یوسفی کے چراغ تلے۔۔۔انعام رانا

کراچی کانفرنس اختتام کو پہنچی تو سامعین نے یوں گھیرا کہ ایک لمحے کو میں سوچ میں پڑ گیا کہ کہیں غلطی سے مجھے کوئی اور تو نہیں سمجھ بیٹھے۔ محبت کی ایک آبشار تھی جس میں یہ خاکسار بھیگتا رہا اور ایسا بھیگتا رہا کہ پل پل نکھرتا جا رہا تھا۔ ایسے میں اچانک اپنے حافظ صفوان نے میرے کان میں منہ دیا تو مجھے پہلے تو گدگدی ہوئی اور پھر سوچا ضرور کوئی بری خبر سنایا ہی چاہتے ہیں۔ مگر بولے کہ “یوسفی صاحب کو ملنا ہے” ؟

سچ پوچھیں تو میں دنیا میں صرف ایک ہی یوسفی کو جانتا ہوں اور کم از کم حافظ جی اور میرا مشترکہ یوسفی بھی ایک ہی ہو سکتا تھا مگر احتیاطا‌ً پوچھ لیا کہ کون یوسفی؟ بولے کہ بھئی اپنے مشتاق احمد یوسفی، اور میرے بدن میں جیسے اک کپکپی سی آئی۔ ناں کون کافر کرتا۔

کون ہے جو اردو ادب کا عاشق ہے اور یوسفی سے عشق نہیں کرتا۔ کون ہے جسے satire یا طنز اور پھکڑ پن کے فرق کا نہیں پتہ اور وہ یوسفی کے بعد اردو میں اس فن کو ختم نہیں سمجھتا۔ اور میں جیسا بھی گیا گزرا سہی، اتنا گیا گزرا کب تھا کہ ہاتھ آئی جنت جانے دیتا۔ مگر جو دوست مجھے گھیرے کھڑے تھے انکی محبت بھی تو عطائے ربانی تھی، سو دھرم سنکھٹ میں تھا۔ آٹھ بجے تک ائرپورٹ بھی پہنچنا تھا اور ہر بڑھتا منٹ حافظ صاحب کی بے چینی کو مزید بے قرار کر رہا تھا۔ نجانے کتنی ہی محنت کے بعد حافظ جی مجھے گاڑی میں ڈالنے میں کامیاب ہوئے اور میں، بھائی غیور، حافظ صاحب اور سہیل زیارت کو روانہ ہو گئے۔

گھر میں داخل ہوے تو یوسفی صاحب نے بڑھ کر سلام کیا اور میں تو جیسے گھبرا سا گیا۔ مگر پھر پتہ چلا کہ انکے بڑے صاحبزادے ہیں، بلکل یوسفی جی جیسے، جیسا انکو اٹھارہ سال قبل حلقہ ارباب ذوق لاہور میں دیکھا تھا۔ جب وہ حلقے میں دوسری اور آخری بار آئے تھے اور ہمارے قہقہوں کی آوازیں مال روڈ کے درختوں سے پرندے اڑا رہی تھیں۔ جب وہ جوان نا تھے مگر آتش ضرور تھے۔

دس منٹ بعد ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا اور یوسفی صاحب کمرے میں آئے، اور وہ واقعی مشتاق احمد یوسفی تھے۔ ہائے یہ عمر بھی کیا ظلم ڈھاتی ہے۔ قوی مضحمل تھے، کمزوری غالب، چہرہ کہ اب پہچاننا پڑتا تھا کہ وہی یوسفی صاحب ہیں، آواز مدہم مگر ہاں لہجے کی کھنک باقی تھی۔ ہم سب سے تعارف پوچھا۔ پھر میں نے مکالمہ کانفرنس کا بتایا۔ پوچھا “کتنے روزہ تھی” ؟ عرض کی بس چار گھنٹے کہ اس سے زیادہ اب لوگ سنتے نہیں، تو مسکرا پڑے۔ “مکالمہ” کا رسالہ پیش کیا تو بہت خوش ہوئے اور بولے بھئی یہ تو بہت ہمت کا کام ہے۔ ارشاد ہوا “کتاب سے دوستی بہت اچھی ہے، یہ کبھی دھوکہ نہیں دیتی” ۔ کچھ دیر خاموش رہے اور پھر سب سے تعارف پوچھا تو میں سمجھ گیا کہ یادداشت اب نہیں رہی۔

حافظ صاحب کے پاس انکی ادھیڑ عمری کی اک تصویر تھی جس پہ آٹو گراف لیا تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اس تصویر کی ایک کاپی ہمکو بھی دیجیے، حافظ جی سے درخواست ہے کہ حکم لازمی پورا کیجیے گا۔ جب میں نے آٹو گراف کیلیے کاغذ آگے کیا تو بولے کہ کیا لکھوں؟ عرض کی ایک ترچھی لکیر ڈال دیجیے، تبرک سمجھ کر رکھوں گا۔ مسکرائے اور لکھنا شروع کیا تو میں آبدیدہ ہو گیا۔ نہ جانے کتنے شاہکار لکھنے والے ہاتھ اب اس قدر کپکپاتے تھے کہ تین منٹ میں لکھا، “بہت پیار اور دعاوں کے ساتھ، مشتاق احمد یوسفی”۔ اس نوازش پر میں نے آگے بڑھ کے اپنے ہیرو کا ہاتھ چوم لیا۔

ائرپورٹ کی جلدی میں نکلنے کی اجازت لینے لگے تو چائے آ گئی۔ حکم ہوا چائے تو پی لیتے۔ حافظ جی نے استفہامیہ مجھے دیکھا، میں نے نظروں میں کہا فلائیٹ گئی بھاڑ میں، یوسفی کی چائے کون چھوڑتا ہے۔ حافظ جی مسکرا پڑے۔

میں نے کہا، سر میرا اردو سے عشق آپکی وجہ سے ہے۔ بولے وہ کیسے۔ عرض کی کہ بچپن میں ماں باپ ہر کتاب پڑھنے نہیں دیتے تھے کہ چال چلن نا بگڑے۔ مگر آپکی کتب خود دیتے تھے کہ چلو مزاح ہے۔ اب یہ ہماری قسمت کے اردو سنوارنے اور چلن بگڑنے میں آپکی کتب ہی کام آئیں تو ہنس پڑے۔ کہنے لگے “یہ مکالمہ کے نام سے ایک اور رسالہ بھی نکلتا تھا، مگر بند ہو گیا”۔ ارے واہ، انکو آج کی تاریخ یاد نہ تھی مگر نجانے کب نکلنے والے اک رسالے کا نام یاد تھا، ادب سے ان کا عشق اب بھی زندہ تھا۔

میں نے چائے بناتے ہوئے عرض کی، سر اب ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ہم یوسفی صاحب کے نمک خوار ہو گئے ہیں۔ بوڑھی آنکھوں میں شرارت چمکی، میرے، کپ میں دودھ ڈالتے، ہاتھ کو دیکھ کر کہا “یوں کہیے کہ ادب کے شیر خوار ہو گئے ہیں” اور ہم اور وہ خود کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ جسم ساتھ چھوڑتا تھا، یادداشت ڈھے رہی تھی مگر یوسفی کی بذلہ سنجی اور جملے بازی ابھی قائم تھی۔ خدا قائم رکھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نہ چاہتے ہوے بھی اجازت لی کہ واپس لاہور پہنچنا بھی ضروری تھا۔ بولے “ملاقات مختصر رہی مگر نا ہونے سے تو بہتر ہے”۔ جی چاہا کہ کہوں آپ کے قدموں میں گر عمر بیت جائے تو پھر بھی ناکافی ہے مگر اس عمر اور بیماری میں یہ مختصر سی ملاقات کا وقت بھی سرمایہء حیات بن کر ساتھ رہے گا۔ بمشکل فلائٹ بند ہونے سے قبل ائرپورٹ پہنچا اور جہاز مل گیا۔ مگر بیٹھے ہوئے میں یہی سوچ رہا تھا کہ جہاز مس بھی ہو جاتا تو سودا برا نہ تھا۔ یوسفی کے چراغ تلے اندھیرا بھی روشن ہو جاتا ہے۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”یوسفی کے چراغ تلے۔۔۔انعام رانا

Leave a Reply