پروفیسر رفعت مظہر کی تحاریر
پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

مذاق رات شروع/ڈاکٹر رفعت مظہر

ملکی حالات جوں کے توں، بدلا کچھ بھی نہیں، وہی پکڑ دھکڑ اور وہی دھوم دھڑکا۔ ہم اپنے کالموں میں پرانی باتیں دہراتے دہراتے تھک بلکہ ”ہپھ“چکے۔ اِس لیے سوچا کہ ”ویہلے“ بیٹھنے کی بجائے کوئی علمی وادبی کام کرتے←  مزید پڑھیے

جنگ ابھی جاری ہے/پروفیسر رفعت مظہر

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جنگ کا سا سماں ہے اور عدلیہ عمران خان کی حمایت میں سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے۔ سارے سیاسی فیصلوں کے لیے صرف ہم خیال ججز کا بنچ ہی تشکیل دیا جاتا ہے جس کی←  مزید پڑھیے

آئین پاکستان کٹہرے میں/پروفیسر رفعت مظہر

ذوالفقارعلی بھٹو کو آئینِ پاکستان دینے اور ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے پر تاریخِ پاکستان میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا لیکن اُسی بھٹو کو تختہ دار پہ لٹکایا گیا۔ یہ ”کارنامہ“ اُس وقت کی عدلیہ نے ضیا الحق کے←  مزید پڑھیے

قصور کس کا؟-پروفیسر رفعت مظہر

آج پاکستان کی ہر جیل لاڈلے کی قدم بوسی کے لیے تیار بیٹھی ہے کیونکہ اُس کے کارہائے نمایاں ہی اتنے ہیں کہ گنتے گنتے زندگی کی شام ہو جائے۔ اُس نے“ریاستِ مدینہ“ کی تشکیل کا اعلان کیا اورحصولِ مقصد←  مزید پڑھیے

پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کا التوا کیوں؟-پروفیسر رفعت مظہر

بالآخر الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کرکے 8 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ اِسی تاریخ پر مرکز اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں عام انتخابات ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کا انتخابات کے التوا کا فیصلہ←  مزید پڑھیے

کیا یہ دہشت گردی نہیں ؟-پروفیسر رفعت مظہر

جب 14 مارچ کو میرے سوہنے شہر لاہورکے ایک مخصوص حصے کو “نو گو ایریا” بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی تو مجھے عروس البلاد کراچی یاد آگیا۔ روشنیوں کے اِس شہر کو الطاف حسین نامی دہشت گرد نے اجاڑنے←  مزید پڑھیے

بکھرتے خوابوں کی سرزمین/پروفیسر رفعت مظہر

یوں تو ہم گزشتہ 75 سالوں سے زنگ آلود تمناؤں کے سہارے ہی زندہ ہیں لیکن اب کی بار وطنِ عزیز جن مسموم آندھیوں کی زَد میں ہے وہ اِن دیمک زدہ تمناؤں کو بھی ریزہ ریزہ کرنے کے در←  مزید پڑھیے

میزانِ عدل کہاں ہے؟-پروفیسر رفعت مظہر

ہمارے دین کی بنیاد ہی عدل ہے اِسی لیے فرقانِ حمید میں بار بار عدل کا حکم دیا گیا ہے۔ سورة النساءآیت 135 حکم ہوا “اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خُدا واسطے کے گواہ بنو←  مزید پڑھیے

جیل بھرو تحریک/پروفیسر رفعت مظہر

برِصغیر پاک وہند کی تاریخ میں پہلی جیل بھرو تحریک گاندھی نے شروع کی جس کا مقصد انگریزوں سے آزادی تھا۔ دوسری تحریک ایم آرڈی نے ضیاء الحق کے خلاف شروع کی جس کا مقصد ضیاء الحق کا استعفیٰ، اسیران←  مزید پڑھیے

بیچارے سیاستدان/پروفیسر رفعت مظہر

ہماری سیاست تو خیر گزشتہ 7 عشروں سے زخمی ہے لیکن اب بیچارے سیاستدان بھی زخمی ہونے لگے ہیں۔ 16 اپریل 2022ء کو پنجاب اسمبلی میں وزیرِاعلیٰ کے انتخاب کے موقعے پر چودھری پرویز الٰہی کو “شدید” زخمی کر دیا←  مزید پڑھیے

ٹوٹے ہُوئے دِل/پروفیسر رفعت مظہر

پاکستانی سیاست کے رنگ انوکھے ہیں۔ شاید گرگٹ بھی اتنے رنگ نہیں بدلتا ہوگا جتنے پاکستانی سیاستدان بدلتے ہیں۔ ہم تو یاد کر کر کے تھک بلکہ ”ہپھ“ چکے کہ ہمارا کون سا الیکٹیبل آجکل کس سیاسی جمات کا ”اثاثہ“←  مزید پڑھیے

دہشت گردی کا ناسور/پروفیسر رفعت مظہر

30 جنوری کو پشاور شہر کے ہائی سکیورٹی زون پولیس لائن میں واقع جامع مسجد میں عین نماز کے دوران خودکُش حملہ ہوا جس میں امام مسجد سمیت 104 سے زائد نمازی شہید ہوئے اور 150 سے زائد زخمی۔ خودکُش←  مزید پڑھیے

بے یقینی کی فضا/پروفیسر رفعت مظہر

پچھلے چند دنوں سے ملکی فضا میں کچھ زیادہ ہی ہلچل نظر آرہی ہے۔ ملکی معیشت کا پہلے ہی بُرا حال اُدھر آئی ایم ایف نے بھی کہہ دیا کہ عمران خاں کے دَور میں طے کی جانے والی تمام←  مزید پڑھیے

کدھر جارہے ہیں ہم ؟/پورفیسر رفعت مظہر

لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خاں نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل پی ڈی ایم کے لیے ایک ایسا شاٹ ہے جس کی گونج اُنہیں صدیوں تک سنائی دے گی۔ اُنہوں نے کہا “میرے پاس←  مزید پڑھیے

ٹکر کے لوگ/پروفیسر رفعت مظہر

ہم پاکستانی (خصوصا~خواتین) برانڈ کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے ہیں۔ یہاں کوالٹی نہیں، برانڈ کا نام بکتا ہے۔ پکوان خواہ کتنا ہی پھیکا اور بدذائقہ ہو دکان اونچی ہونی چاہیے۔ اشرافیہ کے ہاں تو قیمت ہی برانڈ کی ہے۔ جہاں←  مزید پڑھیے

شوقِ گُل بوسی میں /پروفیسر رفعت مظہر

ہمیں تحریکِ انصاف سے غرض ہے نہ نوازلیگ سے اور نہ ہی پیپلزپارٹی سے کہ چہرے وہی رہتے ہیں البتہ سیاسی جماعت کا نام بدل جاتا ہے۔ حقِ حکمرانی اِسی ٹولے کو حاصل رہتا ہے جسے اشرافیہ کہہ لیں یا←  مزید پڑھیے

مرضِ لادوا/پروفیسر رفعت مظہر

آج اقوامِ عالم سالِ نَو کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں۔ ہمیں بھی 2 دفعہ امریکہ میں سالِ نَوکی خوشیاں منانے کا موقع ملا۔ وہاں لوگ ہنستے مسکراتے، دعوتیں اُڑاتے، ایک دوسرے کے گھروں میں کیک بھیجتے اور آتش بازی←  مزید پڑھیے

پاکستانی سیاست کا المیہ/پروفیسر رفعت مظہر

آج 25 دسمبر ہے، بابائے قوم کا 145 واں یومِ پیدائش۔ یہ دن ہم ہر سال مِلّی جوش و جذبے سے مناتے ہیں، صبح کا آغاز توپوں کی سلامی سے ہوتا ہے۔ اِس دن کی مناسبت سے ہم سیمینارز اور←  مزید پڑھیے

میرے تحفے، میری مرضی/پروفیسر رفعت مظہر

ایک دفعہ میاں نوازشریف نے کہا تھا ”سارے رَل کے سانوں پے گئے نیں“۔ آجکل کچھ ایسی ہی صورتِ حال سے واسطہ ہمارے خان کو ہے۔ جس کا جی چاہتا ہے ”گھڑی چور، گھڑی چور“ جیسے نعرے لگانے لگتا ہے۔←  مزید پڑھیے

ریاست کے ستون/پروفیسر رفعت مظہر

مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور میڈیا، وہ بنیادی ستون ہیں جن پر کسی مملکت کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ یہ بنیادی ستون ریاست کو بادِ مخالف کے تھپیڑوں سے بچانے میں ہمہ وقت و ہمہ تن مصروفِ کار رہتے ہیں۔ اگر←  مزید پڑھیے