یار دی گلی۔۔۔ محمود چوہدری

مکہ مکرمہ میرے تخیل میں نقش تھا ۔ اپنے والدین ، اساتذہ اور علمائے کرام سے اس کا تذکرہ اتنی دفعہ سنا تھا کہ اس کا چپہ چپہ ذہن کے پردہ پرچھپ چکا تھا ۔مکہ میں داخل ہوتے وقت میری حالت اس پردیسی کی سی تھی جو اپنی مٹی کوپلٹ آئے ۔وہ اس کنویں کو ڈھونڈے جس سے کبھی اس نے پانی پیا تھا ۔ ان پگڈنڈیوں کو تلاش کرے جن میں وہ دوڑتا پھرتا تھا ان درختوں کو ڈھونڈنے نکلے جن پر اس نے کبھی جھولے ڈالے تھے۔ ان میدانوں، کھیتوں، کھلیانو ں کو تلاش کرے جن میں اس نے چکر لگائے ہوں ۔ مگروقت کی گرد نے سب تبدیل کر دیا ہو اور اس شہر میں پہلے جیسا کچھ باقی نہ رہا ہو۔ وہاں  بل کھاتی پگڈنڈیوں کی جگہ تارکول کی سڑکوں، گارے مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو والی دیواروں کی جگہ سیمنٹ سرے کی عمارتوں،دریچوں کی جگہ شیشے کی کھڑکیوں اور طمانیت بھری چاندنی کی جگہ برقی قمقموں نے لے لی ہو۔مکہ مکرمہ میں داخل ہو تے وقت میری حالت ا س محب کی سی تھی جو کئی مسافتیں طے کرکے کئی صدیوں کے انتظار کے بعد اپنے محبوب کے شہر میں داخل ہو تو اس شہر کی ہر نکڑ، ہر موڑ اور ہر گلی کو حسرت و یاس کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے محبوب کے قدموں کے نشان ڈھونڈے۔ اس کی گلی کی ہر دیوار میں محبوب کے ہاتھوں کے لمس تلاش کرے ۔کیونکہ خود رب کائنات نے بھی اپنے قرآن میں اس شہر بارے فرما دیا ہے ۔ ”مجھے اس شہر کی قسم ، جس میں اے میرے محبوب تو خرام ناز کرتا ہے “
مسجد الحرام میں داخل ہوا تو جب نظر اس کیوب نما عمارت پر پڑیں جسے اہل ایمان کعبہ اور بیت اللہ کہتے ہیں تو نظریں اسی پرجم گئیں ، جانے کون سی ہیبت ، کون سی عظمت او ر کون ساجلال تھا اس عمارت میں کہ نگاہ اس سے ہٹتی نہیں تھی ۔ یہ ہے میرے اللہ کا گھر جس میں وہ آنے کی دعوت قرآن میں  دیتا ہے ۔ اس کی تعمیر میں نہ تو کوئی تکنیکی مہارت ہے اور نہ ہی کوئی آرٹ اور فن کاحسین امتزاج اورنہ ہی یہ کوئی طرز تعمیر کا شاہکار ہے ۔ یہ ایک مستطیل ڈبہ سا ہی تو ہے جس کی لمبائی 12.86میٹر ، چوڑائی 11.03میٹر اور اونچائی 13.1میٹرہے لیکن اس کے باوجودسب مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا محور یہ ہے ۔ دنیا والوں نے اسی کعبہ سے چند میٹر کے فاصلے پرپندرہ بلین ڈالرسے دنیا کی مہنگی ترین عمارت مکہ ٹاور بنائی ہے ۔ یہ دنیا کی چوتھی بلند ترین عمارت ہے اس کی اونچائی 581میٹر ہے اس کی 76منزلیں ہے، جرمن فرم کے بنائے گئے اس مینار میں دنیا کی سب سے بڑی گھڑی نصب ہوئی ہے۔ اس کی گھڑی 25کلومیٹر سے بھی نظر آجاتی ہے ۔اس میں21000سفید اور سبز لیڈ لائیٹس لگائی گئی ہیں جو10کلومیٹر تک بھی نظر آجاتی ہیں ۔ یہ مینار برطانیہ کی ویسٹ منسٹر بگ بین عمارت کی کاپی ہے (پتہ نہیں مسلمانوں کو اپنی تاریخ میں کوئی ایسی فنی عمارت کیوں نہیں ملی)حاجی مکہ ٹاور کی جانب تحسین کی اچٹتی سی نگاہ بھی نہیں ڈالتے بلکہ وہ اسی مکعب نما کالی مستطیل عمارت کی جانب ٹکٹکی باندھ دیتے ہیں جسے خدا نے اپنا گھر قرار دیا اور جس کو اپنے برگزیدہ نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ذریعے تعمیر کروایا ۔
کعبہ کی طرف نگاہیں کیوں نہ مرتکز نہ ہوں وہ خالق کا گھر ہے وہ یار دی گلی ہے ۔ وہ ڈھولن کا گھروندا ہے ۔ وہ مالک کا کوٹھا ہے ۔خدا کے بندے اس پر دیوانوں کی طرح گر رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں ۔دھکم پیل کا شکار ہیں ۔ کیا عورت، کیا مرد ، کیا بوڑھے کیا جوان ، کیا ہندی کیا سندھی ، کیا چینی کیاروسی ، کیا مغربی کیا مشرقی ، ہر ایک امڈ رہا ہے ، ہر ایک سبقت لے رہا ہے ہر ایک دائرہ میں گھوم رہا ہے انٹی کلاک وائز ۔ اس عمارت میں لگے حجر اسود کو چومنے کی کوشش میں ہے جو پہنچ نہیں پا رہا وہ اشارے سے استلام کر رہا ہے ۔کوئی مقام ملتزم سے لپٹ گیاہے اورکوئی حطیم میں خدا سے رحمت کی صدا لگا رہا ہے ۔ کوئی مقام ابراہیم کو مصلی ٰبنا رہاہے ،کوئی پچھتاوے کے آنسو بہار ہا ہے ، تو کوئی رحمت کے بہلاوے کی امید جگا رہا ہے ۔ کوئی اپنے ماضی کی ندامت میں ہے تو کوئی اپنے حال کی خجالت کا رونا رو  رہا ہے۔کوئی مستقبل کی پریشانی سے تو کوئی اپنے ماضی کی پشیمانی سے نجات کی خیرات چاہتا ہے ۔ سب چکر لگارہے ، سب دیوانہ وارکعبہ کے ارد گرد گھوم رہے ہیں سب شور مچا رہے ہیں کہ اے اللہ میں حاضر ہو اے اللہ میں حاضر ہوں

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply