غزل۔۔۔۔فیصل فارانی

جو کہا سب نے وہی ہم بھی کہا کرتے ہیں
اُس پہ یہ زعم سُخن سب سے جدا کرتے ہیں

وہ جو ,اُس دن نہیں برسا تھا ترے جانے سے
لے کے آنکھوں میں وہی ابر پھِرا کرتے ہیں

یاد ہے اب بھی صنوبر وہ ترے آنگن کا
اب بھی ہم خود سے وُہیں جا کے مِلا کرتے ہیں

دن کا کشکول تو خالی ہی پڑا رہتا ہے
رات کی جھولی میں ہم خواب بھرا کرتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors london

زندگی ٹپکی ہے پھر خواب کی آنکھوں سے وُہی
جس کی تعبیر میں ہم روز مرا کرتے ہیں !

Facebook Comments

فیصل فارانی
تمام عُمر گنوا کر تلاش میں اپنی نشان پایا ہے اندر کہِیں خرابوں میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”غزل۔۔۔۔فیصل فارانی

Leave a Reply