عشق ۔۔ مختار پارس

مجھے بس تم سے محبت ہے اور نہ جانے کب سے ہے۔ تیری لامکانی سے میرا کوئی تعلق ہے اور بے وجہ نہیں ہے۔ تیرے زمان مجھے مجبور رکھتے ہیں اور مجھے تم سے دور رکھتے ہیں۔ مگر فاصلوں کا تعلق فیصلے سے ہوتا ہے۔ میرا فیصلہ تم ہو۔ تم نے جو کہہ دیا وہی ٹھیک ہے۔ جو دے دیا، وہ نصیب ہے۔ تیرے ساتھ میں نے کوئی ‘جھیڑا’ نہیں کرنا۔ تیرے گھر میں رہتا ہوں اور تیری راہ کو تکتا ہوں۔ بس شالا تو ناراض نہ ہونا۔ میرے سر پر جو الزامِ جفا ہے، تیری عطا ہے اوریہی وفا ہے۔ داغِ ملامت سے کیا گھبرانا جب تجھے سب پتہ ہے۔ تیرے فراق میں بیمار ہوں، لوگ وبا کہتے ہیں۔ تیرے دیے ہوۓ سے اختلاف کیسے کروں؟ تیری نظر ہے، تو چاہے تخت کردے یا تاراج کر دے، مجھے منظور ہے۔ مگر ان آنکھوں سے نظر ہٹانا منظور نہیں ہے کیونکہ ذاتِ ناتمام کی بقا اس حسن و جمال سےجڑی ہے جو میں دیکھتا ہوں۔ ابھی مجھے ان نیلی جھیلوں کے کناروں پر کھڑا رہنے دو کہ سامنے پھیلے منظر ابھی دیدہء حیراں نے پوری طرح نہیں دیکھے۔

محبت کے تقاضے نہیں ہوتے کیونکہ محبت خود ایک تقاضا ہے۔ عشق کا تقدیر سے تعلق نہیں کیونکہ عشق اپنا نصیب خود تحریر کرتا ہے۔ حیات اور ہستی کوئی کاروبار تو ہے نہیں کہ اپنی ذات کے خریداروں کا انتظار اور انتظام کیا جاۓ۔ یہ تو ایک واہمہ ہے جو تیرے حکم پر بیدار ہو گیا ہے۔ تمہیں دیکھنے کی تڑپ نے مجھے کسی اور خواہش کے قابل نہیں چھوڑا۔ اتنی حسین آنکھیں بھی کہیں ہوتی ہونگی جو ایک ساعت میں جنبشِ مژگاں سے کایا کو پلٹ ڈالیں۔ لبوں پر نام آتا ہے تو نطق بوسے زبان کے لیتا ہے۔ تیرے افق کے رخساروں کی سرخی میری مٹی کو ماند نہیں پڑنے دیتی۔ تو نے پیکرِ رقصاں کو پراسرار زاویوں میں کچھ ایسا باندھ دیا ہے کہ نہ تجسس ختم ہوتا ہے اور نہ تلاش۔ مگر جن کو تو نے توفیق اور طاقت دی ہے، وہی ان حدوں کو پار کر سکتے ہیں۔ اگر مجھے تیرا ہاتھ پکڑ کر تیرے ساتھ رقص کرنے کا موقع ملا ہے تو میں اس ساعتِ کمیاب کا منکر کیسے ہو سکتا ہوں۔

تم سے محبت کسی کی تسخیر نہیں۔ میں تو خود کو شکست دے کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ تیرے تو نام بھی سو ہیں؛ پھر بھی تجھے پکارتے ہوئے زبان لرز جاتی ہے۔ یہ جانتا ہوں کہ تو سن رہا ہے مگر پھر بھی گفتگو سے ڈرتا ہوں۔ تم نے کہہ دیا کہ میں تمہارا ہوں، پھر بھی بندگی اعلانِ التفات کی روادار نہیں۔ تم نے کن فیکون کہہ کرجو دنیا بنائی ہے وہاں جفا اور قضا سزاوار نہیں۔ یہاں کسی نے اناالحق کا نعرہ جو لگایا تو پھر وہ دلدار نہیں۔ اس لیے اس جنگ میں فتح ضروری نہیں؛ نہ کسی پر لشکر کشی کی ضرورت ہے اور نہ طبلِ جنگ کی گونج اس معرکہء محبت میں کسی کام آ سکتی ہے۔ تیرا ایک دفعہ نظر اٹھا کر دیکھ لینا فقیروں کےلیے شانِ قیصر و کسریٰ سے بھی برتر ہے اور کافی ہے۔

روشنی سورج سے نہیں، تیری عطا کی گئی آنکھوں سے نکلتی ہے۔ مجھے جو نظر آتا ہے وہ تیری وجہ سے ہے۔ بار بار میری نگاہیں ادھر اٹھتی ہیں جدھر تو رہتا ہے اور میں جانتا ہوں تو کدھر رہتا ہے۔ مٹی کے مادھو تجھے مٹی گارے کے میناروں میں ڈھونڈتے ہیں۔ میں نے اگر یہ کہہ دیا کہ تو سرمایہء من ہے، آہِ سحر ہے، امیدِ سربسری ہے تو لوگ نہیں مانیں گے۔ لوگوں نے پہلے کب مانا ہے، یہ ابتلاء تو ابتداء سے ہے۔ مانے گا وہی جسے محبت ہے؛ جس نے سمجھ لیا ہے کہ رستوں پر چراغ جلانے والے کی محبت کم نہیں ہو سکتی۔ روشنی اس کارسازِ عشق کی سب سے بڑی تخلیق ہے، جس کو عطا ہو گئی، اس نے آنکھوں میں اتر جانا سیکھ لیا۔ جو نورالسموٰات ہو، وہ مجھے اندھیروں میں کہاں گرنے دیگا۔ اسی امید پر میں دل کے طاقچے میں چراغ رکھ کر بیٹھا ہوں؛ شاید تیرا یہاں سے گزر ہو جاۓ اور اس کی لو بھڑک اٹھے۔

میں اگر سمندر ہوتا تو تیری یاد میں خود کو پلٹتا رہتا۔ تیرے بےنیاز ساحل مجھے آگے بڑھ کر نہ بھی تھامتے تو میں پھر بھی لوٹ کر آتا رہتا۔ اور اگر کوئی پرندہ ہوتا تو تیرے آنگن میں کسی درخت کی شاخ پر بیٹھا رہتا۔ جب بھی تجھ پر نظر پڑتی تو سبحان اللہ کہتا رہتا۔ جو گر ہوتا آگ تو کبھی شعلہ کبھی کوئلہ بن کر دہکتا رہتا اور اپنے دھوئیں سے تیرا نام لکھتا رہتا۔ کیا کروں کہ ابنِ آدم ہو گیا ہوں، اظہارِ محبت کر نہیں سکتا۔ کبھی اس کی اجازت نہیں ملتی، کبھی اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میرا عشق میرے سر جھکا دینے سے مشروط ٹھہر گیا ہے۔ مجھے طلاطم کی، خرابے کی، ماتم کی، دھمالوں کی آشفتہ سری مناسب نہیں لگتی۔ ہم تو ٹھہرے رگِ جاں کے قریب بسنے والے۔ جب دیدار کی ضرورت پڑی، نظر جھکا کر دیکھ لیا، جب کچھ کہنے کی حاجت ہوئی، ہاتھ دعا کو اٹھا لیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

سوز و سازِ عشق کے بغیر نہ پل کٹتا ہے اور نہ تھل۔ ایک دفعہ جو اس راہ کا مسافر ہو گیا، اس کو واپسی کا راستہ میسر نہیں ہوتا۔ اس رمز کا بھی تو خیال رکھنا ہے کہ چشمِ نم کی قدر بہت زیادہ ہے۔ اختتامِ سفر کا اختیار بھی نہ ہو اور امیدِ منزل کا آسرا بھی نہ ہو تو کون مسافر بنتا ہے۔ گلوں کو گیسوؤں تک رسائی نہ ہو اور نہ لذتِ لبِ شیریں کی شنوائی، تو کون حسن کا طالب ہوتا ہے۔ لیکن میں پھر بھی یوسف کے خریداروں میں کھڑا ہوں۔ شاہوں کی عطاکردہ پوشاکوں کی خواہش نہیں ہو اور درسگاہوں میں پڑھایا ہوا کوئی وعدہء فردا بھی سمجھ میں نہ آتا ہو تو اس شخص سے تیرے سوا اور کون محبت کرتا ہو گا۔ اور وہ شخص بھی تیرے سوا کس سے محبت کرتا ہوگا۔ تیرے عشق میں سب سے بڑا غم یہ زندگی ہے اور اس زندگی کا سب سے بڑا غم تیرا عشق ہے۔ عشق کی حکمرانی میں انکار ممکن نہیں، نہ تو انکار کر سکتا ہے اور نہ میں۔

Facebook Comments

مختار پارس
مقرر، محقق اور مصنف، مختار پارس کا تعلق صوفیاء کی سر زمین ملتان سے ھے۔ ایک عرصہ تک انگریزی ادب کے استاد رھے۔ چند سال پاکستان ٹیلی ویژن پر ایک کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی بھی کی ۔ اردو ادب میں انشائیہ نگار کی حیثیت سے متعارف ھوئے ۔ان کی دو کتابیں 'مختار نامہ' اور 'زمین زاد کی واپسی' شائع ہو چکی ھیں۔ ادب میں ان کو ڈاکٹر وزیر آغا، مختار مسعود اور اشفاق احمد جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع ملا۔ ٹوئٹر پر ان سے ملاقات MukhtarParas@ پر ھو سکتی ھے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply