انصاف کے چیف صاحب؛ انصاف، انصاف۔۔۔۔ عامر ہزاروی

انصاف کے چیف صاحب فرماتے ہیں قوم بادشاہت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو شور شرابہ ہوا تو فرمایا صحافیوں کا لکھا ہوا مستند نہیں ہے میرے فرمائے ہوئے کو غلط پیش کیا گیا وضاحت کی اور کہا کہ میرا مقصد تھا کہ عوام کو اچھے لوگ منتخب کرنے چاہیں اس اچھے سے انکی کیا مراد ہے مجھے معلوم نہیں .؟چیف صاحب آپ جمہوریت کو رہنے دیں آپ انصاف کے تقاضوں کو پورا کردیں یہی آپکی مہربانی اور اس قوم پہ احسان ہو گا۔

چیف صاحب مظہر حسین کی کہانی تو آپکی سامنے ہے اس مظلوم کو آپ کی عدلیہ نے انصاف بھی فراہم کیا تو انیس سال بعد جب اسے انصاف ملا تو وہ اس دنیا میں موجود ہی نہ تھا آپکے انصاف کے انتظار میں وہ دو سال قبک اس دنیا کو چھوڑ چکا تھا۔

معزز چیف صاحب لوگوں نے اس بات پہ بحث کی مظہر کو انصاف نہیں ملا لیکن کچھ چیزیں اور بھی قابل توجہ ہیں جن پہ بحث ضروری ہے میں چاہتا ہوں ان پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جناب چیف صاحب اگر ایک بندے کو انصاف نہیں ملتا معلوم ہے اس کی وجہ سے کتنے لوگوں کو اذیت ہوتی ہے ؟

سب سے پہلی تکلیف ایک ماں کو ہوتی ہے چلیں ماں برادشت کر لیتی ہے روتے ہوئے ہی سہی لیکن برداشت کر لیتی ہے باپ کو ہوتی ہے وہ بھی برداشت کر لیتا ہے اولاد لاشعور ہوتی ہے اسے بھی جدائی برداشت کرنا پڑتی ہے وہ بھی کر لیتی ہے

چیف صاحب آپکو علم ہوگا کہ ملزم یا مجرم کی بیوی بھی ہوتی ہے یقینا آپ نے یہ بھی پڑھا ہوگا کہ اگر کسی عورت کا شوہر گم ہو جائے اسے علم نہ ہو تو وہ چار سال بعد دوسرا نکاح کرنے میں آزاد ہوتی ہے چیف صاحب آپکے اس انصاف کی وجہ سے ایک عورت کی جوانی ضائع ہوتی ہے وہ لٹکی رہتی ہے انیس سال تک آپ کسی عورت کو گھر بٹھائے رکھیں اسے نہ طلاق ملے نہ شوہر کے پاس راتیں گزارنے کا موقع ملے تو وہ گناہ کی طرف نہیں جائے گی؟ یقینا جائے گی اگر جاتی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا ؟

آپ کے اس انصاف کی تاخیر کی بدولت ایک بیوی کے بالوں میں چاندنی اتر آتی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے جناب چیف صاحب..؟

اگر ایک بندہ مجرم ہے اسے لٹکائیں تاکہ اسکی بیوی اس کے حرم سے نکلے وہ دوسری زندگی کے بارے میں سوچے وہ کسی اور کے حرم میں جائے لیکن آپ کا انصاف ایک عورت کی جوانی بچانے سے قاصر ہے۔

جناب چیف صاحب ایک مجرم یا ملزم جس کا فیصلہ نہیں ہوتا وہ سرکار پہ بوجھ ہوتا ہے اس کا خرچ سرکار اٹھاتی ہے آپ کے انصاف میں تاخیر کے باعث کئی مجرم ریاست کے خرچے پہ پل رہے ہیں. کیوں ؟

جناب چیف صاحب انصاف فرمائیں ..انصاف سستا اور فوری کر دیں اگر انصاف جلدی نہیں دیتے تو معلوم ہے اس کا نقصان کیا ہوتا ہے ؟

میں اپنی بات کرتا ہوں ہمارا دیوانی کیس چل رہا ہے کب سے ؟ دادا کے وقت سے .. جی جب میں بچہ تھا اب میں جوان ہوں کیس ابھی سپریم کورٹ نہیں پہنچا فائل کہیں فائلوں تکے دبی ہے جب فائل پہنچے گی تو علم ہو گا کہ بات کب چلتی ہے اور آگے نکلتی ہے ؟ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ دادا جو دشمنی چھوڑ کے گئے وہ آج تک چل رہی ہے فریق مخالف سے غمی شادی بند ہے کل کو کیس کا فیصلہ دوسرے فریق کے یا ہمارے حق میں آتا ہے تو دادا کی دشمنیاں پوتے نبھائیں گے . جناب ہمارا کیا قصور ہے آپ جلد انصاف دیتے تو تیسری نسل کو علم بھی نہ ہوتا کہ بڑوں میں معاملہ کیا تھا ؟ لیکن آپکی وجہ سے دشمنی سینہ در سینہ اولاد در اولاد چل رہی ہے کیس جنہوں نے کیا وہ قبر میں اتر چکے اب ہم بھگت رہے ہیں.کل کو کیا ہوگا مجھے نہیں معلوم ؟

دو روز قبل منصفوں کی ستائی بہن محترمہ رابعہ رزاق سے بات ہوئی وہ بھی یہی رونا رو رہی تھیں پچاس سال بعد زمین کا فیصلہ ان کے حق میں آیا والد قبضے کے لیے زمین پہ گئے تو انہیں مار دیا گیا اب ایک لڑکی باپ کا کیس لڑ رہی ہے زمین رہی ایک طرف جان بھی چلی گئی۔

جناب ان کمزوریوں کے باوجود آپ کہتے ہیں قوم اٹھ کھڑی ہو جب قوم اٹھ کھڑی ہوئی تو سب سے پہلے منصفوں کے خلاف کھڑی ہوگی ابھی میں نے لاپتہ افراد کا تذکرہ ہی نہیں کیا جہاں بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں انہیں رہنے دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور آپ نے فرمایا ملک میں بادشاہت ہے جناب برا نہ منائیں تو بس چھوٹی سی عرضی پڑھ لیں کہ نظریہ ضرورت بھی آپکا اپنا ایجاد کردہ ہے بادشاہوں کو جواز آپ نے بخشا ہے اور عوام کے منتخب لیڈر کا عدالتی قتل بھی آپ کی کرسی پہ بیٹھے کچھ لوگوں نے کیا تھا طیارہ اغواء کیس میں منتخب وزیراعظم کو سزا بھی آپ نے ہی دی تھی چلیں چھوڑیں ان باتوں کو بس یہ بتا دیں کہ ہمیں سستا اور فوری انصاف کب ملے گا ظلم کے بچے جوان ہو کے گلی کوچوں میں ناچ رہے ہیں عدل کب صاحب اولاد ہوگا ؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply