• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چھیالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چھیالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

یونیورسٹی کے شروع کے دنوں میں اگر میرے ہاتھ میں اردو کا کوئی ناول ہوتا تو اسے لوگ ایسی حقارت سے دیکھتے کہ مجھے خود سے بھی شرمندگی ہونے لگتی کہ کیوں میں یہ ناول پڑھ رہا ہوں جب کہ  ارد گرد کسی کو بھی ان چیزوں میں خصوصی طور پر اردو کی کتابوں میں دلچسپی نہیں تھی (شاید ابھی بھی نہیں ہے)
کیا ان کتابوں کو پڑھ کر میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔۔۔

ایک دن صدف نے مجھے اور صائمہ کو بتایا۔۔
“عجیب ذہنیت ہے لوگوں کی، میری الماری (آفس) میں بہت سی کتابیں ہیں جن کو میں نے گھر پر نہیں رکھا، زیادہ تر کتابیں میں نے اپنے آفس روم کی الماری میں ہی رکھی ہوئی ہیں، فارغ اوقات میں مطالعے کے دوران اکثر یونیورسٹی کے کولیگ بھی آجاتے ہیں تو وہ مجھے ناول پڑھتے ہوئے دیکھ کر کہتے ہیں تم انجنیئر بن کر یہ کیا اردو کی کتابیں پڑھ رہی ہو۔۔۔ مطلب ان کے لیے یہ کتابیں فضول ہیں اور ایک انجینئر کوانجینئر کے شعبے کی ہی کتابیں پڑھنی چاہئیں،  یہ صرف آج کی بات نہیں، ہمیشہ ان لوگوں کا یہی رویہ ہوتا ہے”۔

صدف کی یہ بات سن کر مجھے اپنا آپ یاد آیا کہ ہر روز میں بھی اس افسوسناک صورتحال سے گزر رہا ہوں۔ یہ یونیورسٹی میں آنے والے لڑکے، لڑکیاں آخر کب تک  سکول کے بچوں کی طرح مشینی زندگی گزارتے رہیں گے۔

اس وقت یہ سب اٹھارہ، بیس سال سے اوپر کے ہو چکے ہیں، کیا ابھی بھی یہ لوگ محض سمسٹر کے مخصوص نصاب پر ہی اکتفا کریں گے۔؟

یہ رویہ ان لوگوں کا اردو کے ناولوں پر ہی ہوتا تھا۔ اگر اس وقت ہمارے پاس انگریزی کا کوئی فضول سے فضول ناول بھی ہوتا تو وہ دلچسپی سے اس کو دیکھتے، کبھی بھی ان کے رویے میں حقارت کا عنصر نہ جھلکتا۔ ان چیزوں کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ ہی افسوس ہوتا کہ ہمارے لوگ آخر کب اپنے ان غیر علمی رویوں کو بدلیں گے۔

یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ لوگوں میں اردو سے اتنی نفرت اور حقارت۔ ابھی تک ان کے دماغوں میں گئے گزرے زمانے کے بوسیدہ اور تعصب پرستانہ خیالات رائج ہیں۔ یہ زبان چھوٹی ہے، وہ زبان طاقتور قوم کی ہے، اس زبان نے ہماری حق تلفی کی، اس زبان کا تعلق تو ہماری دھرتی سے ہے ہی نہیں، یہ زبان تو مسلط کی گئی ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ ان سب باتوں میں میرے لیے جو بات سب سے زیادہ حیران کن تھی وہ انگریزی تھی۔ ان میں سے کوئی بھی انگریزی کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتا تھا بلکہ اس بات پر فخر کیا جاتا کہ انہیں انگریزی میں عبور حاصل ہے۔ اکثر اوقات کلچرل ڈے کی تقریبات میں میزبانی کے فرائض بلوچی، سندھی کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی سرانجام دیے جاتے۔

میں ان تقریبات میں نہایت ہی دلچسپی کے ساتھ شرکت کیا کرتا تھا (ابھی بھی کرتا ہوں) اور مجھے وہاں اس قسم کے تعصب پرستانہ رویے دیکھ کر بیحد افسردگی ہوتی تھی۔

اقبال کے نام پر نام نہاد مارکسسٹ اور قوم پرست طلباء و طالبات ایسی بری شکل بناتے کہ جیسے انہیں زبردستی زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا جا رہا ہو۔ میں اکثر اپنے ساتھیوں کو زور دے کر یہ بات کہتا کہ۔۔
“تم لوگ آخر کس قسم کے مارکسسٹ ہو؟؟؟ دماغوں میں تعصبات بھر کر مزدوروں کے نام پر نعرے بازی کی سیاست کرتے رہنا کوئی دانشمندی نہیں۔۔۔ صبح و شام کارل مارکس کے نام کی مالا جپنے والو، کیا تم لوگ اس بات سے واقفیت رکھتے ہو کہ مارکس بالکل بھی تعصب پرست نہیں تھا، وہ یورپ کی بہت سی زبانوں کو جانتا تھا اور ان زبانوں کے ادب کا رسیا تھا، وہ باقاعدگی سے مختلف زبانوں کے ادب کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ لیکن مارکس کے مقابلے میں تم لوگ تو اپنے ذہنوں کو مخصوص قسم کے نظریات سے آلودہ کر رہے ہو اور آلودگی تو صرف آلودگی ہوتی ہے، چاہے انسانی ذہن کی ہو یا شہر کی گلیوں اور چوراہوں کی۔”
ایسے لوگوں کو دیکھ کر مجھے شدت سے ایک شعر یاد آتا ہے، بدقسمتی سے شاعر کے نام سے میں واقف نہیں ہوں۔ وہ شعر کچھ اس طرح سے ہے۔۔
شیشے دلوں کے گردِ تعصب سے اٹ گئے،
روشن دماغ لوگ بھی فرقوں میں بٹ گئے!

کوئی دو ہفتے پہلے کی بات ہے خود کو مارکسسٹ کہلوانے والے ایک دوست نے اپنی وال پر انگریزی اور سندھی میں لکھا ہوا تھا۔۔
“ہمیں اپنی زبان کو ہی فوقیت دینی چاہیے، اردو کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، یہ سامراج کی زبان ہے”

کچھ دن بعد اتفاق سے اسی مارکسسٹ دوست کی ایک اور پوسٹ میری نظر سے گزری، جس میں وہ مرحوم عرفان خان کی موت پر دکھی تھا۔ اس نے اردو کے کلاسک شاعر کا غمگین کلام بطور تعزیت عرفان خان کے لیے لگایا ہوا تھا۔ مجھے بے اختیار اس کی وہ پرانی پوسٹ یاد آگئی جس میں وہ اپنی قوم کو اردو سے دور رہنے کی تلقین کر رہا تھا۔ شاید اس کے پاس سندھی اور انگریزی میں کوئی حسبِ حال شعر نہ ہو اس لیے اس نے اردو کے کلاسک شاعر کا کلام عرفان خان کو خراجِ عقیدت دینے کے لیے لکھا ہو۔

یہ پچھلے سال کی بات ہے۔ صائمہ نے مجھے وٹس ایپ پر پرویز ہود کا ایک لنک بھیجا، لنک کے ساتھ ہی اس نے اپنے پیغام میں تاکید بھی کی تھی کہ عاطف تم اس کو لازمی پڑھ کر مجھے آگاہ کرو۔۔۔ میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے، تم تھوڑا انتظار کرو۔

میں نے خوشی خوشی وہ لنک کھولا، کیونکہ مجھے پرویز ہود کی بہت سی تحریروں سے دلچسپی تھی۔ اب جب میں نے اس کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ جس بندے کو ہم اتنا سراہتے ہیں وہ کس طرح کے الفاظ ایک ایسی علمی و ادبی شخصیت کے لیے استعمال کر رہا ہے جو کسی بھی صورت میں عالم لوگوں کو زیب نہیں دیتا۔ مجھے صائمہ پر سخت غصہ آیا کہ اس نے کیوں مجھے یہ لنک بھیجا۔۔۔ قصہ مختصر میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر اس کو سارا پڑھا اور پھر اپنا سر پیٹا۔ اس لنک میں پرویز صاحب کی کسی تقریر کا مکمل متن درج تھا۔ جس میں وہ بڑے ماہرانہ انداز میں لوگوں کو آگاہ کر رہے تھے کہ اقبال کو بس ہم جینئس کہہ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ فرمان بھی جاری کر دیا کہ پی ایچ ڈی کرنے سے کوئی فلسفی نہیں ہو جاتا۔ انہوں نے علامہ اقبال کے پی ایچ ڈی کے تھیسز کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ اس کا تعلق تو تاریخ سے ہے، فلسفے سے نہیں اور پھر دوسری جانب ان کا کہنا تھا فلسفہ ایک ٹیکنیکل چیز ہے، پھر انہوں نے فلسفے کی مختلف شاخوں کے کچھ نام گنوائے۔
وہ مضمون پڑھتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید جو چیز ان کو خود ذاتی طور پر پسند نہیں، اس کو انہوں نے فلسفے سے ہی خارج کر دیا۔ مثال کے طور پر پرویز صاحب کو میٹا فزکس پسند نہیں ہے، اس لیے انہوں نے نہایت ہی بد دیانتی اور بد تہذیبی کے ساتھ اقبال کے پی ایچ ڈی کے تھیسز کو اپنے تئیں فلسفے سے نکال کر تاریخ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ بقول پرویز صاحب کے اگر پی ایچ ڈی کرنے سے کوئی فلسفی نہیں بنتا، اس کے لیے نئے نظریات تخلیق کرنے لازمی ہیں جو کسی اور نے نہ کیے ہوں تو پھر جناب آپ نے اب تک خود کتنے سماجی و سائنسی نظریات تخلیق کر لیے ہیں۔۔۔ جس کی بنیاد پر آپ سماجی سائنٹسٹ بنے بیٹھے ہو؟؟ آپ کو تو فوراً کسی نئی سماجی تھیوری کی تخلیق کے لیے تحقیق کی جانب گامزن ہو جانا چاہیے اور جب آپ کوئی نیا سماجی نظریہ تخلیق کر لو تو اسے عوام کے سامنے لے کر آؤ۔ اس کام سے تو آپ کو کسی نے نہیں روکا۔ آپ کیوں اپنے آپ کو سماجی سائنٹسٹ کہلوا کر مختلف فورمز پر عالمانہ رائے دیتے پھر رہے ہو۔؟

جانے کیوں یہ دانشور لوگ ریاست کی موجودہ سخت گیر پالیسیز کی آڑ میں ان لوگوں پر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں جو اس ریاست کی تخلیق سے بہت عرصہ پہلے رخصت ہو چکے تھے۔ اپنے جدید سیاسی و سماجی رجحانات کو ہم کیوں ان شاعروں اور ادیبوں پر مسلط کر رہے ہیں جو پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں انتقال کر چکے تھے۔

ہر زمانے کے اپنے رجحانات، اپنے طور طریقے ہوتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر لوگوں کی اکثریت اپنی زندگی گزارتی ہے۔ ہم کیوں اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ہر انسان کی ذہنی سطح دوسرے انسان سے مختلف ہوتی ہے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، انسان اپنے نظریات کو، اپنے خیالات کو تبدیل کرتا ہے۔ اپنے اطراف کے حالات اسے متاثر کرتے ہیں۔ کیوں یہ لوگ اقبال کو ہمیشہ 1905 والا اقبال ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔

کیا 1905 کے بعد برٹش انڈیا میں سیاسی و سماجی حالات وہی تھے جو 1905 میں تھے۔۔۔ جب سیاسی و سماجی حالات وہ نہیں رہے تو پھر کیوں ہم ایک شاعر سے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ مرتے دم تک “سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا” جیسے گیت تخلیق کرتا رہے۔۔۔ وہ ان عنوانات کو کیوں نہ اپنی شاعری میں شامل کرے جس سے اس کے لوگ گزر رہے ہیں۔

آخر کو وہ مذہبی طور پر مسلمان تھا (ہمیں ہمیشہ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اقبال شدت پسند مسلمان نہیں تھا) اس وقت مسلمانوں کا طبقہ جس طریقے سے اپنی زندگیاں گزار رہا تھا وہ اقبال جیسے شاعر کے لیے تکلیف دہ عمل تھا۔

اس وقت یہ لکھتے ہوئے مجھے آغا خان یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں گزاری ہوئی ایک شام یاد آرہی ہے۔ ان دنوں ہم لوگ اکثر وہاں جایا کرتے تھے۔ کیفے ٹیریا پر کچھ ریفرریشمنٹ کرنے کے بعد ہم جھیل کنارے جا کر بیٹھ جاتے۔ اس شام تیز بارش ہو رہی تھی، اس لیے کیفے ٹیریا سے نکل کر جھیل کے کنارے جا کر بیٹھنا ناممکن تھا، ہم لوگوں نے وہیں محفل جما لی۔

فروٹ کیک کے ساتھ گرم گرم کافی کے گھونٹ پیتے ہوئے ہماری گفتگو کا موضوع اقبال تھا۔ ان دنوں کسی پرانے رسالے پر میں نے جون ایلیا کا ایک کالم پڑھا تھا جس کے مندرجات سے مجھے کچھ اختلاف تھا۔ اس شام میں، صائمہ اور صدف کو بتانے لگا کہ کچھ دن پہلے جون ایلیا کا اقبال پر ایک مضمون نظر سے گزرا، مضمون میں شامل کچھ باتوں سے تو اتفاق کیا جا سکتا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں یہ موجودہ زمانے کے لوگ ہر انسان کو اپنی مخصوص قسم کی آنکھ سے دیکھ کر فتوے صادر کیے جا رہے ہیں۔ اب جون نے اتنے سارے اعتراضات اٹھائے ہوئے ہیں اقبال پر، میں نے انہیں بتایا کہ
“جون ایلیا نے اپنے مضمون میں جن بشری خامیوں کو لے کر اقبال کی شخصیت اور ان کی شاعری پر حملے کیے ہیں، کیا جون ایلیا نے خود اپنی شخصیت اور اپنی شاعری میں اُن کمزوریوں کو ختم کیا۔۔۔۔؟”
صائمہ نے میری بات کاٹ کر الٹا مجھ سے سوال کر دیا کہ تو عاطف کیا جواب ہے تمہارے اس سوال کا۔۔۔
میں نے انہیں کہا “اس بات کا جواب ہے کہ نہیں۔۔۔ نہیں!
جون ایلیا جن فکری کمزوریوں پر خود عمل نہیں کر سکا تو وہ دوسروں سے کیوں یہ امید لگا رہا ہے کہ دوسرے شاعر ایسے ہوں اور ایسے نہ ہوں، اور وہ بھی ایسے شاعر سے جس کا زمانہ، موجودہ زمانے سے ہر لحاظ سے پیچھے تھا”
صدف اور صائمہ نے یک زبان ہو کر میری اس بات کی تائید کی۔

صائمہ کو اقبال کے سیاسی نظریات سے سخت اختلاف تھا (ابھی بھی ہے) اس کا کہنا تھا کہ اگر اقبال، جناح کے سیاسی نظریات کی حمایت نہ کرتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔۔۔ سیاستدانوں سے تو ہم کچھ اچھے کی امید نہیں کر سکتے، لیکن شاعروں اور فلسفیوں سے تو ہم امیدیں لگا سکتے ہیں، کیونکہ ان کے اندر غوروفکر کی صلاحیت کسی بھی عام انسان سے زیادہ ہوتی ہے۔ وہ اپنے وجدان سے آنے والے دنوں کے تلخ حقائق کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر منٹو کو ہی دیکھ لو، ان کے چچا سام کے نام لکھے گئے افسانوی خطوط ہمیں 1978 کے بعد کا پاکستان کا وہ منظر نامہ دکھاتے ہیں جو پچاس کی دہائی میں بڑے بڑوں کے دماغوں میں بھی نہیں تھا۔

صائمہ کی بات میں وزن تھا، واقعی منٹو کے وہ خطوط اور لاتعداد افسانوں کے کردار ابھی تک ہمارے معاشرے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان جیتے جاگتے کرداروں کو تو اس وقت بھی کچھ نہیں ملا تھا، جب ابھی سیاسی اشرافیہ میں کرپشن کا نام و نشان نہیں تھا اور جناح صاحب پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے نو آزاد مملکت کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لے چکے تھے۔
صائمہ کی باتوں پر ہم تینوں اداس ہو چکے تھے۔ اس لمحے میری نظروں کے سامنے مہاجرین اور ریفیوجیوں کے کیمپ دور دور تک بکھر گئے۔ سرحد کے دونوں جانب پیدل مارچ کرتے ہوئے لوگوں کے قافلے، بھری ہوئی ٹرینوں کی بوگیوں کی کھڑکیوں پر سے جھانکتے بد حال مسافر، بوگیوں کے دروازوں اور چھتوں پر اپنی جگہ بنانے کے لیے لوگوں کا سیلاب۔۔۔ آہ کیا قیامت خیز گھڑیاں ہوں گی وہ ان لوگوں کے لیے جو ایک نئی منزل کی تلاش میں سیاسی اشرافیہ کے خوش کن نعروں کی فریبی میں مبتلا ہو کر اپنی جڑوں سے اکھڑ چکے تھے۔
میری آنکھوں میں ابھی یہی مناظر گھوم رہے تھے کہ صدف کی آواز نے مجھے تقسیم ہند سے واپس کیفے ٹیریا میں پہنچا دیا۔
صدف کہہ رہی تھی۔۔
“دنیا کے بہت سے عظیم گلوکار اور گلوکارائیں اقبال کی نظموں کو گا چکے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان، ہندستان، ایران، مصر وغیرہ وغیرہ۔ بھلا اس سے بڑھ کر بھی کسی شاعر کو کوئی رتبہ مل سکتا ہے کیا۔۔۔؟ اقبال کا کلام اس قابل تھا کہ اس کو گایا جائے اور یہ سلسلہ پچھلی صدی کی کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے۔ اتنی نغمگیت ہے اقبال کی نظموں میں، سننے والے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں”
یہ سچ بھی ہے۔ اقبال کا کلام ابھی بھی گایا جا رہا ہے۔ کتنی دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ان کے کلام کی تازگی برقرار ہے، یہی سچے شاعروں، ادیبوں، فنکاروں، ہنرمندوں اور دانشوروں کی نشانیاں ہوتی ہیں کہ ان کی موت کے بعد بھی ان کا تخلیق کیا ہوا کام زندہ رہتا ہے اور ہر زمانے کے لوگ اس سے فیض حاصل کرتے ہیں۔
اپنی نظم “مسجدِ قرطبہ” میں علامہ اقبال فرماتے ہیں؛

صورت شمشير ہے دستِ قضا ميں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہيں سب ناتمام خونِ جگر کے بغير
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغير!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(چھیالیسواں دن)۔۔گوتم حیات

  1. گاہے بگاہے آپکی تحریر پڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ ماشاء اللہ تحریر میں پختگی بتدریج آتی جا رہی ہے۔ یہ تحریر خاص طور پر بہت ہی شاندار اور مدلل ہے۔

Leave a Reply to Wasiuddin Cancel reply