جو کہا سب نے وہی ہم بھی کہا کرتے ہیں
اُس پہ یہ زعم سُخن سب سے جدا کرتے ہیں
وہ جو ,اُس دن نہیں برسا تھا ترے جانے سے
لے کے آنکھوں میں وہی ابر پھِرا کرتے ہیں
یاد ہے اب بھی صنوبر وہ ترے آنگن کا
اب بھی ہم خود سے وُہیں جا کے مِلا کرتے ہیں
دن کا کشکول تو خالی ہی پڑا رہتا ہے
رات کی جھولی میں ہم خواب بھرا کرتے ہیں
Advertisements
زندگی ٹپکی ہے پھر خواب کی آنکھوں سے وُہی
جس کی تعبیر میں ہم روز مرا کرتے ہیں !
Facebook Comments
ایک خوبصورت غزل ۔۔۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ ہو۔
واہ، بہت خوب