قربانی کا فلسفہ/پروفیسر رفعت مظہر

رَبِ کائنات نے اسلام کو دینِ فطرت بنایا ہے۔ اُس کے ہر حکم میں حکمت پوشیدہ ہے اور ہر حکمت میں مخلوق کی فلاح مضمر۔ قربانی کا سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے ہی شروع ہو گیا تھاجب اُن کے ایک بیٹے کی قربانی قبول کر لی گئی اور دوسرے کی نہیں۔ ارشاد ہوا ”اور آپ اہلِ کتاب کو آدم کے 2 بیٹوں کا واقعہ پڑھ کر سنا دیجیے، جب اُن میں سے ہر ایک نے اللہ کے لیے کچھ نیاز پیش کی تو اُن میں سے ایک کی نیاز قبول ہوگئی اور دوسرے کی قبول نہیں کی گئی“۔المائدہ 183“۔ اِس آیتِ مبارکہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ قربانی کا عبات ہونا حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے ہی ہے البتہ اِس کی پہچان حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واقعے سے ہوئی۔ اِس کے علاوہ یہ بھی طے کہ یہ قربانی ہر اُمت کے لیے تھی۔ جیسا کہ سورة الحج آیت 34 سے ظاہر ہے ”ہر اُمت کے لیے ہم نے قُربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر رکھا ہے تاکہ اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں“۔ سورة الحج آیت 37 میں صراحت فرمادی گئی ”نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اُس نے اُن کو تمہارے لیے اِس طرح مسخر کیا ہے تاکہ اُس کی بخشی ہوئی ہدایت پر تم اُس کی تکبیر کرو“۔ گویا قربانی کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ رَبِ لم یزل کے ہاں خون پہنچتا ہے نہ گوشت بلکہ تقویٰ۔بالاآیتِ مبارکہ سے ظاہر ہے کہ جس کی نیت میں کھوٹ ہو اُس کی قربانی قبول نہیں ہوتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارا المیہ مگریہ کہ اِس ارضِ پاک میں قربانی جیسی عظیم عبادت کو بھی نمودونمائش کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ قربانی تو نفسِ امارہ اور نفسانی خواہشات کو ذبح کرنے کی علامت ہے جس کا اہم فلسفہ ہی یہ ہے کہ مفلس و مساکین بھی اُمراءکی طرح تازہ اور وافر گوشت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ دینِ مبیں کا اصل مقصد تو یہی ہے کہ دولت صرف اشرافیہ کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے بلکہ مال کی محبت کم ہو، سخاوت کی عادت ہو اور ایثار کا جذبہ پیدا ہو۔ قربانی اخوت اور بھائی چارے کا پیغام دیتے ہوئے تواضع اور انکساری پیدا کرتی ہے۔ یہ مسلم اتحاد کا ذریعہ بھی ہے کیونکہ اِنہی دنوں میں پورا عالمِ اسلام قربانی کر رہا
ہوتا ہے۔ حقیقت مگر یہ کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی جذبہ نظر نہیں آتاالبتہ نمودونمائش کے مظاہر جابجا۔ الیکٹرانک میڈیا پر خصوصاََ ایسے جانوروں کی نمائش کی جاتی ہے جن کی قیمتیں لاکھوں میں ہوتی ہیں اور جو مفلس تو کجا متوسط طبقے کے بَس سے بھی باہر ہوتی ہیں۔ اِنہی ایام میں ذخیرہ اندوزوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے اور کھانے پینے کے سامان کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔ ایک عادتِ بَد ہم نے یہ بھی پال رکھی ہے کہ اشرافیہ کے گھرانے صرف اپنی دولت کی نمائش کے لیے کئی کئی جانور خریدتے ہیں۔ اگر یہ جانور غربا و مساکین کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کے لیے ہوں تو عین عبادت لیکن اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ قربانی کے جانور بھی اپنے ہی جیسے دوسرے امراءکو نیچا دکھانے کے لیے خریدے جاتے ہیں۔یہ ایسی عادتِ بَد ہے جس کا عبادت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر اشرافیہ میں واقعی قربانی کا جذبہ ہوتا تو پاکستان کو کبھی ڈیفالٹ کا خطرہ ہوتا نہ آئی ایم ایف کے حضور ناک رگڑنے کی نوبت آتی۔ بین الاقوامی سروے کے مطابق کرپشن میں اِس وقت پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں سے 140 ویں نمبر پر ہے اور معیارِ عدل میں 140 میں سے 130ویں نمبر پر۔ سورة المعائدہ آیت 8 میں ارشاد ہوا ”عدل کرو وہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے“۔ لیکن ہمارے ہاں کرپٹ ترین اداروں میں عدل دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہو رہا ہے اور جس طرح عدل کے اونچے ایوانوں میں میزانِ عدل متزلزل، وہ ناقابلِ برداشت۔ ایسے فیصلے سامنے آرہے ہیں جنہیں سُن کر ایک عامی بھی حیران۔ سپریم کورٹ میں معزز جج صاحبان کے اندر تقسیم واضح اور ”ہم خیال“ بنچ کا شور گلی گلی۔ جب صورتِ حال یہ ہوگی تو پھر تقویٰ کہاں پیدا ہوگا، وہ تقویٰ جو قربانی کی اصل روح ہے، جواُس کیفیت کا نام ہے جس سے انسان کے دل میں گناہوں سے بچنے کی جھجھک پیدا ہوتی ہے اور نیک کاموں کی تڑپ۔
یہ تقویٰ سے دوری اور کرپشن کی کرشمہ سازیاں ہیں جس کی بنا پر ہم کشکولِ گدائی تھامے دَربدر۔ رَبِ کائنات نے تو زمین کے اِس ٹکڑے کو اپنی ہر نعمت سے نوازاہے۔ یہاں 4 موسم، لہلہاتی کھیتیاں، فلک بوس پہاڑ، جھرنے، ندیاں اور زیرِزمیں خزانوں کی بھرمار۔ 24 کروڑ آبادی کا یہ ایٹمی ملک جس کے جری جوان جذبہ¿ شوقِ شہادت سے لبریز۔ پھر بھی ہماری معیشت برباد، مہنگائی کا عفریت ہر شے نگلنے کو تیار۔ ہم کاسہ¿ گدائی تھامے کبھی امریکہ، کبھی چین اور کبھی روس کی نگاہِ التفات کے منتظر۔ یہ وہ کیفیت ہے جو ہماری ترقی کی راہ میں سدِسکندری بن کر کھڑی ہے۔تحقیق کہ جب تک ہمارے اندر کچھ نہ کچھ کر گزرنے کی اُمنگ پیدا نہیں ہوتی ہماری ترقی کی خواہش خواب وخیال ہی رہے گی۔ اِس ترقی کا راز تقویٰ میں مضمر جس سے ہم کوسوں دور۔
30 جون کو جب آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ ہوا تو پورے پاکستان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ہم اِس قرض کے ملنے پر شادیانے بجانے لگے۔ وزیرِاعظم میاں شہباز شریف نے لاہور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”شکر ہے پاکستان ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا“۔ حالانکہ وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار متعدد مرتبہ فرما چکے تھے کہ 3 ٹریلین اثاثے رکھنے والا ملک کبھی ڈیفالٹ نہیں کر سکتا۔اب پتہ نہیں وزیرِاعظم صاحب کا فرمان درست ہے یا اسحاق ڈار کا۔وزیرِاعظم نے یہ بھی فرمایا ”قومیں قرضوں سے ترقی نہیں کرتیں، قرض ہمیںمجبوری میں لینا پڑ رہاہے۔عوام دعا کریں کہ یہ آخری آئی ایم ایف پروگرام ہو“۔ وزیرِاعظم ہم سے بہتر جانتے ہیںکہ ترقی نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیںاور اِن وجوہات کو کیسے دور کیا جا سکتا ہے۔ مقتدر وہ ہیں اور ساری طاقت اُنہی کے پاس ہے، پھر وہ بسم اللہ کیوں نہیں کرتے؟۔ ملک کو ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچانے اور پاکستان عالمی تنہائی کا شکار کرنے والوں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتے؟۔ جب تک ہم اِس معاہدے کو بڑی عید پر بڑی عیدی قرار دیتے رہیں گے ترقی خواب وخیال ہی رہے گی کیونکہ دینِ مبیں کا فیصلہ ہے کہ خُدا اُس قوم کی حالت نہیں بدلتا جسے اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو۔ جس قرض کو ہم بڑی عیدی سمجھ کر بہت خوش ہو رہے ہیں اُس کے بارے میں مرزا غالب کہہ گئے
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply