• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • صبر،استقامت ،قربانی اور امام عالی مقام رضی اللہ عنہما۔۔۔ راجا قاسم محمود

صبر،استقامت ،قربانی اور امام عالی مقام رضی اللہ عنہما۔۔۔ راجا قاسم محمود

ہم جانتے ہیں کہ صبر و استقامت اور قربانی ایسی خصوصیات ہیں جن کی کوکھ میں رب نے ٖفلاح و کامیابی رکھی ہے۔ فلاح کے بارے میں پیر کرم شاہ ازہری صاحب نے اپنے تفسیر ضیاء القرآن میں لکھا ہے کہ فلاح اس مکمل کامیابی کو کہا جاتا ہے جس کے دامن میں دنیا و آخرت کی ساری سعادتیں اور برکتیں سمٹ آتی ہوں۔پیر صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ عربی لغت میں فلاح  سے زیادہ جامع لفظ نہیں جو دنیا و آخرت کی خیرات و برکات سمیٹے ہوئے ہو۔ جب فلاح کے اس مفہوم کو سامنے رکھا جائے تو پھر ہم کو سمجھ آتا ہے تاریخ اسلام کے کئی عظیم ستونوں نے اس فلاح اور رب کی رضا کی خاطر اپنی زندگیاں مسلسل جدوجہد میں گزار دیں اور اس جدوجہد کی کامیابی کے لیے اگر جان کی قربانی بھی دینی پڑی تو اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے اس کو بلاجھجک اس کی راہ میں نچھاور کردیا ویسے اسلام کے معانی اور مقصد کودیکھا جائے تو جو چیز سب سے واضح نظر آتی ہے وہ قربانی ہی ہے۔ اسلام کے معانی پر بات کرتے ہوئے پیر کرم شاہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے اپنی گردن رکھ دینا،یعنی کہ جب بندہ اپنی راحت و تکلیف،اپنا نفع و نقصان ،اپنی رائے یا خواہش کو بغیر کسی حیل و حجت کے اپنے رب کے احکام کے آگے نظر انداز کر دیتا ہے تو وہ حقیقت میں اسلام کا پیروکار بنتا ہے۔ ہم کو الفاظ کی حد تک یہ جیزیں بہت آسان لگتی ہیں مگر جب ان کو عملی میدان میں اپنے اوپر لاگو کیا جاتا ہے تو پھر احساس ہوتا ہے کہ دنیا و آخرت کی فلاح کے لیے کیسی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔  جب تک انسان خود ان صفات کا مشاہدہ نہیں کرتا یا اس کو ایسے حالات سے واسطہ نہیں پڑتا اس وقت تک وہ ان کی قیمت نہیں جان سکتا۔اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے امام غزالی نے مکاشفتہ القلوب میں لکھا ہے کہ
“تنگی اور فراخی کے اوقات میں بندے کا صدق اور جھوٹ علیحدہ ہو جاتا  ہے،جس نے فراخی کے ایام میں شکر کیا اور مصیبت کے ایام میں جزع و فزع کی تو وہ جھوٹا ہے۔اگر کسی انسان میں جن و انس کے تمام علوم جمع ہو جائیں اور وہ مصیبت کی آندھیوں میں زبان پر شکوہ لاتا ہے تو سمجھ لو کہ اس کے علم و عمل نے اسے فائدہ نہیں دیا۔” (اردو ترجمہ۔۔ص 33۔۔۔۔ضیاء القران پبلی کیشنز)
 ہم میں سے اکثر لوگوں کا ردعمل ایسا ہی ہوتا ہے جب ہم پر کوئی مشکل آتی ہے تو ہماری زبان پر شکوہ و شکایت آ جاتی ہے ۔اس وقت ہم اس امتحان میں ناکام ہوتے نظر آتے ہیں جس کی کامیابی صبر میں رکھی ہوئی ہے۔نہج البلاغہ میں لکھا ہوا  ہےکہ حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہیہ الکریم  کا ارشاد ہے ۔ کہ
” مصیبت کے انداز پر (اللہ کی طرف سے) صبر کی ہمت حا صل ہوتی ہے۔جو شخص مصیبت کے وقت ران پر ہاتھ مارے اس کا عمل اکارت ہو جاتا ہے” (جلد سوم)
ایسے ہی موجودہ دور میں ہمارے مسلم سماج کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں تحمل و برداشت جو کہ صبر ہی کی ایک قسم ہے کا نہ پایا جانا ہے جس سے جہاں ہمارے  معاشرے میں انتہا پسندی و بغاوت جیسے مسائل کا ہمیں سامنا ہے تو اس کے ساتھ ہی فکری جمود سے ہم علمی میدان میں بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسے میں خود پسندی کا عنصر بھی خوب ابھر کر سامنے آتا ہے جس کے بارے میں شیخ فتح اللہ گولن نے بہت اہم بات کی ہے
“بے حد احتیاط کرو تم ایک مرتبہ بھی اپنے نفس کے سامنے گر کر اس سے اپنے متعلق رائے نہ لینا۔کیونکہ اس کی رائے کے مطابق تمہارے سوا ہر شخص مجرم ہے،ہر فرد بدبخت ہے۔” (اردو ترجمہ۔۔۔ المیزان )
جب انسان حق کا فقط اپنی ذات میں محدود ہونے کے زعم میں مبتلا ہوجائے تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس سے اختلاف کرنے والے کا کیا حال ہو گا اور ایسے لوگ اگر کسی ادارے میں سربراہ کے مقام پر پہنچ جائیں تو یقینا ًیہ اس کو اس ادارے کی موت قرار دیا جا سکتا ہے ۔ جب انسان کے سامنے  ایک عظیم مقصد ہو تو اس کی راہ میں  طرح طرح کی رکاوٹیں آتی ہیں اور کئی دفعہ آپ کو حق پر ہوتے ہوئے بھی کچھ معاملات پر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے جیسے کہ حدیبیہ کے مقام پر آپ ﷺ نے معاہدے پر سے  اپنے نام کے ساتھ سے رسول اللہ  کی جگہ اپنے والد رضی اللہ عنہہ کا نام لکھا جانا گوارہ کرلیا۔ یہ تحمل و برداشت کا ایک بہترین نمونہ ہے۔مولانا وحیدالدین خاں صاحب  اس واقعے کو نقل کرکے  کہتے ہیں کہ یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ابدی اصول ہے جس کو دور اول میں اختیار کرکے فتح مبین حاصل ہوئی ایسے ہی موجودہ دور میں بھی فتح مبین تک پہنچانے والا یہی طریقہ ہے۔
جب ہم سیرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہما کی زندگی کے چند گوشوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو “صبر و استقامت ،تحمل،برداشت،اور قربانی” سب آپ رضی اللہ عنہہ کی ذات میں سمٹ کر جمع ہو جاتے ہیں۔آپ ﷺ کے فرمان مبارک کے بعد کہ آپ جوانان جنت کے سردار ہیں(جامع ترمذی حدیث نمبر 3767)  امام عالی مقام نے قطعی جنتی کے باوجود جس جرات و استقامت ،صبر و رضا کا مظاہرہ کرتے  ہوئےاپنی جان رب کے سپرد کی وہ انسانی تاریخ کی ایک لاجواب اور روشن نظیر ہے۔اول تو آپ ﷺ کے ارشاد کے بعد تو سوال بنتا ہی نہیں ،مگر امام عالی مقام کے اپنے ذاتی کردار نے ثابت کیا کہ وہ جوانان جنت کے سردار بننے کے ہر لحاظ سے اہل بھی تھے اور جوانان جنت پر بھی یہ رب کریم کے احسانوں میں سے ایک اور احسان ہے کہ ان کے سربراہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہما ہیں۔
اوپر کی سطور میں کی گئی باتوں کو ہم اگر کسی کی زندگی میں عملی طور پر لاگو ہوتا دیکھتے ہیں تو وہ امام عالی مقام رضی اللہ عنہما کی ذات میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔کربلا کے میدان میں کس طرح سے امام عالی مقام رضی اللہ عنہما نے اپنی مرضی کو نظر انداز کرکے رب کریم کے احکام کو بغیر کسی حیل و حجت سے قبول کیا،اپنا محبوب گھرانہ قربان کرنے کے باوجود کوئی جزع فزع نہیں کی ،کوئی شکوہ و شکایت زبان پر تو کیا دل میں بھی نہیں لائے،مخالفین کی منفیت کا جواب بھی اثبات میں دیا۔کہیں پر بھی امام عالی مقام ہمیں مصیبت کے وقت ہمت ہارتے ہوئے نظر نہیں آتے اور جب اپنی پیاری اولاد کی جان سپردگی پر بھی امام عالی مقام رضی اللہ عنہما  ثابت قدم رہتے ہیں تو خود پسندی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔پھر جب امام عالی مقام رضی اللہ عنہما نے آخر میں تین شرائط پیش کیں کہ انھیں واپس مدینہ منورہ جانے دیا جائے،یا پھر اہل روم کے ساتھ جہاد پر جانے دیا جائے یا پھر براہ راست یزید سے بات کرنے دی جائے، تو کچھ کم عقل لوگ اس کو امام عالی مقام رضی اللہ عنہما کی پسپائی کہتے ہیں حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ صلح حدیبیہ کے طرز کی ایک حکمت تھی جس میں امام عالی مقام رضی اللہ عنہما کے سامنے ایک عظیم مقصد تھا،لیکن یہ شرائط نہ مانی گئیں ،لیکن پھر بھی امام عالی مقام رضی اللہ عنہما کے اس اقدام نے اسلام کے سیاسی نظام کو “موروثی سیاست” اور “نااہل قیادت” کو قبول کرنے سے پاک کردیا۔ آخر میں شیخ فتح اللہ گولن کی صبر کے متعلق ایک بات پر اپنی بات کو ختم کروں گا کہ “صبر و ثبات اور کامیابی ایک دوسرے سے مختلف دکھائی دیتے ہیں مگر دونوں جڑواں بچے ہیں”۔۔۔ایسے ہی کربلا کی ظاہری ناکامی کے بعد ہر گلی و کوچہ میں ذکر امام عالی مقام رضی اللہ عنہما آپ کی دائمی فتح کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply