میں جنریشن ایکس ہوں

جنریشن ایکس
قمر نقیب خان
جی ہاں، میں جنریشن ایکس ہوں.
اپنی جنریشن کے کارنامے بتانے سے پہلے ضروری ہے کہ جنریشنز کے بارے مختصر بتا دیا جائے.
*پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا زمانہ ڈپریشن زمانہ کہلاتا ہے. 1916 سے 1946 تک، ان دو ہولناک جنگوں سے گزرنے والی جنریشن شدید ڈپریشن کا شکار تھی. یہ قدامت پسند، لازمی بچت کرنے والے، کم سے کم قرض لینے والے لوگ تھے، اس جنریشن کے لوگوں میں حب الوطنی بہت زیادہ تھی اس کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کی ذمے داری، پہلے کام، پھر تفریح اور حکومت کی عزت بھی ان کا خاصہ ہے.
*سنہ 1946 سے 1965 تک پیدا ہونے والی جنریشن کے حالات پچھلی جنریشن سے یکسر مختلف تھے، یہی وجہ تھی کہ جنریشن گیپ کی اصطلاح وجود میں آئی. اس جنریشن کے دور میں معاشی انقلاب آ چکا تھا اور بہترین خوراک، تعلیم کے مواقع، بہتر روزگار میسر تھا. سرد جنگ جاری تھی اور ایٹمی جنگ کے خطرات بھی منڈلاتے رہتے ،سو اس جنریشن میں بے یقینی کی کیفیت غالب رہی، انہوں نے اپنی سیکورٹی، سوشل سیکورٹی پر ہی توجہ مرکوز رکھی۔
*سنہ 1965 سے 1984 تک پیدا ہونے والے افراد ، جنریشن ایکس کہلاتے ہیں شارٹ فارم میں جین ایکس یا بےبی بومرز بھی کہتے ہیں. اس جنریشن میں خود پرستی اور وجودیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے. یہ انتہائی متشکک ہیں، میوزک کا سب سے برا انتخاب بھی اسی جنریشن کے حصے میں آیا. بعض لوگ اس کی وجہ خاندانی نظام کی گراوٹ اور تیزی سے بڑھتی ہوئی طلاق کی شرح بتاتے ہیں.
*1985 سے 2000 کے دوران پیدا ہونے والوں کو جنریشن وائی کہا جاتا ہے، جس طرح بعض لوگ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوتے ہیں یہ جنریشن ٹیکنالوجی لے کر پیدا ہوئی. ڈش، ٹی وی چینلز، ویڈیو گیمز، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فون کے درمیان پل کر جوان ہونے والی یہ جنریشن سٹائل کانشئیس ہے، برانڈڈ چیزوں کی دلدادہ اور اس جنریشن میں مارکیٹنگ بینکنگ ایجنٹس کے لیے ایک دفاعی نظام built in ہے. *سنہ دو ہزار کے بعد سے اب تک کی جنریشن ابھی بچی ہے سو اس کے بارے میں کچھ کہنے کے لیے دس سال انتظار کرنا پڑے گا.۔
ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ میں جنریشن ایکس ہوں، تو جناب سنہ 1960ء میں مانع حمل گولیوں کے استعمال کے بعد، شرح پیدائش میں خاطر خواہ کمی ہوئی اور یوں دنیا کی آبادی جتنی ہونی تھی اتنی نہ ہو سکی! وگرنہ میری جنریشن کی تعداد ڈبل ہوتی۔
جنریشن ایکس اب تک کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی جنریشن ہے، موجودہ دنیا کی ہئیت اور ساخت اسی جنریشن کی تخلیق کردہ ہے. اس جنریشن نے آنکھ کھولی تو انسان چاند پر پہنچ چکا تھا. اس سے آگے کی باگ ڈور جین ایکس نے اپنے ہاتھ میں لی اور کمال کر دیا۔انہوں نے کارٹونز بنائے انہیں بولنا سکھایا، ٹوم اینڈ جیری، مکی ماؤس، ڈونلڈ ڈک پنک پینتھر وغیرہ سے لے کر آج کی اینیمیشن فلمز تک. انہوں نے ویڈیو گیمز ایجاد کیں Nintendo اور Capcom سے شروع ہونے والا یہ سفر آج پلے سٹیشن اور ننٹینڈو وائی تک پہنچ چکا ہے موبائل فون کی تھری ڈی گیمز اس کے علاوہ ہیں اس جنریشن کو بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی اور اٹیچی کیس جیسی فلم ریلیں ملی تھیں. انہوں نے ڈش ٹی وی سیٹلائٹ اور تھری ڈی سینما تک بنا دیا. انہوں نے پکچر ٹیوب کو ،کواڈ ایچ ڈی ایل سی ڈی تک پہنچا دیا. اس جنریشن کو ڈیزل انجن پر چلنے والی ٹرینیں ملیں تھیں جو آج چھے سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بلٹ ٹرین چلا رہی ہے. انہوں نے گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو بھی تیز ترین بنا دیا آج ہمارے پاس ہائپر سپورٹس گاڑیاں موجود ہیں۔اس جنریشن نے کمپیوٹر بنایا، ونڈوز بنائی، انٹرنیٹ بنایا اور پھر ان سب چیزوں کو ہر گھر ،ہر شخص تک پہنچا دیا ۔یہاں تک کہ اب وائی فائی کو بھی بجلی پانی گیس جیسی بنیادی سہولیات میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس جنریشن کو وہ ٹیلیفون ملا تھا جس میں دس بار ڈائیل گھمانے پر ایک نمبر ملتا تھا، انہوں نے ٹیلی کمیونیکیشن کو موبائل سے متعارف کرایا ،سونی ایرکسن کے بڑے بڑے موبائل سے نوکیا 3310 اور پھر اینڈرائیڈ مارش میلو اور نگیٹ تک کا سفر اس جنریشن کے سامنے طے ہوا۔ اس جنریشن نے دیکھا کہ لوگ بٹن دباتے ہوئے گھبراتے ہیں، ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ چیز خراب نہ ہو جائے تو انہوں نے ٹچ سکرین ایجاد کی، اس سکرین کا فائدہ یہ ہوا کہ ایک ان پڑھ جاہل گنوار بھی آسانی سے استعمال کر لیتا ہے اور آج یہ ٹچ سکرین آپ کے ہر موبائل، کمپیوٹر اور اے ٹی ایم کا حصہ ہے۔اس جنریشن نے آئی سی ایجاد کی اور ٹرانزسٹر سے جان چھڑا لی، یوں یہ لوگ لاجک گیٹس سے ہوتے ہوئے مائیکرو پروسیسر تک پہنچے، پین ٹیئم بنایا اور پھر اسے اتنا چھوٹا اور تیز رفتار کر دیا ،آج ایک چھوٹا سا موبائل فون بھی اوکٹا کور ہیگزا کور پروسیسرز استعمال کر رہا ہے، کیا آپ یقین کریں گے کہ جو موبائل فون آپ کے ہاتھ میں ہے اس سے کم کنفگریشن کا کمپیوٹر تھا ناسا کے پاس انسان کو چاند پر بھیجنے کے لئے۔اس جنریشن نے روبوٹ ایجاد کیے، انہیں ترقی و کمال تک پہنچایا اور دنیا کی آدھی سے زیادہ انڈسٹری کو روبوٹ پر شفٹ کر دیا.آپ بھی جنریشن ایکس ہیں تو فخر محسوس کریں کہ آج کی دنیا ایک بالکل نئے لیول تک پہنچانے میں کہیں نہ کہیں ہم بھی استعمال ہوئے ہیں۔ جہاں خوبیاں ہوتیں ہیں وہاں لازماً خامیاں بھی ہیں ایڈز سمیت نت نئی بیماریاں، گلوبل وارمنگ اور دنیا کو بارودی ڈھیر بنانے میں بھی ہمارا ہاتھ ہے اور پھر سب سے زیادہ بےحسی بھی ہمارے حصے میں آئی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم نے افغانستان، عراق اور شام کا ظلم و ستم لائیو دیکھا مگر ہماری روٹین میں کوئی فرق نہیں آیا۔

Facebook Comments

قمر نقیب خان
واجبی تعلیم کے بعد بقدر زیست رزق حلال کی تلاش میں نگری نگری پھرا مسافر..!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply