سبطِ حسن، ترقی پسندی اور سوشلزم

سماجی سطح پرمعاشرے کوبہترکرتے رہنے کی خواہش ترقی پسندی ہے۔ معاشرے کے مسائل کوحل کرکے بہتر معاشرہ قائم کرنے کی کوشش ترقی پسندی ہے۔ معاشرے کی ترقی کے عمل کو کسی ایک سطح تک محدود رکھنا ترقی پسندی نہیں ہے۔ یہ خواہش کہ معاشرہ موجودہ حالت میں برقراررہے یا ایک مقررہ حد سے آگے ترقی نہ کرے قدامت پسندی ہے اوریہ کوشش کہ معاشرہ تاریخی ارتقاء کے موجودہ مرحلے سے پستی کی طرف جائے اورپرانے تصورات یا نظام ہائے زندگی کو اپنائے رجعت پرستی ہے۔

سبطِ حسن کا تعلق فکر کی ترقی پسند دھارا سے تھا۔ وہ نہ ہی قدامت پرست تھے اورنہ رجعت پرست۔ رجائیت ان میں کوٹ کوٹ کربھری تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستانی معاشرہ ترقی کرکے ایک سوشلسٹ معاشرہ بنے۔ ان کی ترقی پسندی کا تصور معاشرے کی سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی تک محدود نہیں تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے وہ ہندوستان میں کمیوسٹ پارٹی آف انڈیا کے رسالوں میں ادارت اورنامہ نگاری کے فرائض انجام دیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے پاکستان میں جہاں تقسیم کے عمل میں نقل مکانی کی وجہ سے کمیونسٹ پارٹی کی تنظیم کافی کمزورہوگئی تھی، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان اورانجمن ترقی پسند مصنفین کی تشکیل کے لیے خود کو وقف کردیا۔ جب لیاقت علی خان کی حکومت نے کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے اس پرپابندی مسلط کی تو سبطِ حسن کو کمیونسٹ پارٹی کے خلاف قائم کیے گئے راولپنڈی سازش کیس میں گرفتارکرلیا گیا۔ وہ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی مرکزی کمیٹٰی کے پولٹ بیوروکے رکن رہے۔ اردو زبان میں جسے ہمارے ملک میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ پڑھتے، سمجھتے اوربولتے ہیں، سبط حسن نے کمیونزم، سوشل ازم، مارکس ازم جمہوریت اورسیکیولرازم کے دفاع میں متعدد تصانیف قلمبند کرکے اورسائنسی سوشلزم کے بانیان کارل مارکس اورفریڈرک اینگلزکی تحریروں کا ترجمہ کر کے اوران پرمضامین لکھ کرملک میں سوشلسٹ لٹریچراور پاکستان کے سیاسی، سماجی اورتہذہبی مسائل پرسوشلسٹ نکتہ نظرکوبھرپور اندازسے متعارف کروایا اورفروغ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے فیوڈل سسٹم کی باقیات، ملائیت اورعقیدہ پرستی کے مدمقابل روشن خیالی، جمہوریت پسندی اورسیکولرازم کا مقدمہ بھی انتہائی مدلل انداز سے پیش کیا۔ ترقی پسند تحریک کوفروغ دینے کے لیے انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔

یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ سبطِ حسن کے فکری وعملی کام پرتحقیق کی جارہی ہے۔ لوگ ان پرپی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ سبطِ حسن اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان سے ان کے تعلق کی تحقیق بھی بہت ضروری ہے اوراس جانب خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ ملک میں سوشلسٹ فکروعمل کو تقویت دینے کے لیے سبطِ حسن پرہونے والی تحقیق کی عام اشاعت کویقینی بنانا بھی اشد ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ایک اہم قدم یہ ہوسکتا ہے کہ انجمن ترقی پسند مصنفین سبطِ حسن کی تصنیفات پرمشتمل ایک ویب سائٹ قائم کرکے ان کی ترویج کرے اوران تصنیفات کی مفت یا ارزاں قیمت پردستیابی کو یقینی بنائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ سبطِ حسن کی تحریروں سے باآسانی استفادہ کرسکیں۔

سبطِ حسن نے اپنی ساری زندگی پاکستانی معاشرے کو ایک ترقی یافتہ معاشرہ بنانے کی جدوجہد میں بسر کی۔ یہ جاننا اہم ہے کہ معاشرتی ترقی کے بارے میں ان کا فلسفیانہ تصورکیا تھا۔ ان کی تصنیفات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ انہوں نے معاشرتی ترقی کے جس فلسفیانہ مکتب سے اپنا رشتہ استوارکیا وہ سائنسی کمیونزم کا مکتبِہ فکروعمل تھا۔ انہوں نے براہِ راست کمیونزم اورسوشلزم کو اپنی تحریروں کا موضوع بنایا۔ اپنی زندگی کے آخری حصے میں وہ مشرق کے بارے میں مارکس کے خیالات پرایک تحقیقی تصنیف قلمبند کرنے میں مصروف تھے۔

پاکستان کی معاشرتی ترقی کے حوالے سے تین رجحانات بہت واضح ہیں۔ ایک ملائیت، دوسرا لبرل جمہوریت پسندی اورتیسرا سوشلسٹ انقلابی رجحان۔
ملائیت کا رجحان یہ ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اوراسے ایسا ہی رہنا چاہیے۔ یہ اورزیادہ اسلامی تو ہوسکتی ہے لیکن جتنی اسلامی یہ اس وقت ہے اس سے اس کا کم ہونا برداشت نہیں کیا جائے گا۔ ہرچند کہ پاکستانی ریاست کا بالائی ڈھانچہ مذہبی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کا معاشی نظام سرمایہ دارانہ نوآبادیاتی طرزپرقائم ہے۔ تاریخی طورپرتو ملائیت اورروشن خیالی، جاگیرداراورسرمایہ دارطبقے کے نمائندہ فکری رجحان رہے ہیں اورایک دوسرے سے شدید تضاد رکھتے آئے ہیں لیکن نوآبادیاتی استعماری نظام میں ہمیں ان کا طبقاتی گٹھ جوڑبھی اکثروبیشتردیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلا لبرل سرمایہ داریورپی ریاستوں نے ایشیاء، افریقہ، مشرقی یورپ اورجنوبی امریکا کے نوآبادیاتی ملکوں میں مذہبی انتہا پسند قوتوں کے ساتھ اورفوجی آمریتوں کے ساتھ تعاون کیا اورآزادی کی جمہوری تحریکوں کے آگے اپنی قدامت پسندی کے بند باندھنے کی شرمناک کوششیں کیں۔ یہ توہم سب جانتے ہیں کہ افغان جہاد میں امریکہ اوربرطانیہ جیسی لبرل جمہوری ریاستوں نے سعودی عرب جیسی تھیوکریٹک ریاست کے ساتھ مل کرمذہبی دہشت گردوں کے ذریعے افغانستان میں منتخب سوشلسٹ جمہوری حکومت کو تہہ تیغ کیا۔ عوامی ترقی کی امنگوں کے خلاف لبرل ازم اورمذہبی انتہا پسندی کا یہ شرمناک گٹھ جوڑ آج کل ہمیں بہت تفصیل سے شام، عراق، یمن اوریوکرین میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔

ملائیت کے تنگ نظر رجحان کے مدمقابل یہ جمہوری رجحان ہے کہ پاکستان کو ایک سیکیولرریاست ہونا چاہیے۔ ریاست کے نزدیک تمام شہری برابرہونے چاہییں خواہ ان کا مذہب کچھ بھی ہو۔ پاکستان کا ایک ہندو،عیسائی اورقادیانی شہری بھی اتنا ہی پاکستانی ہے جتنا ایک مسلمان شہری۔ یہ رجحانات تھیوکریسی اورجمہوری ریاست یعنی فیوڈل نظام کی باقیات اورسرمایہ دارانہ جمہوری نظام یعنی لبرل ازم کے درمیان تضاد کوظاہرکرتے ہیں۔ ایک سوشلسٹ مفکر کی حیثیت سے سبطِ حسن کے نزدیک تھیوکریسی کے مقابلے میں جمہوری ریاست کا قیام ترقی پسندانہ عمل تھا اس لیے انہوں نے ملائیت کے رجحان کوتاریخی تجزیے اورعلمی وعقلی دلائل کی بنیاد پررد کرتے ہوئے جمہوری ریاست کے قیام کے لیے آوازاٹھائی اورملک میں جمہوری تحریک کومضبوط کرنے میں اہم کردارادا کیا۔ تاہم انہوں نے جمہوری ریاست کے قیام کے اپنے مطالبے کوسیکیولرازم تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس سے آگے بڑھ کرانہوں نے صوبائی خودمختاری اورقومی حقوق کوبھی اس میں شامل کیا۔ جمہوری نکتہ نظرسے وہ پاکستان کوایک ایسی ریاست کے طورپربھی دیکھتے تھے جس میں پاکستان کے تمام صوبوں اورقوموں کوخودمختاری حاصل ہو۔

تاہم اس سے یہ سمجھنا درست نہ ہوگا کہ جمہوری ریاست کے قیام کے حوالے سے سبطِ حسن کا نکتہ نظرلبرل جمہوری نکتہ نظرتھا۔ یقینا پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں فیوڈل نظام کی معاشی، سماجی اورثقافتی باقیات اب بھی موجود ہیں، لبرل جمہوری مطالبات مثلا ریاست کی مذہب سے علیحدگی، شہریوں کے مساوی حقوق، صنفی امتیازکا خاتمہ وغیرہ اب بھی معاشرتی ترقی کے حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں لیکن یہ بات معلوم ہے کہ لبرل جمہوریت ان مسائل کومکمل طورپرحل کرنے سے قاصرہےکیونکہ یہ ان مسائل کا حل سرمایہ دارانہ نظام میں دیکھتی ہے۔

اس بات کوسمجھنے کے لیے یورپ کی لبرل جمہوری ریاستوں میں شہریوں کے درمیان موجود طبقاتی، سماجی، سیاسی اورثقافتی امتیازات کی جانب دیکھا جا سکتا ہے جہاں اگرچہ فیوڈل نظام کے مقابلے میں صورتحال بہترہے لیکن اب تک شہریوں اورریاست کے درمیان حقیقی جمہوری رشتے استوارنہیں ہوسکے ہیں۔ آج بھی یورپ کی ترقی یافتہ سمجھی جانے والی لبرل جمہوری ریاستوں میں محنت کشوں کو ان کے وہ جمہوری حقوق حاصل نہیں ہوسکے جن کا وعدہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام نے ان سے کیا تھا۔ وہاں آج بھی خواتین کو مرد کے مساوی اجرت نہیں دی جاتی۔ نسل کی بنیاد پرانسانوں کی تفریق، مذہبی اورمذہب مخالف انتہا پسندی جیسے نقصان دہ خیالات آج بھی عملی شکل میں وہاں موجود ہیں۔ جسم فروشی صنعت بن چکی ہے۔ اورچائلڈ لیبربھی قبیح ترین صورتوں میں موجودہے۔ امریکہ میں طالبعلم سودی قرضوں کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں جبکہ برطانیہ میں تعلیمی اخراجات کے لیے طالبات جسم فروشی پرمجبورہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ کمیونسٹ بلاک کے انتشارکے بعد یورپ کی لبرل جمہوری ریاستوں نے بحالتِ مجبوری اپنے عوام کوجومراعات و سہولیات جمہوری حقوق کے طورپرفراہم کی تھیں ان کوواپس لیا جارہا ہے۔ حالیہ سرمایہ دارانہ بحران کے نتیجے میں اس جمہوریت سوز عمل میں تیزی آئی ہے۔ یورپ کی سطح پر لبرل ازم ایک قدامت پرستی کی شکل اختیارکرچکا ہے جبکہ مشرقی یورپ، ایشیاء، افریقہ اورلاطینی امریکہ کے حوالے سے اس کا کردار رجعت پرستانہ رہا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام اپنے وجود کوبرقراررکھنے کے لیے رجعت پرست سیاسی اورسماجی قوتوں کا محتاج ہوچکا ہے۔

چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک سوشلسٹ مفکر کی حیثیت سے سبطِ حسن کا جمہوری تصورلبرل ازم کی قدامت پسند یا رجعت پرست جمہوریت تک محدود نہیں تھا جو پاکستانی معاشرے کو یورپی لبرل جمہوریت کے ماڈل کے طور پر استوار کرنے کی خواہش رکھتا ہے بلکہ وہ سوشلسٹ جمہوریت کے خواہاں تھے جس میں جمہوریت اپنا اظہار حقیقی طورپرکرتی ہے اورریاست کے لیے تمام شہری حقیقت میں برابرٹھہرتے ہیں۔ مثال کے طورپرہم کیوبا یا شمالی کوریا کی سوشلسٹ جمہوری ریاستوں کی جانب دیکھ سکتے ہیں جہاں ریاست کے تمام شہریوں کو بنیادی سہولیات جیسے تعلیم اورعلاج وصحت کی سہولیات وغیرہ مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ روزگار اور رہائش کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مرداورعورت کے درمیان اورمختلف سماجی گروہوں کے درمیان تمام امتیازات کوختم کردیا گیا ہے۔ آج تک کسی لبرل جمہوری ریاست میں تمام شہریوں کی برابری، ترقی اورخوشحالی کے لیے ایسے اقدامات دیکھنے میں نہیں آتے۔ اس کی وجہ سوشلزم اورسرمایہ دارانہ نظام کی معاشی سماجی ہیئت کا فرق ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کسی معاشرے میں موجود لوگ ظالم اورمظلوم، مالک اورنوکر، کمزوراورطاقتور، ملکیتی اورغیرملکیتی طبقوں میں تقسیم ہوں اوراس معاشرے میں ریاست تمام شہریوں سے برابری کا سلوک کرے۔ ریاست لازمی طورپرکسی ایک یا دوسرے طبقے کے مفاد کی نگہبانی پرمجبورہوتی ہے۔

اس مختصر جائزے سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرے کی ترقی کے لیے حقیقی ترقی پسند رجحان یہ ہے کہ پاکستان فیوڈل نظام کی باقیات یعنی ملائیت کے رجعت پرست اورقدامت پرست اثرات سے آزاد ہو کرایک جمہوری ریاست کی شکل اختیار کرے لیکن یہ جمہوریت لبرل سرمایہ دارانہ جمہوریت نہ ہو بلکہ سوشلسٹ جمہوریت ہو کیونکہ لبرل سرمایہ دارانہ جمہوریت حقیقی ترقی پسندانہ جمہوریت نہیں بلکہ قدامت پرست، محدود اورتنگ نظرجمہوری تصورہے جومعاشرے کو فیوڈل نظام کی تنگ حدود سے نکال کر اسے سرمایہ دارانہ نظام کی سماجی حدود میں قید کرد ینا چاہتا ہے۔ اس کا مقصد، دانستہ یا نادانستہ، بہرحال یہی ہے کہ معاشرہ ایک قسم کی تنگ نظری اورقدامت پرستی سے آزاد ہو کر دوسری قسم کی تنگ نظری اورقدامت پرستی میں قید ہوجائے۔ انسانی معاشرہ اورخصوصا پاکستانی معاشرہ اپنی حقیقی اورہمہ گیر ترقی کے لیے سوشلزم کا طالب ہے۔ سوشلزم ہی ہمارے معاشرے اوراس میں بسنے والے محنت کش طبقوں، قوموں اورعورتوں کی آزادی، برابری اورخودمختاری کا راستہ ہے۔ سبطِ حسن کا راستہ بھی یہی تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ: یہ مضمون سبطِ حسن کے صد سالہ جشنِ پیدائش کے موقع پر31 دسمبر2016ء کوانجمن ترقی پسند مصنفین کی حیدرآباد ضلعی کمیٹی کی جانب سے منعقدکیے گئے پروگرام میں پڑھا گیا۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply