• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کورونا وائرس کی وبا اور مذہبی سوالات۔۔محمد عمار خان ناصر

کورونا وائرس کی وبا اور مذہبی سوالات۔۔محمد عمار خان ناصر

کورونا وائرس کی حالیہ عالمی وبا کے تناظر میں مذہبی نوعیت کے بعض اہم سوالات بھی قومی سطح پر زیر ِبحث آئے اور مختلف حلقے ان پر اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں۔ مثلا ًکیا اس وبا کی نوعیت اللہ کی طرف سے ایک تنبیہ یا سرزنش کی ہے یا یہ محض طبیعی وحیاتیاتی قوانین کے تحت رونما ہونے والا ایک واقعہ ہے؟ کیا وبائے عام کی صورت حال میں مساجد میں باجماعت نماز کا نظام عارضی طور پر معطل یا محدود کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس نوعیت کے فیصلوں میں بنیادی اہمیت ارباب حل وعقد یا طبی ماہرین یا علما وفقہا میں کس کی رائے کو دی جانی چاہیے؟ پاکستان میں بطور ایک طبقے کے علما اور اہل مذہب کا موقف عالم ِاسلام کے دیگر ممالک اور ہندوستان کے علما سے بالکل مختلف ہونے کے اسباب کیا ہیں؟ وغیرہ۔۔۔

آئندہ سطور میں ہم مذکورہ سوالات کے حوالے سے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کریں گے۔

آفات، بیماریاں اور مشکلات انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں اور ان کے حوالے سے بساط بھر تدابیر اختیار کرنے کے علاوہ ان کی تفہیم کے حوالے سے کوئی زاویہ نظر متعین کرنا بھی انسانی شعور کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ آفات اور تکالیف کی تفہیم کا سوال حیات وکائنات کی مجموعی معنویت کے بڑے سوال سے جڑا ہوا ہے، اس لیے انسان کا ذہنی رویہ اس کے مذہبی عقیدے کے زیر اثر ہی طے ہوتا ہے۔ انسانی فکر اگر حیات وکائنات کے ظہور کو ناقابل توجیہ اتفاقات کا نتیجہ تسلیم کر لے تو انسانی زندگی اور اس کے تمام مظاہر میں بھی معنویت یا مقصدیت کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے، لیکن مذہبی عقیدے کے زیر ِ اثر اگر انسانی زندگی کو ایک شعوری اور بامقصد تخلیقی عمل کا حصہ مانا جائے تو پھر زندگی کے مختلف احوال کی تفہیم وتوجیہ کے سوال کو بھی مذہبی تصورات اور عقائد سے الگ کرنا ممکن نہیں رہتا۔ اس وجہ سے آفات ومصائب کی مابعد الطبیعی تفہیم کا زاویہ نظر مذہب بیزار یا مذہب گریز ذہن کو کتنا ہی غیر منطقی محسوس ہوتا ہو، مذہبی ذہن کے لیے وہ اس کے شعوری مسلمات کا ناگزیر تقاضا ہے اور مذہب کا مطالبہ بھی انسان سے یہی ہے کہ وہ زندگی کے روز مرہ اور معمول کے احوال میں عموما ً اور غیر معمولی اور ہنگامی نوعیت کے حالات میں خصوصاً عبرت اور سبق آموزی کے ان پہلوؤں کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھے جو اسے زندگی اور مقصد زندگی سے متعلق بڑے حقائق کی یاددہانی کرانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔ مذہب کی اسی تعلیم کی روشنی میں اہل مذہب اجتماعی آفات کے موقع پر ، ضروری تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ، توبہ واستغفار اور دعا ومناجات کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں اور یہ مذہبی تصور حیات سے ہم آہنگ ایک عین عقلی اور منطقی رویہ ہے۔

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا وبائے عام کی صورت حال میں ارباب حل وعقد مسجد میں باجماعت نماز کے سلسلے کو وقتی طور پر معطل یا محدود کرنے کا حکم دے سکتے ہیں یا نہیں تو ہمارے نزدیک اس ضمن میں سوال کی تصحیح ضروری ہے۔ یہ سوال بنیادی طور پر باجماعت نماز سے لوگوں کو روکنے کے اختیار کا نہیں، وبا کے پھیلاؤ  کو روکنے کے لیے، لوگوں کی نقل وحرکت اور اجتماع کو روکنے کے اختیار کا ہے جس کا ایک نتیجہ، بہت سے دیگر معاشرتی نتائج کے ساتھ، یہ بھی مرتب ہوتا ہے کہ لوگ باجماعت نماز کے لیے مسجد میں جمع نہیں ہو سکتے۔ اس کو مسجد یا باجماعت نماز سے روکنے کے حق سے تعبیر کرناصورت حال کی درست ترجمانی نہیں ہے۔ مثلاً  وبا ہی کی صورت حال میں حکومت نے لوگوں کو عام علاج معالجے کے لیے ہسپتال جانے سے روک دیا گیا تاکہ بغیر شدید ضرورت کے،لوگوں کا ہجوم نہ ہو اور طبی سہولیات زیادہ سنگین نوعیت کے مریضوں کے لیے دستیاب رہیں۔ اب اس کو اگر یوں تعبیر کیا جائے کہ کیا حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ لوگوں کو ہسپتال جانے یا علاج معالجہ سے روک دے تو ظاہر ہے، سوال کا یہ زاویہ درست نہیں ہوگا، کیونکہ یہاں سوال دراصل کسی کو علاج سے روکنے یا باجماعت نماز پڑھنے سے روکنے کا نہیں، وبا کے شیوع کو روکنے کے لیے لوگوں کی معمول کی نقل وحرکت کو محدود کرنے کا ہے۔

اس ضروری تصحیح کے بعد اگلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ ارباب حل وعقد کو اجتماعی مصلحت کے لیے لوگوں کی نقل وحرکت اور اجتماع کو محدود کرنے کا جو اختیار حاصل ہے، کیا اس کے استعمال میں مساجد کا معاملہ دیگر مقامات سے مختلف ہے، یعنی کیا اس دائرے میں حکومتی اختیار کو بروئے کار لانے پر کچھ زیادہ سخت شرطیں عائد ہوتی ہیں؟ بعض اہل علم کی رائے یہ ہے کہ مساجد کا معاملہ روز مرہ سرگرمیوں کے دیگر مراکز سے مختلف ہے، اور مساجد میں آنے جانے کے لیے ضروری احتیاطی تدابیر کا پابند بنانے سے آگے بڑھ کر حکومت باجماعت نماز کے سلسلے کو علی الاطلاق محدود نہیں کر سکتی، البتہ وہ مخصوص افراد کو مسجد میں جانے سے روک سکتی ہے اور اسی طرح کسی خاص جگہ پر وبا کے اثرات کا پایا جانا متحقق ہو جائے تو بھی احتیاطاًاس مخصوص علاقے میں مساجد میں باجماعت نماز کے سلسلے کو وقتی طور پر معطل یا محدود کر سکتی ہے۔ ہماری رائے میں یہ تفریق زیادہ مضبوط استدلال پر مبنی نہیں۔ حکومت کے لیے لوگوں کی نقل وحرکت یا اجتماع پر پابندی کے اختیار کی بنیاد ، ایک اجتماعی مصلحت کے تحت، وبا کے پھیلاو کو روکنے کی ذمہ داری پر ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے اگر حکومت وبا کے پھیلنے کے امکان کے پیش نظر ، لوگوں کو باقی جگہوں پر جمع ہونے سے روک سکتی ہے، چاہے ان مقامات پر اثرات کا پایا جانا یقینی نہ ہو، تو مسجد میں جمع ہونے سے بھی روک سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، وبا کے یقینی یا امکانی ہونے کی بنیاد پر مسجد اور عام مقامات میں فرق نہیں کیا جا سکتا، یعنی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ باقی جگہوں پر تو امکان کے پیش نظر بھی جمع ہونے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے، لیکن مسجد میں پابندی لگانا صرف تب جائز ہوگا جب یقینی طور پر مسجد کے ارد گرد کے علاقے میں وبا کا پایا جانا متحقق ہو چکا ہو۔

یہی نوعیت اس نکتے کی بھی ہے کہ آیا حکومت مخصوص افراد یا مخصوص علاقوں کے علاوہ عمومی طور پر پورے ملک کی مساجد کے حوالے سے کوئی حکم جاری کر سکتی ہے یا نہیں۔ ظاہر بات ہے کہ یہاں اصل مسئلہ لوگوں کو اجتماعی عبادت سے روکنے یا نہ روکنے کا نہیں، وبا کے شیوع کو محدود رکھنے کا ہے، چنانچہ احتیاطی تدبیر کے جس اصول پر مخصوص افراد کو یا مخصوص علاقوں کی مساجد کو باجماعت نماز کے عام معمول سے روکا جا سکتا ہے، اسی اصول پر پورے ملک کی مساجد کو بھی اس کا پابند کیا جا سکتا ہے۔ بنیادی اہمیت اس کی ہے کہ حکومت کے پاس وبا سے متعلق کیا معلومات ہیں اور اس کے پھیلاو کو روکنے کے لیے وہ کس سطح کے اقدامات کو ضروری یا مناسب خیال کرتی ہے۔ معلومات اور صورت حال کے تجزیے میں یقینا ًاختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اصولی طور پر اس تفریق کی کوئی مضبوط بنیاد موجود نہیں کہ حکومت عام مقامات پر تو اجتماع پر عمومی پابندی لگا سکتی ہے، لیکن مساجد میں اس کا اطلاق صرف ضرورت یا استثناء کے دائرے میں کر سکتی ہے۔ باجماعت نماز اور جمعہ کی ادائیگی کی شرعی اہمیت مسلم ہے، لیکن ان فرائض کی ادائیگی میں دیگر شرعی مصالح کی رعایت بھی ضروری ہے اور خاص طورپر جمعہ وجماعت کی ادائیگی کو اگر مسجد کے مستقل عملے تک محدود کر لیا جائے تو اس میں دینی شعائر کے تسلسل اور احتیاطی تدبیر، دونوں کی پوری رعایت پائی جاتی ہے۔

اس وضاحت سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ ایسے معاملات میں فیصلے کی اتھارٹی کون ہے اور وبائی امراض کے ماہرین یا علماء میں سے کس کی رائے کو زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔ فقہ اسلامی کے اصول اس حوالے سے بالکل واضح ہیں۔ ایسے معاملات جن میں شرعی وفقہی اصول نظری طور پر واضح ہو اور اصل سوال صورت واقعہ کی صحیح تعین کرنا ہو، ان میں بدیہی طور پر متعلقہ شعبے کے ماہرین کی رائے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جبکہ فیصلے کاحتمی اختیار ارباب حل وعقد کو حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر فقہی وشرعی حکم کی تعین میں علما کی یا صورت حال کے تجزیے میں متعلقہ شعبے کے ماہرین کی آرا مختلف ہوں تو بھی فیصلے کا حتمی اختیار حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ زیر بحث مسئلے میں طبی ماہرین کی رائے تو کم وبیش اجماع کے درجے میں یہ رہی ہے کہ ہر طرح کے اختلاط کو سختی سے روکا جائے، جبکہ مسئلے کی شرعی نوعیت کے حوالے سے واضح شرعی اصولوں کے علاوہ عالم اسلام کے علماکی اکثریت اور خود پاکستان کے بہت سے معتمد اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ان حالات میں مساجد کے عام معمولات کو موقوف کیا جا سکتا ہے ۔ طبی ماہرین کے اندازوں یا حکومتی ذمہ داران کے تجزیوں پر عملی شواہد کی بنیاد پر یقینا ً سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں اور اس پر ایک مسلسل بحث چل رہی ہے، لیکن بطور شرعی اصول کے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ یہ ایک اجتہادی بحث ہے جس میں حتمی فیصلے کا اختیار حکومت کو حاصل ہے اور اس سے نظری اختلاف رکھتے ہوئے بھی عملا ً حکومتی فیصلے کی پابندی ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن علمانے حکومت کی طرف سے لاک ڈاون سے پہلے واضح طور پر اپنی رائے دی تھی، حکومتی فیصلے کے بعد انہوں نے بھی عملاً اس کی پابندی کی اور لوگوں سے بھی یہی کہا کہ وہ فیصلے کی پابندی کریں۔

اب ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ پاکستان میں مذہبی طبقے اور علما کا موقف عمومی طور پر عالم اسلام کے دیگر ممالک کے اہل علم سے مختلف کیوں ہے۔ اس سوال کے جواب میں یہ سمجھنااہم ہے کہ مذہبی مواقف کی تعین میں صرف فقہی وشرعی اصول کارفرما نہیں ہوتے، بلکہ معاشرتی وسیاسی عوامل بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں شناخت پر مبنی سیاست اور حکومت اور مذہبی علما کے مابین مذہبی معاملات میں اتھارٹی کا سوال، دو ایسے سیاسی عوامل ہیں جو بدیہی طور پر زیربحث اجتہاد پر اثر انداز ہوئے ہیں۔ ایک خاص تاریخی پس منظر میں ریاست اور مذہبی طبقات کے تعلقات میں باہمی اعتماد کا عنصر مفقود ہے اور خاص طور پر مساجد اور مدارس کے نظام میں حکومتی مداخلت کو مذہبی طبقے اپنے دینی کردار کے لیے ایک خطرہ تصور کرتے ہیں۔

موجودہ صورت حال میں یہ حساسیت اس وجہ سے مزید بڑھ گئی کہ علما کو اس مسئلے سے اچانک اور کسی تیاری کے بغیر دوچار ہونا پڑا اور معمول کے حالات میں ایک سوچا سمجھا موقف طے کرنے کا جو موقع ہوتا ہے، وہ انھیں نہیں مل سکا۔ ہوا یوں کہ ابھی ملکی سطح پر صورت حال پوری طرح واضح نہیں ہوئی تھی کہ پوری دنیا میں مسلم حکومتوں کی طرف سے وہاں کے علما کی تائید سے لاک ڈاؤن کا اقدام کر دیا گیا۔ وبا کی خوف ناکی اور عالم اسلام کے عمومی رجحان کے زیر اثر ہمارے ہاں بھی سوشل میڈیا پر فوری طور پر اس موقف نے عمومی شیوع حاصل کر لیا کہ مساجد کے معمولات معطل کر دینے چاہئیں۔ سوئے اتفاق سے اس موقف کی ترجمانی عموما ًایسے حلقوں کی طرف سے اور ایسے اسلوب میں کی گئی کہ علما صورت حال کے تجزیے کا پورا موقع ملنے سے پہلے ہی ایک طرح سے کٹہرے میں کھڑے کر دیے گئے اور یہ تاثر بن گیا کہ کچھ حلقے جو ویسے ہی مذہب اور مذہبی طبقے سے متنفر یا مذہبی طبقے کے کردار کے ناقد ہیں، اس موقع کو مساجد اور علما پر دباؤ  ڈالنے اور انھیں کارنر کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت ویسے ہی سیاسی وانتظامی معاملات میں الجھی ہوئی تھی، اس لیے بروقت علماء سے رابطہ کر کے انھیں اعتماد میں نہیں لے سکی۔ جب کوشش کی بھی تو اس وقت جب کشاکش کا ماحول بن چکا تھا اور اس میں بھی اپنے تئیں بات کا وزن بڑھانے کے لیے ازہر سے فتویٰ  منگوا کر علما  کو قائل کرنا چاہا جو ایک طرح سے ان پر عدم اعتماد کا اظہار تھا۔ یوں چند در چند پہلوؤں سے علما  کی نظر میں مسئلے کی شرعی وفقہی حیثیت سے زیادہ اس کا سیاسی پہلو اہمیت اختیار کر گیا اور نتیجتاً ایک سیاسی انداز ہی کی پوزیشن لینے کی سوچ غالب آ گئی۔ اسی نکتے نے دراصل معاملے کو وہ رخ دے دیا جو ابھی تک قائم ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ وہ چند پہلو ہیں جو موجودہ صورت حال میں مذہبی موقف اور مذہبی طبقے کے کردار کے حوالے سے قومی سطح پر زیر بحث ہیں۔ اللہ تعالی ٰ سے دعا ہے کہ وہ ان مشکل حالات سے عافیت کے ساتھ نکلنے میں ہماری مدد فرمائے اور ہمارے ارباب حل وعقد اور تمام طبقات حکمت اور تدبر، باہمی ہمدردیاور قومی جذبے کے ساتھ دین، ملک وقوم اور انسانیت کے حق میں درست فیصلے کر سکیں۔ آمین

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply