آغر ندیم سحر کی تحاریر
آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

فطرت سے مکالمہ۔۔آغر ندیم سحر

گزشتہ طویل عرصے سے زندگی اس قدر مصروف رہی کہ اتوار کا دن بھی کسی نہ کسی تقریب یا مشاعرے کی نذر ہو جاتا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو نیند پوری کرنے میں گزر جاتا۔بڑے شہر میں رہتے ہوئے←  مزید پڑھیے

انفلوئنزا سے کروناوائرس تک۔۔آغر ندیم سحر

یہ سو سال پرانی بات ہے: پوری دنیا میں تباہی پھیلا دینے والی انفلوائنزا کی وبا 1918ء کے موسمِ خزاں میں امریکی کی 48ریاستوں میں نہایت تیزی سے پھیلی۔امریکی شہروں میں اشتہار لگا دیے گئے کہ کھانسنا یا چھینکنا ایک←  مزید پڑھیے

لاک ڈون میں اساتذہ کا استحصال۔۔۔آغرؔ ندیم سحر

وزیرِ تعلیم جناب شفقت محمودکے لیے ایک کالم: ملک بھر میں کرونا کی وجہ سے لاک ڈون کر دیا گیا اور یہ لاک ڈاؤن نہ جانے کب تک رہے کیونکہ حکومتی احکامات کے مطابق تعلیمی ادارے تو یکم جون تک←  مزید پڑھیے

طاعون سے کروناوائرس تک۔۔آغرؔ ندیم سحر

گزشتہ ایک ہفتے سے کرونا وائرس کی وجہ سے  گھرمیں قید ہوں اور اس دوران کتب بینی زوروں پہ ہے۔عام دنوں میں کبھی اتنی فرصت نصیب نہیں ہوئی کہ اتنی یکسوئی سے مسلسل کتب پڑھی جائیں جس کتاب نے مجھے←  مزید پڑھیے