مولانا احمد پرتاب گڑھی اور ان کا عارفانہ کلام

(قسط اول)
کوثر و تسنیم کی دھلی ہوئی زبان، فلسفہ حیات، مقصدِ عبدیت اوررازِ کن کوآشکارا کرنے والا کلام لوگوں نے بالعموم بہت ہی کم پڑھا اور سنا ہوگا، تصوف کی شیرینی و حلاوت عجب کے بجائے خودسپردگی لذتِ سخن کے آشناؤں نے مولاناروم، حافظ، سعدی اورعطار وغیرہم کے کلام میں پایاہوگا کیوں کہ ان متذکرہ اشخاص کے کلام کا بنیادی محورومدارصرف تصوف،عشقِ حقیقی ،وارفتگی ہستی ہے۔ ان کے علاوہ کسی دوسرے عناصر کی شمولیت کا کوئی بھی شائبہ نہیں ہے۔ وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ان کی فہم اورحس ہستی الٰہ کا ادراک کیے ہوئی تھی اورعشق حقیقی اورمجازی کے درمیان ایک حدِفاصل بھی مقررتھی کہ جہاں عشق حقیقی کی سرمستی اورتموج تھا اوریہاں پردہ نہاں میں ہستی کی ہی جلوہ گری تھی اور عارفانہ کلام ان ہی جذبات وکیفیات،شیفتگی دل اورسودائے جاں کاآئینہ ہے ۔زبان وادب میں اگرتصوف کا شمول نہ ہو تو یقینا وہ محض قافیہ کی پابندی اوراپنے فطری سازوسوزسے عاری ہے ،شاعری میں روح اورجان اسی وقت آسکتی ہے جب یہ عناصراپنی مکمل تابانی کیساتھ موجزن ہوں اورجوالفاظ منہ سے نکلیں وہ اثروتاثیرکی ایک شے عجیب ہوں یہی تصوف اورعارفانہ کلام کا مقتضاہے اوراسی کا مطالبہ صوفیانہ شاعری کرتی ہے۔

حضرت پرتاب گڑھی کاعارفانہ کلام ،سخنوران فن، لذت ِ سخن کے آشناؤں اوردلدادہ عشق ہستی نیزفہم وادراک کے شعورومزاج کے شناساؤں کیلئے وہی سوز، وہی ساز، وہی کیفیات دل، وہی واردات جگر، وہی سودائے جاں اوروہی نشۂ سرشاری فراہم کرتاہے جس کی طلب ایک سلیم العقل اورصالح مزاج کا حامل شخص کرسکتاہے۔ ماہرینِ لسانیات ،تصوف اوررمزنگارِوحدت کے واقف کاروں نیزعوام کی ایک معتدبہ جماعت نے حضرت اقدس علیہ الرحمہ کے کلامِ عارفانہ میں باطنی کیفیات، صدائے ہستی رسا، سوزشِ جگر،حق آگاہی اورعرفان وادراک کوتسلیم کیا اورعصرحاضرمیں مولانااحمدپرتاب گڑھی کے عارفانہ کلام کوترجمانِ حق اورپیغامبراحسان ومعرفت کاایک جامِ لبالب بھی کہاکہ جس جام میں نشہ عشق مولی ،سکون وطمانینت اورحق شناسی ہے اوریہ تسلیم شدہ ہے کہ جودل آتشِ شوقِ وحدت اورسودائے جاناں میں سوختہ ہو، اس دل سے نکلنے والے الفاظ اپنی تاثیرکاایک عالمِ نوآبادرکھتے ہیں اورہم جس عالمِ نوکی آبادی کی بات کررہے ہیں وہ مولاناکے کلام میں بدرجہ اتم جابجا ملتی ہے اوریوں محسوس ہوتاہے کہ ہر قدم میں ایک کائناتِ عشق اوررمزیتِ الہ پنہاں ہے ۔حضرت مولانانے مرزاغالب کے ایک شعر کی یوں ترمیم کی اور اسی شق کونمایاں کیا:
عشق کی شان نرالی ہے انوکھی احمد
کہ لگائے سے لگے اور بجھائے نہ بجھے
اصل شعریوں تھا ؂
عشق پرزورنہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

Advertisements
julia rana solicitors

اس مذکورہ شعر میں غالب عشق کی افتاداورکلفتوں کاشکوہ کررہاہے کہ آتشِ عشق ازخودرفتہ ہوگئی ہے۔ اولاً وہ بھڑک ہی نہیں رہی تھی، اب بھڑک اٹھی ہے تواس کوسرد کرنا ہمارے اختیار و قبضہ میں نہیں ہے۔ نیزوہ اسی آتشِ عشق کے متعلق وضاحت کررہاہے کہ آتشِ عشق بڑی مشکل اورجاں سوزی کے بعدہی بھڑکتی ہے اور تادمِ واپسیں جوان ہی رہتی ہے ، یہ توایک مجنوں صفت اوررندانہ کیفیت کے حامل شاعر کانظریہ تھا۔ حضرت اقدس نے شکوہ عشق نہیں کیا بلکہ عشق کو اثاثہ زیست ، دوائے سوختہ دل اورمآلِ زندگی کہا اوراس کی مدح بھی کی کہ عشق کی شان سب سے جدااورتمام محسوسات ومدرکات سے ماوراء ہے ۔ یہ حیات کوشعورِ جاوداں عطاکرتاہے ،آتشِ عشق کالگانامشکلوں اوردقتوں سے نہیں ہوتاہے ؛بلکہ آتشِ عشق لگانے کیلئے صرف تصورِہستی اورذکرِمحبوب ہے یہی وہ شی ہے جس سے آتشِ عشق لگتی ہے اورہمیشہ جوان رہتی ہے ۔غالب نے شکوہ عشق شراب وصہباکے جوش اوراپنی تخیل آفرینی کے جنون میں کہاتھا لیکن مولاناؒنے مدحِ عشق وقار و سکینت اورشرابِ وحدت کے نشہ عقل وفکررسامیں کیا اورکہا کہ عشق کی آتش لگانا کارِمشکل نہیں بلکہ کارِآسان ہے ، غالب کے یہاں شراب وصہبا اورجامِ ارغوانی کی تندی تھی جوشکوہ عشق کیا ،لیکن یہاں شرابِ طہورکی سکینت اور وقار موجزن ہے جومدحِ عشق کیاہے اوراس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ غالب کے یہاں عشقِ مجازی تھااوریہاں جاوداں عشقِ حقیقی کی کارفرمائی اوراس کی سرشاری ہے۔

Facebook Comments

افتخاررحمانی
ایک آزاد صحافی کے طور پر جانا جاتا ہوں، میرا مشغلہ درس و تدریس ہے ،تاہم صحافت اور ادب سے دلچسپی وہبی شیئ ہے ـ ہندوستان اور پاکستان کے اخبارات اور نیوز پورٹل وغیرہ میں میری تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں ـ ادب سے بھی یک گونہ تعلق ہے افسانے بھی لکھتا ہوں؛ لیکن صحافتی تحریریں وافر ہیں ـ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply