جیل بھرو تحریک/پروفیسر رفعت مظہر

برِصغیر پاک وہند کی تاریخ میں پہلی جیل بھرو تحریک گاندھی نے شروع کی جس کا مقصد انگریزوں سے آزادی تھا۔ دوسری تحریک ایم آرڈی نے ضیاء الحق کے خلاف شروع کی جس کا مقصد ضیاء الحق کا استعفیٰ، اسیران کی رہائی اور بحالیئ جمہوریت تھا۔ سابق وزیرِاعظم عمران خاں نے 22 فروری سے جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا جس کا کوئی واضح مقصد نظر نہیں آتا۔ اِس وقت پاکستان پر خُدانخواستہ نہ تو کسی غیرملکی طاقت کا قبضہ ہے اور نہ ہی آمریت۔ موجودہ اتحادی حکومت آئین کے عین مطابق قائم ہوئی اور پاکستان میں جو ٹوٹی پھوٹی جمہوریت ہے فی الحال اُس کو بھی کوئی خطرہ نہیں۔ پھر نہ جانے اِس جیل بھرو تحریک کا مقصد کیا ہے۔ ہمیں تو اِس تحریک کا ایک ہی مقصد سمجھ میں آتا ہے اور وہ ہے عمران خاں کی ایک دفعہ پھر وزارتِ عظمیٰ کی خواہش جوفی الحال پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔
جب عمران خاں نے 22 فروری سے لاہور میں جیل بھرو تحریک کا اعلان کیا تو پنجاب کی نگران حکومت نے اعلان کر دیا کہ کسی کارکُن کو گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ یہ خبر عمران خاں کے ”ٹائیگرز“ کے لیے بہت دَل خوش کُن تھی کیونکہ ”ہینگ لگے نہ پھٹکری، رنگ بھی چوکھا آئے“ کے مصداق ٹائیگرز جیل جانے سے بچ جاتے اور عمران خاں کی نظروں میں ہیرو بھی قرار پاتے۔اعلان ہوا کہ 22 فروری کو200 ٹائیگرز چیئرنگ کراس پر گرفتاری دیں گے۔ مقررہ وقت پرجب چیئرنگ کراس پر ٹائیگرز پہنچے تو اُنہیں پولیس کی انوکھی حکمتِ عملی کا سامنا کرنا پڑا۔ پولیس نے وہاں قیدیوں کی چار گاڑیاں کھڑی کرکے اُن کے دروازے کھول دیئے اور ساتھ ہی یہ اعلان بھی کر دیا کہ جو گرفتاری دینا چاہتا ہے وہ گاڑی میں بیٹھ جائے۔ اُس وقت شاہ محمود قریشی نے جذباتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اُسے عمران خاں نے گرفتاری دینے سے منع کیا تھا کیونکہ وہ اُن کے ”نمبر ٹو“ ہیں لیکن اُنہوں نے ضد کرکے کہا کے سب سے پہلی گرفتاری وہ دیں گے۔ یہ کہہ کر وہ قیدیوں کی وین میں داخل ہو گئے۔ اُن کے ساتھ اسد عمر، اعظم سواتی، عمر سرفراز چیمہ، مرادراس اور ولید اقبال بھی سوار ہوگئے جہاں اُنہوں نے سیلفیاں بنوانے کے بعد جب نیچے اُترنے کی کوشش کی تو پولیس نے جلدی سے دروازہ بند کرکے وَین چلا دی۔ بعد میں شاہ محمود قریشی نے بوکھلاہٹوں کے جَلو میں اپنے ویڈیو بیان میں کہا ”میرا خیال تھا کہ یہ سی سی پی او آفس لے کر جائیں گے لیکن سی سی پی او آفس تو گزر گیا ہے۔ اب پتہ نہیں کہاں لے کر جائیں گے“۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق لاہور سے کُل 81 کارکن گرفتار ہوئے جبکہ فوادچودھری کا دعویٰ ہے کہ 700 کارکن گرفتار کیے گئے لیکن جیلوں میں جگہ کم ہونے کی بنا پر 600 کارکنوں کو رہا کیا گیا۔ عمران خاں نے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے کہا ”پتہ نہیں حکمرانوں کو کیا شوق ہے، ہمارے جن لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں اُنہیں ننگا کر دیتے ہیں“۔ اب شاہ محمودقریشی اور اسدعمر ہی بتا سکتے ہیں کہ کیا اُنہیں اور ہمراہیوں کو بھی ننگا کیا گیا یا نہیں۔ اگر پولیس کی طرف سے ایسا ہوا ہے تو ہم اِس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
جیل بھرو تحریک میں چونکہ رضاکارانہ گرفتاری دی جاتی ہے اس لیے ضمانتوں کے لیے عدالتوں سے رجوع نہیں کیا جاتا لیکن تحریکِ انصاف کے رَہنماء دوسرے دن ہی اسیران کی رہائی کے لیے ہائیکورٹ پہنچ گئے۔ سینٹر اعجاز چودھری نے اپنی درخواست میں لکھا کہ یہ تو پُرامن شہری ہیں اور گرفتاری بھی نہیں دینا چاہتے تھے لیکن پولیس نے اُنہیں زبردستی گرفتار کر لیا۔ ولیداقبال کی بیگم نے بھی لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور شاہ محمود قریشی کے بیٹے زین قریشی نے جسٹس شہرام سرور کی عدالت میں حاضر ہو کر کہا ”میرے والد کو گرفتار کر لیا ہے اور ملاقات بھی نہیں کرنے دے رہے“۔ جسٹس شہرام سرور نے جواباََ کہا ”آپ ایسا کریں کہ چیئرنگ کراس پر جا کر دفعہ 144 کی خلاف ورزی کریں اور گرفتار ہو جائیں۔ اِس طرح والد سے ملاقات ہو جائے گی۔ اِس جواب پر عدالت قہقہوں سے گونج اُٹھی۔
خیال تو یہی تھا کہ خیبرپختونخوا میں چونکہ 10 سال تک پی ٹی آئی کی حکومت رہی ہے اِس لیے وہاں جیل بھرو تحریک کی بھرپور کامیابی نظر آئے گی لیکن ہمارے پٹھان بھائی تو سب سے چالاک نکلے۔ وہ قیدیوں کی وین کے پاس پہنچتے، نعرے لگاتے اور سیلفیاں بنا کر ”دُڑکی“ لگا جاتے۔ پی ٹی آئی کے سابق ایم پی اے فضل الٰہی نے دلیری دکھائی۔ وہ قیدیوں کی وَین پر چڑھ کر اپنے ہمراہیوں سے خطاب کرنے لگا لیکن پولیس کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اُس نے قیدیوں کی وین سے چھلانگ لگا ئی اور یہ جا، وہ جا۔ کے پی کے کے سابق گورنر شاہ فرمان بھی گرفتاری دینے کے لیے آئے۔ اُنہوں
نے وہاں موجود ایس پی سے علیھدگی میں ملاقات کرکے درخواست کی کہ وہ بیمار ہیں اِس لیے اُنہیں گرفتار نہ کیا جائے۔ جس پر ایس پی نے اُنہیں کھسک جانے کا مشورہ دیااور وہ بھی کھسک لیے۔ سابق وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک سب سے چالاک نکلے۔ اُنہوں نے کسی نامعلوم جگہ سے بیان داغا ”ہم نے گرفتاری دینے کا کہا تھا لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ کہاں سے دیں گے، ہم انتظار کر رہے ہیں۔ اب عمران خاں اگلے لائحہ عمل کا پیغام دیں گے“۔ جب کے پی کے پولیس نے دیکھا کہ کوئی ”بٹیرا“ ہاتھ نہیں آرہا تو وہ گرفتاری کا اعلان کرنے والوں کے گھروں تک پہنچ گئی۔ سابق وزیرِاعلیٰ محمود خاں کے گھر کے باہرپہنچ کر پولیس نے اعلان کیا ”ہم آگئے ہیں، آپ بھی آئیں اور گرفتاری دیں“۔ یہاں سے بھی پولیس کو بے نیل ومرام لوٹنا پڑا البتہ زمان پارک میں چھپے عمران خاں نے کہا کہ پشاور میں ہزاروں لوگ گرفتاری دینے نکل آئے ہیں۔ اعجاز چودھری نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ کے پی کے میں کوئی گرفتاری نہیں ہوئی لیکن ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ہزاروں لوگ نکلے لیکن پولیس نے کسی کو بھی گرفتار کرنے سے انکار کر دیا۔ مختصر یہ کہ ”دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا“۔ 24 فروری کو کمیٹی چوک راولپنڈی میں گرفتاریوں کا ”میلہ“ سجا۔ فیاض چوہان اور زُلفی بخاری سمیت 50 افراد نے گرفتاری دی جن کی ایک ماہ کے لیے نظربندی کا حکم جاری ہوچکا۔ شیخ رشید بھی نعرے لگاتے ہوئے کمیٹی چوک پہنچا لیکن گرفتاری دیئے بغیر ہی ”پھُر“ ہو گیا۔
اب کچھ باتیں عدل کے اونچے ایوانوں کی کہ عدل اور جمہوریت لازم وملزوم ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے عدل کا دامن سیاہ دھبوں سے داغدار ہے۔ حال ہی میں جسٹس مظاہر علی کی ایک آڈیو لیک ہوئی جس میں وہ چودھری پرویز الٰہی کو ایک کیس کے سلسلے میں تسلی دیتے ہوئے پائے گئے۔ جسٹس صاحب کے خلاف ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھی دائر کر دیا گیا ہے لیکن حیرت ہے کہ اَزخود نوٹس کے 9 رُکنی بنچ میں وہ بھی شامل ہیں۔ جب جمعرات 23 فروری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ محترم عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رُکنی بنچ نے ازخود نوٹس کی سماعت شروع کی تو ”سر منڈاتے ہی اولے پڑے“ کے مصداق پہلے روز ہی معزز بنچ کے 3 ارکان نے اَزخود نوٹس پر اعتراض اُٹھا دیا۔ جسٹس جمال خاں مندوخیل نے کہا کہ یہ ازخود نوٹس بنتا ہی نہیں کیونکہ یہ جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل 2 رُکنی بنچ کے نوٹ پر لیا گیا۔ جسٹس اطہر مِن اللہ نے سوال اُٹھا دیا کہ کیا کسی صوبے کا وزیرِاعلیٰ اپنے سیاسی رَہنماء کے کہنے پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا اگر اسمبلی کی تحلیل ہی غیرآئینی ثابت ہو جائے تو اِسے دوبارہ بحال کرکے موجودہ بحران سے نکلا جا سکتا ہے۔ دوسرے دن پیپلزپارٹی کے فاروق ایچ نائیک نے نوازلیگ، جے یو آئی اور پیپلزپارٹی کا مشترکہ نوٹ پڑھ کر سنایا۔ اُنہوں نے کہا کہ فیئر ٹرائل کے حق کے تحت جسٹس مظاہر اور جسٹس اعجاز کو بنچ سے الگ ہو جانا چاہیے کیونکہ دونوں ججز کے کہنے پر اَزخود نوٹس لیا گیا ہے۔ ٍجسٹس اطہرمِن اللہ نے کہا ”مسٹر نائیک! کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ مفادِ عامہ کا معاملہ فُل کورٹ کو سننا چاہیے“۔ اب چونکہ یہ سماعت 27 فروری تک ملتوی کر دی گئی ہے اِس لیے اِس معزز بنچ کے فیصلے پر گزارشات اگلے کالم میں۔

Advertisements
julia rana solicitors

نئی بات

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply