خوشبو کی شاعرہ

خوشبو کی شاعرہ
رابعہ احسن
اردو زبان کی خوبصورتی اور مٹهاس ہے کہ لکهنے والوں نے جس بهی صنف میں اسے اپنایا یہ سیدهی دل میں اتر گئی، افسانہ، ناول، شاعری، مضامین کچھ بهی ہو ،لکهنے والوں نے ہر دور میں کمال کیا۔ادب پڑهنے والوں کے دل میں شاعری کی ایک خاص ہوک ہوتی ہے کیونکہ شاعری ادب کی مختصر اور دل پذیر صنف ہے ،جو لفظ لفظ دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ چونکہ یہ لکهنے والے کے الفاظ کا جادوہوتا ہےلہٰذاشاعروں کی ذات اور زندگی قارئین کی توجہ کا ہمیشہ سے خصوصی مرکز رہی ہے۔ اسی لئے شاعری کے ساتھ ساتھ شاعروں کے بارے میں جاننا بهی اچها لگتا ہے ۔کیونکہ اتنے منفرد خیالات کو لفظوں میں ڈهالنے والے کے بارے میں ایک تجسس سا ابهرتا ہے مگراک شاعرہ جو لفظ لفظ دلوں پہ جادو کرتی رہی اور اپنے منفرد اور خوبصورت لب و لہجے کی بنا پر ادب سے شغف رکهنے والے ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنی رہی اور آج اپنی وفات کے اتنے سالوں بعد تک بهی ہے کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں ناں ایسے لوگ۔ آج پروین شاکر اور منیر نیازی کی برسی ہے۔ منیر نیازی کا نام اردو اور پنجابی ادبیات میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ان کی غزلیں، نظمیں ان کا اسلوب بیاں ہمیشہ سے پڑهنے والوں کیلئے پسندیدہ رہا ہے۔ پاکستان کے کلاسک شعراءمیں ان کا شمار ہوتا ہے ۔
ہمیشہ دیر کردیتاہوں، میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کرنی ہو کوئی وعدہ نبهانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں
منیر نیازی نے اپنی ساری عمر لکهنے لکهانے میں گزاری، شاعری، مضامین گانے اور بےشمار تصنیفات شائع کیں جن میں “تیز ہوا اور تنہا پهول””جنگل میں دهنک”ماہ منیر”; ان کی مشہور اردو تصنیفات تهیں، پنجابی میں “سفر دی رات””چارچپ چیزاں””رستہ دسن والے تیرے”; شائع ہوئیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے بهی وابستہ رہے ۔بے شمار ایوارڈز کے حامل ہر دلعزیز منیر نیازی دسمبر 26، 2006 کو وفات پاگئے اورعلم و ادب کا ایک لامتناہی سلسلہ پڑهنے والوں کیلئے چهوڑ گئے اور یہ بهی حقیقت ہی ہےکہ لکهنے والے کی ہر تصنیف پڑهنے والوں کیلئے امانت ہوتی ہے اور آج پڑهنے والوں کا بہت فقدان ہے ۔لکهنے والے بهی اکثر تو فیس بک کے شاعر ہیں اور ان کی شاعری فیسبک سے شروع ہوکر لائیکس اور کمنٹس کے دیباچوں میں بٹ جاتی ہے۔ مگر جب لفظ لفظ خوشبو جیسی شاعری کی بات آتی ہے تو سینکڑوں ناموں میں ایک نام خوشبو کی طرح دل میں اترتا ہے اور آسمان ادب پر جگمگاتے ستارے کی طرح اپنی لو دیتا ہے کہ وہ ہم سب کے دلوں میں رہتے ہوئے بهی ہم سب کے درمیاں موجود نہیں۔ پروین شاکر جس نے اردو شاعری کو انوکهے خیالات اور الفاظ کو جوشبو سے متعارف کرایا۔انگریزی ادب میں ایم اے کرنے کے باوجود اردو شاعری کو اپنا ذریعہ اظہار بنانے والی نوعمر شاعرہ جس نے نہ صرف شاعری میں کمال حاصل کیا بلکہ تعلیمی قابلیت سے لیکر زندگی کے ہر میدان میں آگے رہیں۔ نو سال تک درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک رہیں اور پهر کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں سیکرٹری دوئم کی حیثیت پہ فائز ہوئیں ٹرینیٹی کالج سے مزید تعلیم حاصل کی اور ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔ ہر لحاظ سے ایک کامیاب زندگی کی حامل پروین شاکر جو اپنی شاعری کے حسن کے ساتھ ساتھ خود بهی شاعرانہ حسن کی مالک تهیں۔ ایک خاتون کی اتنی کامیابی ہر کسی کیلئے قابل رشک ہوسکتی تهی مگر ایسا نہ ہوسکا
اور خوشبو کی شاعرہ نے چند لفظوں میں دل کا درد کهول کے تمام عالم میں اداسی گهول دی۔
میں وہ لڑکی ہوں
جس کو پہلی رات
کوئی گهونگهٹ اٹها کے کہہ دے
میرا سب کچھ تیرا ہے دل کے سوا
لازمی نہیں کہ سچ مچ ایسا ہوا بهی ہو مگر ان کی شاعری نارسائی اور کسک کی ایک کهلی کتاب ہے۔ کہتے ہیں عورت زیادہ پڑھ لکھ جائے تو اس کا دماغ خراب ہوجاتا ہے۔ اب تو مجهے بهی یہی لگتا ہے کیونکہ پڑهی لکهی عورت مردوں کے ذہنوں میں پکنے والے کچرے کو چیلنج کردیتی ہیں۔ اسی لئے معاشرے کے سامنے ادهوری ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اپنے ادهورے پن کو آنسوءوں میں ڈبو ڈبو کر تهک جاتی ہے انسان چاہے دنیا کے سامنے کتنا ہی پهنے خاں کیوں نہ ہو دل کے نہاں خانوں میں وہ اپنے اردگرد کی محبتوں کا اتنا ہی محتاج ہوتاہے جتنا کہ اک نومولود چوزہ وہ بڑا ہوتاجاتا ہے مگر جذبات کا چوزہ اس کے ساتھ بڑانہیں ہوتا وہ صرف اظہار پر قابو پالینا سیکھجاتا ہے اور بعض لوگ تو اتنا قابو پالیتے ہیں کہ اظہار ان کے نزدیک بے معنی ہوجاتا ہے اور افسوس کہ ہم لوگ اب اتنے نیک رہے نہیں کہ ہم پر محبتیں الہام بن کر اتریں۔
پروین شاکر کی ابتدائی شاعری میں ایک شوخ و شنگ لڑکی کے جذبات نظر آتے ہیں جنهیں انهوں نے پوری خوبصورتی سے بیان کیا
بند کر کے میری آنکهیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجهے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکهوں
مجھ پہ چهاجائےوہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکهوں
کون جانتا تها کہ یہ اتنے نازک جذبات اور احساسات کی لڑکی جو ہواءوں کے سنگ اڑنا چاہتی ہے ندیوں کے ساتھ بہہ کے ہر رنگ میں خود کو رنگنا چاہتی ہے زندگی کی تلخیوں سے جا ٹکرائے گی۔
جان تمهاری مجبوری کو
اب تو میں بهی سمجھتی ہوں
شاید اس ہفتے بهی
تمهارے چیف کی بیوی اداس ہوگی

“خودکلامی””صدبرگ”;،”کف آئینہ””انکار””خوشبو”،ماہ تمام”کی شاعرہ ایک طلاق یافتہ، ورکنگ وویمن، سنگل مدر جو اپنی تنہائی میں بهی خوبصورت الفاظ اور احساسات کی ترجمانی کرتی رہی ساتھ ہی زندگی کی تلخیوں کو بهی اپنا نقطہ نظر بنایا۔ اور ہر خاتون مصنفہ کی طرح عورت کے مسائل کو بهی اپنے موضوعات میں شامل کیا ۔بیالیس سال کی عمر میں 26 دسمبر 1994کی شب اسلام آباد میں ایک مشاعرے سے واپس آرہی تهیں ڈرائیو کرتے ہوئے ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی اور جان کیٹس کی طرح آفاقی موضوعات کی یہ شاعرہ اپنے مختصر ترین علمی و ادبی سفر میں بے شمار خوشبوئیں بکهیر کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ مستنصر حسین تارڑ لکهتے ہیں کہ ان کے جنازے کے وقت ان کا کوئی عزیز شریک نہیں تها اس حادثے کے بارے میں وہ لکهتے ہیں
پروین شاکر کی برسی کے حوالے سے

Advertisements
julia rana solicitors london

جون 8, 2014
پروین شاکر کی مردہ اُنگلیاں
شہر اسلام آباد کی سویر، وقت تقریباً ساڑھے نو بجے، میں حسب معمول ہر صبح کی مانند ٹیلی ویژن سٹیشن پر صبح کی نشریات کی میزبانی سے فارغ ہو کر ٹیلی ویژن کی ویگن میں سوار اپنی رہائش کی جانب لوٹ رہا تھا۔۔۔ بلیو ایریا ابھی ویران پڑا تھا اور شاہراہ پر ٹریفک بہت کم تھی، بلیو ایریا کے خاتمے پر اس چوراہے کے نزدیک جہاں سے بائیں جانب زیرو پوائنٹ تھا اور دائیں جانب فیصل مسجد کے مینار نظر آتے تھے وہاں کچھ لوگ جمع تھے، حادثے سے تباہ ہو چکی ایک کار نظر آ رہی تھی۔۔۔ میرے ڈرائیور نے ویگن روکی اور کہنے لگا ’’تارڑ صاحب میں دیکھ کر آتا ہوں کہ کیا ہوا ہے۔۔۔‘‘ تھوڑی دیر بعد واپس آ گیا اور کہنے لگا ’’بہت بڑا حادثہ ہوا ہے حالانکہ ٹریفک بھی زیادہ نہ تھی، لگتا ہے ڈرائیور کی غلطی تھی، کوئی خاتون بھی تھیں، اللہ رحم کرے‘‘۔۔۔ ظاہر ہے میرا دل اُس اجنبی خاتون کے لیے دُکھی ہوا جو صبح سویرے حادثے کا شکار ہو گئی تھی،کیا جانے کس حال میں ہو، زندہ بچتی ہے یا نہیں، اپنے کمرے میں پہنچ کر میں نے کچھ دیر آرام کیا، پھر دوپہر کے کھانے سے فارغ ہو کر پڑھنے لکھنے میں مشغول ہو گیا۔۔۔ پچھلے پہر شاید یہ اظہار الحق تھا یا مرحوم احمد داؤد، اُن کا فون آیا ’’تارڑ ایک بہت افسوسناک خبر ہے۔۔۔ پروین شاکر مر گئی ہے‘‘۔ ’’کیسے؟‘‘ یقین نہ آیا کہ کیا کہا جا رہا ہے‘‘ ’’آج صبح وہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ جا رہی تھی اور بلیو ایریا کے قریب اُس کی کار حادثے کا شکار ہو گئی۔۔۔ اتنے بجے جنازہ قبرستان پہنچے گا‘‘ اس دوران کشور ناہید کا بھی فون آ گیا ’’میں اس وقت پروین کے گھر سے بول رہی ہوں مستنصر‘‘۔۔۔وہ روئے چلی جا رہی تھی ’’بہت برا حال ہوا ہے پروین کے چہرے کا۔۔۔ اُسے ٹھیک کیا جا رہا ہے۔۔۔ وہ بدنصیب ہی رہی۔۔۔ اتنے برے اور بیکار لوگ زندہ رہتے ہیں اور پروین ایسے خوشیاں بانٹنے والے لوگ چلے جاتے ہیں۔۔۔ میں تو قبرستان نہیں آسکتی، یہیں سے رخصت کر دوں گی‘‘۔۔۔ پروین شاکر سے میری دوستی یا قربت نہ تھی۔۔۔ کبھی کسی ادبی محفل یا دعوت میں آمنا سامنا ہو جاتا تو وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر سلام میں پہل کرتی، کیا لکھ رہے ہیں، کیا پڑھ رہے ہیں اور خدا حافظ۔۔۔ کبھی کبھار ادب کے حوالے سے کوئی ایک آدھ خط۔۔۔ ’
’’خوشبو‘‘ سے اُس کی شہرت کا آغاز ہوا جسے ’’التحریر‘‘ کے خالد سیف اللہ نے احمد ندیم قاسمی کے کہنے پر شائع کیا اور یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ اس اشاعتی ادارے نے اپنے آغاز میں جتنی بھی کتابیں نئی یا پرانی شائع کیں وہ سب بے حد مقبول ہوئیں،میرزا ادیب کے ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘، ممتاز مفتی کی ’’لبیک‘‘، میرے دو سفر نامے ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ اور ’’اُندلس میں اجنبی‘‘ اور پروین شاکر کی ’’خوشبو‘‘۔۔۔ اسلام آباد کے قبرستان میں پروین کو رخصت کرنے والے بہت کم لوگ تھے، اُس کی عزیز داری کراچی میں تھی اور وہاں سے یہاں آج ہی کے دن پہنچنا مشکل تھا، کچھ ادیب تھے اور اُس کے محکمے کے کچھ لوگ۔۔۔ آخری لمحوں میں اُس کے ایک بھائی بھی پہنچ گئے۔۔۔ لیکن اس سے پیشتر یہی مسئلہ در پیش تھا کہ اُسے لحد میں کون اتارے گا کیونکہ کوئی نامحرم ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔ ہم چار پانچ لوگ قبر کی مٹی کے ڈھیر پر کھڑے تھے اور میرے برابر میں افتخار عارف اپنے آپ کو بمشکل سنبھالتے تھے۔ جنازہ تو ہو چکا تھا جو اہل تشیع کے عقیدے کی نمائندگی کرتا تھا۔۔۔ ہم نے کچھ دیر انتظار کیا اس اُلجھن کا شکار رہے کہ اگر اُن کا کوئی نزدیکی عزیز بروقت نہ پہنچا تو پروین کو لحد میں کیسے اتارا جائے گا۔۔۔ مجھے مکمل تفصیل تو یاد نہیں رہی کہ اس کے بھائی کب پہنچے لیکن یہ یاد ہے کہ کسی نے سفید کفن میں لپٹی پروین شاکر کو افتخار عارف کے بڑھے ہوئے ہاتھوں میں دے دیا۔۔۔ افتخار اُسے تھامے ہوئے قبر میں اترنے کو تھے کہ یکدم اُن کا رنگ زرد پڑ گیا، ہاتھ لرزنے لگے۔۔۔ شاید انہیں انجائنا کا درد شروع ہو گیا تھا، انہوں نے یکدم مجھ سے کہا ’’تارڑ ، پروین کو سنبھال لو۔۔۔‘‘ میں نے بازو واکیے اور پروین کے جسد خاکی کو تھام لیا۔۔۔ اور تب میں زندگی کے ایک ناقابل بیان تجربے سے دو چار ہوا جس کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں تو سناٹے میں آجاتا ہوں۔۔۔ پروین دھان پان سی لڑکی تھی، موت کے باوجود وہ بہت بھاری نہ تھی، میں جان بوجھ کر اُس جانب نہ دیکھتا تھا جدھر اُس کا چہرہ کفن میں بندھا تھا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے دائیں ہاتھ کی اُنگلیاں کفن میں روپوش پروین کی مردہ اُنگلیوں پر ہیں، اُنہیں چھو رہی ہیں، انہیں تھام رکھا ہے۔۔۔ میں اُن کی بناوٹ محسوس کر رہا تھا اور اُس لمحے مجھے خیال آیا کہ یہ پروین کا لکھنے والا ہاتھ ہے۔۔۔ انہی اُنگلیوں سے اُس نے وہ سب شعر لکھے جو ایک ز مانے کے دل پسند ہوئے، ایک داستان ہوئے۔ اور پھر مجھے وہ شعر یاد آیا جو ایک خاتون نے لکھ کر مجھے رسوا اور شرمندہ کر دیا تھا، وہ شعر بھی تو انہی انگلیوں نے لکھا تھا۔ اور آج میں انہیں بے جان حالت میں اپنی انگلیوں سے تهامے ہوئے ہوں۔ یہ کیفیت، یہ حالت ناقابل بیان تهی اسی اثنا میں پروین کے ایک بهائی پہنچ گئے
اردو لکهنے اور پڑهنے والے اس چنچل شوخ شاعری کی ترجماں پروجن شاکر کو کبهی بهی اپنے احساسات اور الفاظ سے جدا نہیں کر سکیں گے وہ ہمیشہ اک خوبصورت اور جواں شاعرہ رہے گی

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply