مکالمہ… لندن سے کراچی

مکالمہ… لندن سے کراچی
رضاشاہ جیلانی
یہ سفرآج سے کوئی چار ماہ قبل شروع ہوا جب محسوس کیا گیا کہ بس بہت ہوا یہ دنگا فساد، اب ہمیں مل بیٹھ کر بات چیت سے تمام حل نکالنے ہیں تو اس پیغام کو لیکر انعام رانا اپنی سرزمین ،اپنی دھرتی ماں کے لیے کچھ کر گزرنے کی نیت سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ان کا اولین مقصد جو میں سمجھا وہ یہ تھا کہ سوشل میڈیا پر پاکستان کا ایک مثبت تاثر اجاگر کرنا تھا ،چونکہ ہم گزشتہ کچھ سالوں سے یا جب سے سوشل میڈیا پاکستان میں آیا ہے تب سے ہی لگ بھگ اس میڈیا کو بھی ایک طرح سے فردِ مخالف کے خلاف ایک ہتھیار کی مانند استعمال کرنے لگ گئے ہیں تو یقیناً ایک ایسے پلیٹ فارم کی نہایت ضرورت آن پڑی تھی جہاں مخالف کو مخالف سمجھنے کے بجائے مخالف کی بات سے اختلافِ رائے کیساتھ بات چیت کی جائے اور مل بیٹھ کر معاملات کا متوازن حل نکالا جائے۔اپنی طرف سے یہ انوکھی سی کوشش کرنے والے لندن میں مقیم بیرسٹر انعام رانا پاکستانی سوشل میڈیا میں اور دنیا جہاں میں جس جگہ بھی پاکستانی آباد ہیں انکے مثبت حوالے سے ایک ادراہ قائم کرنے والی شاید پہلی شخصیت ہیں کہ انہوں نے کم وقت میں پاکستان اور پاکستان سے باہر رہنے والے تمام تر پاکستانیوں کو آپس میں بات چیت پر مجبور کر دیا۔
دوستو مکالمہ کا سفر شروع ہو چکا تھا اور اللہ کے فضل سے ہم سب دوست احباب جو صرف سوشل میڈیا کے حوالے سے ہی ایک دوسرے کیساتھ جڑے تھے ان کے لئےنہایت ضروری ہو گیا تھا کہ آپس میں میل ملاقات کی کوئی سبیل بھی نکلے، اور مکالمہ کا بنیادی مقصد بھی عام پاکستانی بالخصوص طلبہ کے سامنے رکھا جائے۔ یہ کام تھوڑا کٹھن ضرور تھا مگر ہمارے انعام رانا بھی واقعی رانا ہیں مشکلات ہوں اور چاہے کتنی ہی کیوں نا ہوں تو بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں “یار اللہ مالک ہے “اور مشکل کام کو اپنی دلفریب مسکراہٹ کیساتھ حل کرنے میں لگ جاتے ہیں. یہ بیڑا بھی انہوں نے خود ہی اٹھایا یعنی مکالمہ کانفرنس کرنے کا اور سترہ دسمبر سے چند روز قبل مجھے کہا کہ” یار شاہ جی لاہور کا کیا پروگرام ہے “; میں نے کہا انعام بھائی آپ جہاں بلائیں گے ہم آجائیں گے۔ ہم تو آپ کے عشق میں مبتلا ہو گئے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ لالہ عارف خٹک کیساتھ میں نے کچھ تصاویر لینی ہیں. خیر جیسے جیسے سترہ دسمبر قریب آرہی تھی ،ہمارے اندر بھی جوش و جذبہ اور مکالمہ کے دوستوں سے ملنے کی چاہت کا سمندر امڈ رہا تھا۔ دل ہی دل میں انعام رانا سے ملاقات سمیت استاد محترم جناب طفیل ہاشمی، موسیو، حافظ صفوان ،عارف لالہ کی محبت بھری مسکراہٹ ،عاصم اللہ بخش صاحب، خاکوانی صاحب اور ہمارے پیارے طاہر بھائی جیسی علمی شخصیات سے ملنا اور ساتھ ہی شاکر صاحب سے پہلی بار ملاقات اور لاہور سمیت پنجاب بھر کے تمام لکھاریوں سے ایک ہی چھت کے نیچے ملنا کوئی معمولی بات تو ہرگز نہ تھی ،سو تیاری بھی اسی حساب سے جاری تھی مگر شاید قدرت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں اور کسی وجہ سے لاہور نہ جا سکا مگر کانفرنس سے قبل ہمارے ہردلعزیز انعام رانا صاحب نے مجھ سے کراچی میں کانفرنس کے بابت رائے لی اور کراچی کا پروگرام بنا ڈالا ۔یوں میرے لیے یہ ایک اعزاز بھی تھا کہ مکالمہ پہلی بار لندن سے براستہ لاہور ہوتا ہوا سندھ کراچی خود آرہا ہے. میں نے بھی جھٹ پٹ ہاں کر ڈالی اور پچیس تاریخ طے ہوتے ہی کراچی کی تیاریوں میں مگن ہوگئے۔
ہر گزرتے دن کیساتھ کراچی جانے اور وہاں احباب سے ملنے کی جو چاہ تھی وہ بڑھتی ہی جا رہی تھی اور یوں بارہ گھنٹے کا ایک تھکا دینے والا سفر طےکر کے ہم پچیس دسمبر کو علی الصبح کراچی پہنچ گئے. کراچی پہنچنا تھا کہ انعام بھائی نے آرٹس کونسل پہنچنے کا حکم نامہ صادر فرما دیا اب انہیں یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ بھیّا بارہ گھنٹوں نے کمر کی حالت کر دی ہے ۔خیر تیار ہو کر آرٹس کونسل کے مرکزی دروازے پر جیسے ہی قدم رکھا تو وہاں قریب میں ایک کرسی پر جس شخصیت کو بیٹھے پایا یقین کریں کہ میری تھکاوٹ ایک خوبصورت احساس میں بدل گئی ۔میں بھاگ کر سید انور محمود صاحب کے قدموں میں جھک گیا اور انکے ہاتھوں کا بوسہ لیا وہ چند لمحوں تک مجھے دیکھتے رہے پھر کہا کہ آپ غالباً….میں نے عرض کیا سرکار میں رضا شاہ… میں اپنا نام بھی مکمل نہ لے پایا تھا کہ انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا اور خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا ارے بھئی رضا شاہ جیلانی ہو نا…. ارے بیٹا ہم تو تمھیں پڑھتے ہیں کیا خوب لکھتے ہو بھئی اور اس عمر میں… اور انہوں نے اسی لمحہ اپنے بیٹے کو آواز دی … نبیل .. نبیل.. بیٹا ان سے ملیں یہ سید رضا شاہ ہیں ۔مکالمہ پر لکھتے ہیں اور وکیل بھی ہیں ۔اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ میری محنت وصول ہو چکی ہے میں نم آنکھوں کیساتھ انکا ہاتھ پکڑے آرٹس کونسل کے رنگ محل ہال تک آیا۔
دروازہ کھولتے جیسے ہی اندر داخل ہوا تو دور کھڑے خواتین کو کچھ سمجھاتے ہوئے حافظ صفوان صاحب نے مجھے دیکھتے ہی کہا.. رضا یہاں آو بھئی کہاں رہ گئے تھے اتنی دیر.. میں حیران پریشان کھڑا رہا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے میں جن سے کبھی ملا ہی نہیں آج لگتا ہے کہ ان سے کئی سالوں کا واسطہ ہے. میں پریشانی کے عالم میں وہیں کھڑا رہا اور حافظ صاحب میرے پاس خود آئے اور مجھے گلے لگا کر کہا، ہاں بھائی سفر کیسا رہا سب ٹھیک تھا نا… اور میرا وہاں موجود خواتین اور کچھ احباب سے تعارف کروایا۔اس ہی دوران رنگ محل کا دروازہ کھلا اور ایک صاحب اپنی بڑی بڑی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے اندر آئے اور آتے ہی مجھے اس قدر زور سے گلے لگایا کہ اس طاقت کا اندازہ میں ہی جانتا ہوں اور موصوف لالہ عارف خٹک نے کان میں مگر زور سے کہا کہ”یار تُو تو تصویر سے بھی زیادہ خوبصورت ہے اور نرم نرم بھی ہے” ویسے میں لالہ کی اس بات کو تعریف ہی سمجھوں گا اور انکا بے حد مشکور ہوں کہ مجھے اس عمر میں بھی نرم ملائم و خوبصورتی کا سرٹیفیکیٹ عطا کیا ورنہ تو سنا ہے کہ ہمیں پیٹھ پیچھے اب انکل ونکل کہا جاتا ہے. رنگ محل کا دروازہ کھلتا گیا ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا اندر آتا گیا کس کس کا نام لوں کس کا نہ لوں۔
مبشر زیدی ،فیض اللہ خان، منصور احمد مانی بھائی، مزمل بھائی ہمارے سب کے علی بابا عقیل جعفری صاحب اُم رباب صاحبہ سمیت ایک لمبی فہرست ہے. یہ وہ تمام نام ہیں جو کہ واقعی اپنا نام رکھتے ہیں میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی کہ ہر شخص نے میرے قلم کی وجہ سے مجھے پہچانا ۔میرے ساتھ تصاویر بنوانے والے مدارس کے طلبہ حضرات سے مل کر مجھے کافی مسرت ہوئی اور مجھے اس بات کی بھی کافی خوشی ہوئی کہ میں مولوی حضرات میں کافی جانا پہچانا جاتا ہوں۔
پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور خوبصورت حمد و ثناء کیساتھ کیا گیا ۔اسکے بعد اسٹیج کی نظامت مزمل بھائی اور مکالمہ کی لکھاری سعدیہ کامران نے بڑی خوبی سے ادا کی ۔یہاں مزمل بھائی کی اردو کی داد دینا پڑے گی ان کی اردو اور الفاظ کی ادائیگی میں آج بھی لکھنئو کی جھلک واضح طور پر نظر آجاتی ہے بلکہ تقریب کے دوران ایک موقع پر انہوں نے بتایا کہ کراچی میں اردو ادب اس قدر پروان چڑھا کہ سلام مچھلی شہری کو یہ کہنا پڑ گیا کہ دلی اور لکھنئو اجڑے تب کہیں جا کر کراچی آباد ہوا ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہال میں بیٹھنے کی جگہ مکمل بھر چکی تھی عارف لالہ نے دروازے تک اور کرسیاں لگوا دیں. بعد ازاں حافظ صفوان صاحب نے مکالمہ کا مقدمہ پیش کیا اور کیا خوب پیش کیا کہ جسے بھی مکالمہ کے بارے اگر معلومات کم تھیں تو میرا ذاتی خیال ہے کہ پھر حافظ صاحب کے اندازِ بیاں نے اسے مکالمہ سے مکمل آشنا کر ڈالا ہوگا.میں اتنا جانتا ہوں کہ حافط صاحب کا اپنا ہی ایک مخصوص اندازِ گفتگو ہے وہ سامعین کے دل و دماغ میں اپنی بات بہت خوبی سے ڈال دیتے ہیں.انکے بعد صدرِ مجلس جناب استادِ محترم سید انور محمود صاحب نے حاضرینِ مجلس سے گفتگو کی اور ایسی نادر و نایاب باتیں کیں کہ سننے اور دیکھنے والوں نے انکے ہر لفظ سے اتفاق کیا۔ ایک موقع پر انہوں نے فرمایا کہ مکالمہ بات چیت کرنے کا وہ طریقہ ہے جس سے معاملات حل کی جانب جاتے ہیں اور مباحثہ محض تکرار کی بنیاد ڈالتا ہے ۔ہمیں انعام کے پیغام مکالمہ کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے۔ انور محمود صاحب کی باتیں دل پر اثر کرنے والی اور ایک طالب علم کے لیے کسی علم کے سمندر سے کم نہ تھیں ۔انور محمود صاحب ناسازی طبع کے باوجود بھی مکالمہ کانفرنس میں تشریف لائے اور اس اپنائیت کےساتھ آئے کہ انعام لندن سے جو مکالمہ اٹھائے اٹھائے پہلے لاہور اور اب کراچی لے آئے ہیں تو بیماری کے باوجود یہ حق تھا کہ آج کانفرنس میں ضرور شرکت کر کے کچھ حق ادا کیا جائے. انکے بعد مبشر زیدی صاحب نے حاضرین سے اپنے نہایت خوبصورت انداز سے مکالمہ کیا اور مکالمہ پر گفتگو کی۔ انکا اندازِ بیاں ایسا تھا کہ بس وہ بولتے ہی جائیں اور سننے والا انہیں سنتا جائے ۔مبشر صاحب نے حاضرین پر نظر ڈالتے ہوئے بڑے ہی شگفتہ انداز میں کہا کہ “مجھے تو کہا گیا تھا کہ کانفرنس میں آپ کو انعام ملے گا مگر مجھے تو یہاں انعام دکھائی دیتا ارے کہاں ہے میرا انعام ” اس جملے پر حاضرین مجلس نے کھل کر داد دی. منصور احمد مانی بھائی آئے اور کیا آئے کہ چھا ہی گئے اور ایسے چھائے کہ کیا کہنے ۔مانی بھائی نے مبشر صاحب سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ ایک سو لفظی کہانی ہم نے بھی لکھی تھی اور ماں جی کو سنائی تھی مگر سنتے ہی ماں جی کی جانب سے کچھ آیا اور ڈھپ کر کے لگا اور اس دن کے بعد سے سوچ لیا کہ میاں جس کا جو کام وہ ہی کرے۔ مانی بھائی نے ایک موقع پر اپنی والدہ سے محبت کا جو اظہار کیا تو میں نے باخدا کئی آنکھوں میں نمی دیکھی۔ واقعی مکالمہ کانفرنس اپنے جوبن پر تھی ان تمام تاریخ ساز افراد کے درمیان جب میرا نام پکارا گیا تو مجھ پر جو گزری میں جانتا ہوں ۔
میں جو وکالت کے پینتروں اور سوالوں سے واقف ہوں مگر جب آپ سید انور محمود ،مبشر زیدی ،عقیل جعفری، مانی بھائی، حافظ صفوان جیسے ناموں کے درمیان بلائے جاتے ہیں تو نمی آنکھوں میں آجاتی ہے. مکالمہ کا مختصر تعارف اور مقاصد میں کیا بیان کرتا ۔جب کہ حافظ صاحب سب کچھ ہی بتا گئے تھے مگر میں نے پھر بھی ہمت کر کے یہ ضرور کہنا مناسب سمجھا کہ “جو نوجوان مجلس کی آخری نشست پر بیٹھا ہوا ہے ( یعٰنی میں اور میرے جیسے دیگر ) مکالمہ نے کم سے کم انہیں سوال کرنے، بولنے اور انکے لکھے کو شائع کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کر دیا ،جو کہ اس سے پہلے قطعی نہیں تھا ۔نوجوانوں کے لیے کوئی ادارہ ایسا نہیں تھا جو انکے لکھے کو بھی اہمیت دے۔ سب ہی تقریباً بڑے ناموں کو اپنے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے اور انہیں اولین اہمیت دیتے ہیں۔ مکالمہ کے آنے کے بعد نوجوان لکھاریوں کو ایک موقع ضرور مل چکا ہے۔
انعام بھائی کے آتے ہی ہال جیسے ایک بار پھر سے تازہ دم ہو گیا اور ہر طرف تالیوں کی گونج نے انعام رانا کو ویلکم کیا ۔ا ن کا آنا تھا کہ ہر چہرے پر مسکراہٹ نے از خود جگہ بنا لی اور وہ ہنستے مسکراتے سلام و آداب کرتے ہوئے شرکاء کیساتھ انکے بیچ بیٹھ گئے. مقررین کے سیشن یوں ہی آباد تھے کہ لالہ صحرائی کی آمد کی گونج ہوئی اور یوں لالہ عارف خٹک ہمارے سب کے لالہ صحرائی کو جھپیاں ڈالتے ہوئے اندر لے آئے۔ لالہ صحرائی کو دیکھنے کی ہماری تو کم سے کم یہ پہلی واردات تھی. ماشاءاللہ کیا شخصیت ہیں بلکہ باغ و بہار شخصیت کے مالک۔ لالہ صحرائی اسٹیج پر جوں ہی آئے تو سب نے پرجوش استقبال کیا۔ لالہ نے مقریرین سے دل کھول کر خٹک لالہ کے حوالے سے گفتگو فرمائی اور مکالمہ کے بابت اپنے نیک تاثرات کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کسی بھی تقریب میں نہیں جاتے۔ مگر مکالمہ میرا گھر ہے اور انعام رانا میرے بھائی ہیں ۔اس لیے میں یہاں آپ سب کے سامنے موجود ہوں۔
لالہ صحرائی کو بہت کم لوگوں نے دیکھا تھا مگر مکالمہ نے لالہ صحرائی اور لکھنے پڑھنے والوں کے درمیان موجود خاموشی اور پردہ ختم کر ڈالا. پوری تقریب میں جو بات سب سے اہم ہے اور جس کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ منتظمین میں موجود منصور احمد مانی بھائی، لالہ عارف خٹک حافظ صفوان، ماریہ اقبال، آمنہ احسن کو میں نے بیٹھے نہیں دیکھا ،یہ احباب کسی لمحے تھک کر ضرور بیٹھے ہوں گے مگر مکالمہ کانفرنس اور مہانوں کی خاطر تواضع میں ممکن حد تک مگن رہے۔ مانی بھائی کو ایک کریڈٹ یہ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے آرٹس کونسل کے ہال کا انتظام کیا جس پر میں بطور مکالمہ کے لکھاری ان کا شکر گزار بھی ہوں۔ آخر میں انٹرویوز سیشن سے پہلے ہمارے آپ کے سب کے جناب انعام رانا نے حاضرینِ مجلس سے دل کی باتیں کیں اور کیا ہی خوب باتیں کیں کہ کس بات کا ذکر کیا جائے اور کس بات کا نہیں، مگر جو کچھ انہوں نے کہا وہ کر کے دکھایا. رانا صاحب نے مجلس کے شرکاء سے فرمایا کہ میں لندن سے مکالمہ کو آپ کے درمیان لے آیا ہوں ۔اب آپ میرے ساتھ اس کو پروان چڑھائیں ۔انعام بھائی جس وقت حاضرینِ مجلس سے مخاطب تھے اسی لمحے ناصرف ہال میں بیٹھنے کی جگہ کم پڑ گئی بلکہ جتنے افراد بیٹھے تھے لگ بھگ اسکے آدھے شرکاء کھڑے بھی تھے.
انعام بھائی نے تمام حاضرینِِ مجلس اور سوشل میڈیا پر لائیو دیکھنے اور سننے والے تمام ناظرین کا بے حد شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے مکالمہ کے لیے اپنا قیمتی وقت نکالا ۔انہوں نے کراچی کے دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کراچی والوں نے میرا دل جیت لیا اور بالآخر مکالمہ کانفرنس کو کامیاب کر دیا۔آخر میں فیض اللہ خان (مصنف ڈیورنڈ لائن کا قیدی ) سمیت مبشر زیدی صاحب اور خود انعام رانا صاحب کا انٹرویو لیا گیا، جس میں تمام حاضرینِ مجلس نے کھل کر سوالات پوچھے اور ان سوالات کے جوابات سے شرکاء کافی محظوظ بھی ہوئے. مجلس کے اختتام پر صدرِ مجلس و مہمانانِ خصوصی و انعام رانا کو سندھ کی ثقافت اجرک و سندھی ٹوپی کا تحفہ پیش کیا گیا۔
مکالمہ کے لیے فوٹوگرافی کرنے والے احباب میں خوش بخت، محمد عمیر اقبال، کعب اسامہ، نادِ علی اور عبدالرحمٰن کا اللہ بھلا کرے کہ انہوں نے میری اور لالہ عارف کی ایک بھی تصویر نہیں لی جس کا مجھ سے زیادہ لالہ کو دکھ تو ضرور ہوا ہوگا ،خیر کوئی بات نہیں لالہ۔ یہ میرے اور آپ کے خلاف یقیناً “یہودی سازش “تھی۔

Facebook Comments

رضاشاہ جیلانی
پیشہ وکالت، سماجی کارکن، مصنف، بلاگر، افسانہ و کالم نگار، 13 دسمبر...!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply