جسے اہل مذہب سیکولر کہہ کے پکارتے ہیں۔خیر مذہبی ومسلکی بنیادوں پر زور پکڑنے والی انتہا پسندی و دہشت گردی کو روکنے اور اس سے نمٹنے کے لیے ریاست کو نیشنل ایکشن پلان اور کئی ایک تنظیموں کو جو بہر حال اپنے اپنے مسلکی ریوں کی ترجمان ہیں انھیں کالعدم قرار دینا پڑا۔اگرچہ وہ پھر سے نئے ناموں کے ساتھ اپنے اپنے کام اور اہداف میں لگی ہوئی ہیں۔ہمارے لیے اور ہر صاحب فکر پاکستانی کے لیے یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ہمارے معاشرےکا انجام کیا ہوگا؟ انارکی؟طوائف الملوکی؟یا کچھ اور؟یہ امر تسلیم کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ہمارا معاشرہ عدم برداشت کے راستے پر گامزن ہے اور ہمارے معاشرتی رویوں میں ہر چیز کا حل فتویٰ ہی ہے۔
فتویٰ گری کی تاریخ بڑی دلچسپ بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔بیشتر فتویٰ صرف ضد،مخالفت اور خاص مذہبی رویوں کی حمایت اور مخالفت میں دے گئے ہیں۔ اے کاش کوئی ایسے فتاویٰ بھی دیے جائیں جن سے اسلام کی حقیقی معنوں میں خدمت بھی ہو سکے۔میرا یہ کامل ایمان ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی علیہ و آلہ وسلم اللہ کے آخری بنی و رسول ہیں اور آپ علیہ الصلوۃ و والسلام کے بعد کوئی نبی،رسول یا کتاب قیامت تک نہیں آئے گی۔یہ امر بھی واقعی ہے کہ ہم جس نبی ﷺ کا کلمہ پڑھتے ہیں ،آپ رحمت اللعالمین ہیں۔آپ ؐ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف فرمایا ہے۔ فتح مکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔اس بوڑھی عوت کا واقعہ تو قریب قریب ہر مسلمان کو پتا ہے جو آپؐ پر کوڑا پھینکتی اور آپؐ نے اسے بھی معاف کر دیا۔یعنی ہمارے رویوں میں بھی اس اخلاق کی جھلک ہونی چاہیے جس کی تاکید اسلام کرتا ہے اور جس کا عملی نمونہ نبی کریم ؐ کے اخلاق کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
پاکستان میں توہین رسالت کا قانون ،یعنی 295c قانون تحفظ رسالت بھی ہے۔اس قانون کے تحت ان افراد پر مقدمات بھی درج ہوئے ہیں جنھوں نے نعوذ بااللہ توہین رسالت کی ہے۔یہ امر بھی واقعی ہے کہ جن جن افراد پر اس قانون کے تحت مقدمات چلائے گئے ان میں سے ننانوے فی صد افراد نے اپنے جرم کا اقرار نہیں کیا۔ پاکستانی میڈیا اور دیگر فورمز پہ یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ اس قانون کو مخالفین یا غیر مسلموں کے خلاف بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ سابق گورنر سلمان ثاتیر کے بیٹے شان تاثیر کے کرسمس پیغام پر مقدمے کے بعد فتویٰ بھی آگیا ہے، شان تاثیر کی طرف سے مبارکباد دیئے جانے کو توہین رسالت کے مترادف قرار دیدیا گیا ہے۔ دارالافتاء کے پیر افضل قادری نے آسیہ نامی مسیحی قیدی کے حق میں دعا کی اپیل کرنے اور قانون ناموس رسالت ﷺ یعنی 295c کو غیر انسانی قانون کہنے پر شان تاثیر کو گستاخی کا مرتکب قرار دیا ہے۔ اس سے قبل لاہور کے تھانہ اسلامپورہ میں پولیس کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 295 اے کے تحت مقدمہ درج کرکے تفتیش انویسٹی گیشن ونگ کے سپرد کردی گئی ہے۔
پولیس کی مدعیت میں تھانہ اسلامپورہ میں درج مقدمے میں موقف اپنایا گیا کہ مغرب کے وقت نامعلوم شخص تھانے کے باہر ایک پارسل چھوڑ گیا جسے کھول کر دیکھا گیا تو اس میں ایک یو ایس بی تھی، یو ایس بی میں ایک نامعلوم شخص کو مسیحی برادری کو کرسمس کی مبارکباد اور توہین رسالت کے الزام میں قید آسیہ مسیح اور نبیل مسیح سمیت ایسے قوانین کی زد میں آنیوالے تمام افراد کیلئے دعاگو ہونے کا بیان کر رہا ہے اور دیگر لوگوں کو بھی ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنے ہم وطنوں کیلئے دعا کریں، اس بیان کی وجہ سے اشتعال انگیزی پیدا ہو سکتی ہے لہٰذا پولیس کی مدعیت میں 295 اے کے تحت 2101/16 ایف آئی آر درج کرکے مزید تفتیش کیلئے مقدمہ تفتیشی ونگ کو بھجوا دیا گیا۔دوسری طرف سنی تحریک لاہور ڈویژن کے صدر مولانا مجاہد عبدالرسول خان کی طرف سے بھی تھانہ مغلپورہ میں شان تاثیر کیخلاف ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں 295c کیخلاف گفتگو کرنے پر قانونی کارروائی کی استدعا کی گئی ہے۔ شان تاثیر نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر تھانہ اسلامپورہ میں درج ہونیوالی ایف آئی آر کی کاپی شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ “پنجاب پولیس نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت کرسمس پیغام پر میرے خلاف 295 اے کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم سمجھتے ہیں کہ شان تاثیر کو فقط توجہ حاصل کرنے یا ذاتی شہرت کیلیے کسی بھی صورت ایسی متنازعہ گفتگو نہیں کرنی چاہیے تھی بالخصوص ایک ایسے ایشو کے حوالے جس میں پہلے ہی ان کے والد قتل ہو چکے ہیں۔ شان تاثیر کو اپنی انسانیت دوستی میں الفاظ کے چناو اور موقع محل کا خیال بھی رکھنا چاہیے تھا۔
جبکہ دوسری طرف ہم پیر افضل قادری سے بھی یہی کہیں گے،کہ صاحب سزا دینا اور سزا کے بارے فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے۔ آپ یا آپ کی جماعت و ہم خیال علما نے تھا نے میں درخواست دے کر مقدمہ درج کر وا لیا ہے اب کچھ کام ریاست و حکومت کو بھی کر دیں،آپ نے شان تاثیر کے قتل کا فتویٰ جاری کر کے ثابت کر دیا کہ ہمارا معاشرہ عدم برداشت کے راستے پر ہے۔ آپ کو بہرحال یہ حق نہیں کہ آپ قتل و کفر کے فتوے جاری کرتے پھریں۔ اگر کوئی جنونی شان کو قتل کر دیتا ہے تو بعید نہیں کہ آپ حکومتی ردعمل میں اپنےاس فتوی سے مکر جائیں یا کوئی توضیح و تشریح فر ما کر خود تو بچ جائیں مگر ملک میں پائی جانے والی ا اضطرابی کیفیت کو تازیانہ کرنے کے بعد اسے کون سنبھالے گا۔ باردگر عرض ہے کہ شان تاثیر کو ایسے بیان کسی صورت نہیں دینے چاہیے،اور مفتیان اسلام کو بھی اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
ریاست سے بھی عرض ہے کہ فتوی کے غلط استعمال پر نا صرف توجہ دے بلکہ سختی سے ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرے تاکہ معصوم ذہنوں کو اشتعال میں آ کر کسی انتہائی قدم سے روکا جا سکے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply