کتھا چار جنموں کی کا نیا روپ۔قسط2/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

1939ء
گاؤں کے باہر مائی مولے والی بنھ (پانی کے باندھ کا پنجابی لفظ)۔ ایک جھیل ہے جس میں آبی پرندے تیرتے ہیں۔ میں کنارے کے ایک پتھر پر پانی میں پاؤں لٹکائے بیٹھا ہوں۔ مرغابیاں بولتی ہیں، تو میں ان کی آواز کے ساتھ اپنی آواز ملاتا ہوں۔ گاؤں کی عورتیں بڑے بڑے پتھروں پر اپنے میلے کپڑے قینچی مارکہ صابن سے رگڑ رگڑ کر دھو رہی ہیں۔ یہ سب میری موسیاں، چاچیاں، بھابھیاں، پھوپھیاں اور تائیاں ہیں۔ کچھ ہندویا سکھ ہیں،لیکن مذہب کے حوالے سے انہیں کوئی نہیں پہچانتا، کیونکہ سبھی گوردوارے میں بھی جاتی ہیں اور جوگیوں کی درگاہ میں بھی شو لنگ پر جل اور پرشاد چڑھانے کے لیے حاضری دیتی ہیں…

میری کتابوں کا بستہ ایک طرف رکھا ہوا ہے۔ گاؤں کے باقی سب لڑکے اس وقت اسکول میں ہیں، مگر میں اسکول سے بھاگا ہوا ہوں۔ بھائی کے ساتھ جاتے جاتے میں اس کی نظر بچا کر بخت بی پھوپی کے گھر کی طرف مڑ گیا تھا جیسے ماں کا کوئی پیغام اسے دینا ہو، اور پھر گلی کا موڑ مڑتے ہی مولے والی بنھ کی طرف کو ہو لیا تھا۔مولے والی بنھ یعنی قدرتی تالاب یا باندھ میری جائے پناہ تھی، جس میں مجھے نہانا، تیرنا، اس کے کنارے پر بیٹھ کر مرغابیوں کو دیکھنا، ان کی آواز میں آواز ملا کر بولنا اچھا لگتا تھا۔

مولے والی بنھ پر ایک معجزہ
دوب، کائی
سرسراتی جھاڑیاں
چڑیاں پھدکتیں، چہچہاتیں

تتلیاں رنگین، کالے ڈنک والی مکھیاں، پیلے مکوڑے
سوکھتے کیچڑ پہ بھینسوں کے کھُروں کے نقش، گوبر کی غلاظت
دھول، مٹّی سے اٹی پگڈنڈیاں….
چیونٹے، قطار اندر قطار آتے ہوئے اک بل کی جانب
ماہیا گاتا ہوا لڑکا، گڈریا
آگے آگے بکریاں کچھ مینگنیں کرتی ہوئیں
کچھ منمناتیں۔۔
پیچھے پیچھے بھیڑیے جیسا بڑا، خونخوار کتّا
کیسا بے ہنگم سا، بے ترتیب بکھراؤ
سرکتی، رینگتی، اڑتی، ہمکتی زندگی،جو
جھیل کے پانی کی ٹھنڈک سے، ہوا سے
سانس کا وردان لینا جانتی ہے!

’باندھ کے اک بھربھرے ٹیلے پہ بیٹھا
آٹھ سالہ نوجوان،میں بھی ہمکتی زندگی کا ایک حصّہ
دور جاتے ماہیے کے دھیمے پڑتے بول کی سنگت میں اڑتا
تتلیوں کی رنگ ریزی کی دھنک سے کھیلتا….
چڑیوں کی چوں چوں کے سُروں میں سُر ملاتا
مکھّیوں کے ڈنک سے بچتا بچاتا
اور سطح آب پر ٹھنڈی ہوا کے
ہلکے ہلکوروں پہ اڑتا
جھیل کے پانی کے چکنے جسم کو چھوتا، پھسلتا
جاتے جاتے اس جگہ پر رک گیا ہوں
جس جگہ مرغابیاں اک جھنڈ کی صورت میں بیٹھی تیرتی ہیں
(لمبے رستوں کے مسافر، یہ پرندے
کچھ دنوں کے واسطے ہی یہ پڑاؤ ڈھونڈتے ہیں!)
یہ پرندے، اپنی لمبی گردنیں پانی میں ڈالے
غوطہ زن ہو کر ابھرتے ہیں
تو مجھ کو ایسے لگتا ہے کہ جیسے
جھیل کے پانی سے چاندی کے کٹورے اُگ رہے ہوں
دودھ کے ہلکے پھوارے پھوٹتے ہوں
سیم تن پریاں ”چھُوا چھُو“ کھیلتی ہوں

کاش اس برکاۃ کے لمحے میں، مولا
معجزہ اک رونما ہو
کاش میں چولا بدل کر (میں نے سوچا)
جھیل کے پانی میں اپنی لمبی گردن کو ڈبو دوں
اور جب ابھروں
تو میرے جسم پر سیمیں پر پروازہوں
برّاق برفوں کی چمک پہنے ہوئے
بے تاب اڑنے کو، مرے مولا
مرا مُرغاب دل یہ چاہتا ہے!!
” یہ نظم کوٹ سارنگ سے ہجرت کے اٹھارہ برس بعد یعنی 1965 ء میں لکھی گئی”۔

کہا تھا منشی رستم خان صاحب نے، یہ بچہ غبی الذہن ہے۔ کچھ نہیں آتا اسے۔ صرف اردو اچھی لکھ سکتا ہے۔ صرف خوشخط ہے، لیکن حساب میں نا لائق ہے۔ ڈرل کے پیریڈ سے ہمیشہ بھاگا رہتا ہے۔ کچھ نہیں بن سکے گا یہ! اپنے باپ داد اکا نام روشن نہیں کرے گا۔ اس کا دادا کابل تک تجارت کرتا تھا۔ اس کا باپ بڑاآدمی بن کر نوشہرہ میں اپنا خاص سماجی مقام بنائے ہوئے ہے۔ اس کا نانا ”سرداربہادر“ کہلاتاہے، جو خان بہادر یا رائے صاحب کے برابر خطاب ہے۔ اس کی والدہ بھی پڑھی لکھی ہے اور جاٹ عورتیں میدان جنگ سے اپنے شوہروں کے آئے ہوئے خطوط اس سے پڑھوانے آتی ہیں۔ کچھ نہیں بن سکے گا یہ! باپ دادا کے نام کی لٹیا ڈبو دے گا۔ بس ایک آوارہ گردی ہی اس کا مشغلہ ہے۔ کاش میرا مولا بخش اسے سیدھی راہ پر لا سکتا۔ لیکن ہتھیلیوں پر ڈنڈے کھا کھا کر بھی ویسے کا ویسا بدھو ہے……

یہ غبی الذہن بچہ
اس غبی الذہن بچے کو تو میں پہچانتا ہوں
ناک سوں سوں، آنکھ روں روں
جب یہ پہلی  بار مدرسے گیا تھا
کپکپاتے ہاتھ میں بستہ اٹھائے
دوسرے میں سوکھتی، آدھی پُچی تختی کو تھامے
صاف کپڑوں میں سجے سنورے ہوئے وہ
چاچا بیلی رام کی انگلی پکڑ کر
ڈرتے ڈرتے، ان منے قدموں سے یوں چلتا دکھائی دے رہا تھا
جیسے بکرے کو کوئی بے درد   بوچڑ کھینچ کر لے جا رہا ہو (۱) بوچڑ butcher قصائی
پانچ سالہ، اچھے اونچے قد کا، گورے رنگ کالڑکا تھا یہ
لیکن پڑھائی سے اسے کچھ دشمنی تھی
یہ غبی الذہن بچہ کس قدر حسّاس تھا
کوئی نہیں یہ جانتا تھا
یہ نہیں سمجھا تھا اس کے باپ نے
بہنوں نے، ماں نے
یا مدّرس مُنشی رستم خان صاحب نے
کہ یہ بچہ
مدرسے کے دوسرے بچوں سے آخر مختلف کیوں ہے…..
اسے سولہا تلک سارے پہاڑے یاد تو رہتے ہیں، لیکن
کیوں نہیں پڑھتا بلند آواز میں
سب دوسرے لڑکوں کی لے میں لے ملا کر؟
کیوں یہ بچہ نیلگوں آکاش پر اک ٹک نظر گاڑے ہوئے
گھنٹوں تلک بادل کے ٹکڑوں کی شبیہیں دیکھتا ہے؟
باجرے کے کھیت میں
آزاد ہرنوں کی طرح کیوں دوڑتا ہے؟
جھاڑیوں میں اُڑ رہے رنگین ”بھمبھیروں“ کے پیچھے
ننگے پاؤں بھاگنے کو کیوں مچلتا ہے؟ اسے کیوں
دیووں، پریوں،ڈاکوؤں کے کارناموں کی کتابیں
ممٹیوں کی اوٹ میں چھپ چھپ کے پڑھنے کا جنوں ہے؟
کیوں یہ پہروں باندھ کے عقبی کنارے کے سلیٹی پتھروں پر
جھیل کے پانی میں اپنے پاؤں لٹکائے ہوئے

مبہوت بیٹھا
تیرتے آبی پرندوں کی زباں میں بولتا ہے
اور کمہاروں کے گھر سے
چکنی مٹی مانگ کر
شہزادیوں، پریوں، پڑوسی لڑکیوں کی
کیسی کیسی مورتیں گھڑتا ہے ۔ جیسے جی اٹھیں گی!

Advertisements
julia rana solicitors

آٹھ نو سالہ یہ بچہ
مختلف تھا گاؤں کے بچوں سے، لیکن
کیا غبی الذہن تھا؟
میں خود سے مُڑ کر پوچھتا ہوں!
______________________
“یہ نظم کوٹ سارنگ سے ہجرت کے بیس برس بعد یعنی 1967ء میں خلق ہوئی”
(جاری  ہے)

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply