• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

ہمارے سوشل میڈیا کے ایک دوست جو عرصہ دراز سے سویڈن میں مقیم ہیں، انہوں نے چند روز قبل “پاکستانی عورت بمقابلہ سویڈش عورت” کے عنوان سے دو حصوں میں ایک تحریر لکھی۔ اُس تحریر میں انہوں نے لکھا کہ “پاکستان میں گلی محلوں، سکول کے راستوں اور مدارس میں جنسی درندے بیٹھے ہوئے ہیں جو بچے بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیتے ہیں، ہر گھر کے مرد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول خود چھوڑ کر دفتر جائے اور واپسی پر انہیں لیکر دوبارہ گھر چھوڑے، گلی محلوں میں جہاں بھی چند لڑکے کھڑے ہوتے ہیں انکی گفتگو کا موضوع لڑکی پھنسانا ہی ہوتا ہے، اگر کچھ اور نہ کر سکیں تو گلی محلوں اور پارکوں میں جا کر لوگوں کی بہن بیٹیاں تاڑ کر اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر رہے ہوتے ہیں، پاکستان میں ہر لڑکی کو لڑکے سے زیادہ اپنے مستقبل کی فکر ہوتی ہے، لڑکے جوان ہو کر لڑکی پھنسانے کے چکر میں ہوتے ہیں جبکہ لڑکیاں کسی اچھے جیون ساتھی کی تلاش میں ہوتی ہیں، ایسی صورت میں جس لڑکے کے پاس گاڑی یا اچھی جاب ہو وہ کئی لڑکیاں پھنسا لیتا ہے، اسکا مقصد وقت پاس کرنا ہوتا ہے، جس لڑکی کو ایک بار پھنسا لے پھر اس سے شادی نہیں کرتا بلکہ دوسری خواتین کی طرف بڑھ جاتا ہے، مستقبل بہتر بنانے کی اس دوڑ میں کئی بیچاری لڑکیاں لڑکوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔” اس کے بعد انہوں نے سویڈش خواتین کے بارے میں تحریر کیا کہ سویڈش خواتین انتہائی پُراعتماداور باوفا ہوتی ہیں اور اپنا تعلق قائم رکھنے کی غرض سے سمجھوتے بھی کرتے ہیں۔ اور سویڈن میں خواتین کے حقوق سے متعلق بھی تحریر کیا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ خواتین کے خلاف جنسی جرائم یا تو سرے سے ہوتے ہی نہیں یا اُن کی تعداد ناقابلِ ذکر حد تک کم ہے۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے، آئیے جائزہ لیتے ہیں:

میرے سامنے اس وقت مختلف سرویز کی رپورٹس ہیں۔ سرفہرست سروے Statista کا ہے، جو جرمن ویب سائٹ ہےجو تقریباً 80000 مختلف موضوعات پر statistical data اکٹھا کر کے مختلف زبانوں میں دنیا بھر کے لوگوں کے لیے عام رسائی مہیا کرتی ہے۔ Statista کا سروے 2017 میں کیا گیا جس کی رپورٹ 7 جنوری 2019 کو شائع ہوئی ، رپورٹ کے مطابق 19٪ سویڈش مرد وں نے جواب دیا کہ انہیں زندگی میں ایک بار جنسی ہراسانی کا سامنا ہوا، جبکہ سویدش خواتین میں یہ تناسب 64٪ تک پایا گیا۔ The Independent کی 2016 کی رپورٹ کے مطابق یورپی یونین میں سویڈن اور ڈنمارک دو ایسے ممالک ہیں جن میں 80 سے 100 فیصد لوگ adult age میں جنسی ہراسانی کا شکار ہوئے ہیں۔ جبکہ اسی رپورٹ کے مطابق یو کے، فرانس، جرمنی اور فِن لینڈ کے 60 سے 79 فیصد لوگوں کو جنسی ہراسانی کا سامنا ہوا۔آگے چل کر اسی رپورٹ میں Gatestone Institute نے سویڈن کو rape capital of the west قرار دیا۔ (The Swedish Crime Survey (SCS سالانہ بنیادوں پر 16 سے 84 سال کے لوگوں کے خلاف کیے گئے مختلف جرائم کی رپورٹ شائع کرتا ہے ۔ SCS کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق صرف 20 سے 24 سال کی خواتین میں سے 35 فیصد خواتین کے مطابق وہ جنسی جرائم کا شکار ہوئیں۔ سویڈن کی Public Health Agency کی رپورٹ کے مطابق 39 فیصد خواتین sexual assault کا نشانی بنیں جس میں 55 فیصد خواتین ایسی تھیں جن کی عمریں 16 سے 29 سال کے درمیان تھیں۔ سویڈش ٹیلی ویژن کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2013 سے 2018 کے دوران rape attempt کرنے والے 843 مجرموں کو سزا دی گئی جن میں سے 416 مجرم پیدائشی یورپین تھے۔ اسی طرح سویڈن کی National Council on Crime Prevention کی رپورٹ کے مطابق 2019 میں چائلڈ ریپ کے 3410 کیسز رپورٹ ہوئے۔ اسی ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق 80٪ ریپ کیسز سرے سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اس تناسب سے سویڈن میں بچوں اور عورتوں کے خلاف ہونے والے جنسی جرائم  کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ تو صرف سویڈن کی صورتحال ہے، جبکہ پورے یورپ کی صورتحال بھی اس باب میں انتہائی تشویشناک ہے۔

European Union Agency For Fundamental Rights (FRA کا سروے جو 4 مارچ 2014 کو شائع ہوا، اس کے نتائج ہوشربا ہیں۔  FRA کے ڈائریکٹر مورٹن جئیرم کے مطابق خواتین کے خلاف جنسی، جسمانی اور نفسیاتی تشدد انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جو یورپی یونین کے تمام رکن ممالک میں جاری ہے۔  سروے کے مطابق 33٪ خواتین نے 15 سال کی عمر سے جنسی وجسمانی تشدد کا سامنا کیا ہے، جو کہ کل تعداد 62 ملین یعنی 6 کروڑ 20 لاکھ بنتی ہے۔ 22٪ خواتین کو اس تشدد کا سامنا اپنے ہی پارٹنر (خاوند یا بوائے فرینڈ) کے ہاتھوں کرنا پڑا۔ تمام خواتین میں سے 5٪ ایسی تھیں جو ریپ کا شکار ہوئیں،ریپ کی شکار ہر دس میں سے ایک خاتون کو اجتماعی زیادتی کا سامنا رہا۔  43٪ خواتین کو اپنے موجودہ یا سابقہ پارٹنر کی طرف سے نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، اس نفسیاتی تشدد میں لوگوں کے سامنے بےعزت کرنا، خواتین کو گھروں میں قید کرنا اور پورنوگرافی دیکھنے پر مجبور کرنا ہے۔ 33٪ خواتین  کسی مرد کے ہاتھوں بچپن میں جنسی تشدد   کا نشانہ بنیں جس میں 12٪ کو جنسی ہراسانی کا سامنا ایسے مردوں سے رہا جنہیں وہ جانتی نہیں تھیں۔ 11٪ خواتین کو ای میلز اور  sms کے ذریعے ہراسانی کا سامنا رہا جس میں 20٪ خواتین کی عمر 18 سے 29 سال تھی، جو سائبر ہراسمنٹ کا نشانہ بنیں۔ 55٪ ورکنگ ویمن  کسی نہ کسی شکل میں اپنے باس، کولیگ یا کسٹمر کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کا شکار ہوئیں۔ 67٪ خواتین نے انتہائی نوعیت کے کیس بھی نہ پولیس کو رپورٹ کیے اور نہ کسی ادارے کو۔   FRA کی یہ رپورٹ خواتین کے خلاف یورپ میں ہونے والے جرائم کے حوالے سے آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔

یورپین کمیشن کی رپورٹ کے مطابق تقریباً 20٪ بچے اپنے بچپن میں sexual assault کا شکار ہوتے ہیں۔ One in Five Campaign چلانے والی کونسل آف یورپ پورٹل کے مطابق یورپ میں ہر پانچ میں سے ایک بچہ جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنتا ہے۔  اسی طرح ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق یورپ میں ہر سال کم از کم 55 ملین بچے جنسی و جسمانی تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔

چند برس پہلے جب میں برطانیہ میں پڑھنے کی غرض سے مقیم تھا تو ایک نامور پاکستانی صحافی، جسے میں پاکستانی صحافت کا ابو جہل بھی مانتا ہوں، نے ایک انٹرویو میں کہا کہ یورپ نے عریانی کو ستر میں بدل دیا ہے۔ ننگ دھڑنگ عورتیں بسوں اور ٹرینوں میں ساتھ بیٹھی ہوتی ہیں اور کوئی اُن پر نظر بھی نہیں ڈالتا۔ میں چونکہ برطانیہ میں تھا اور اتفاق سے مجھے یونیورسٹی کی لائبریری میں منسٹری آف جسٹس، آفس فار نیشنل سٹیٹسٹکس اور ہوم آفس کا 2013 میں ریلیز کیا گیا مشترکہ آفیشل سٹیٹسٹکس بلیٹن آن سیکشوئل وائیلنس  مل گیا۔ اس رپورٹ کے مطابق انگلینڈ اور ویلز میں ہر سال تقریباً 85000 عورتیں ریپ کا شکار ہوتی ہیں اور مجموعی طور پر تقریباً چار لاکھ وعورتیں sexual assault کا شکار ہوتی ہیں۔ مزید یہ کہ ہر پانچ میں سے ایک لڑکی سولہ سال کی عمر تک کسی نہ کسی درجے میں جنسی تشدد کا شکار ہو چکی ہوتی ہے جبکہ رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد صرف 15٪ ہے۔   یہ ہے میک اپ زدہ یورپ، برطانیہ اور سویڈن کا اصلی چہرہ جہاں بقول شخصے عریانی ہی ستر بن گئی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری اس تحریر کا مقصد نہ تو اپنے ملک میں ہونے والے جنسی جرائم سے پردہ پوشی کرنا ہے اور نہ ہی انہیں کسی بھی درجے میں جسٹیفائی کرنا ہے بلکہ صرف یہ پیغام دینا مقصود ہے کہ اپنے ملک کے گندے کپڑے چوراہوں پر دُہائیاں دے کر دھوتے ہوئے جن ملکوں کے گندے کپڑوں کو ہم گلوریفائی کرتے ہیں، ایسا کرنا چھوڑ دیں اور احساسِ کمتری سے نکل کر احساسِ ذمہ داری کی طرف آئیں۔ اِن جرائم پر قابو پانا ہے تو قوانین پر عملدرآمد کرانے میں اپنا کردار ادا کریں اور اپنے بچوں، جنہوں نے کل مرد بنناہے، اُن کی اخلاقی تربیت کا بندوبست کریں اور اخلاق کا اعلیٰ ترین نمونہ جو اسلامی اخلاقیات کی صورت ہمارے پاس موجود ہے، اُسے خود پر بھی لاگو کریں اور آنے والی نسلوں کی تربیت بھی اُن کی روشنی میں کریں کیونکہ یورپ کی جس صناعی سے ہم متاثر ہوتےہیں،  وہ جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply