پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں جتنے نشیب و فراز دیکھنے کو ملتے ہیں شاید ہی کسی اور ملک یا ریاست نے اتنے عرصے میں ایسے حالات و واقعات کا سامنا کیا ہوگا، اور بلاشبہ ان تمام تر حالات کے ذمہ دار بہت سے عناصر رہے ہوں گے، پاکستان میں سیاسی شعور اور اعلیٰ پائے کے قائدین کا فقدان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات سے لے کر آج تک موجود ہے، اس ملک پر بجا طور پر اشرافیہ کی حکمرانی رہی ہے، معیشت چند خاندانوں کے گھر کی باندی پہلے بھی تھی اور آج 2020ء میں بھی ہے۔
عام آدمی کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں، ہر بار عام لوگوں کو جھوٹے وعدے اور کبھی نہ پورے ہونے والے خواب دکھا کر ان سے ووٹ لے لیا جاتے ہے، اور پھر یہی حکمران ایوان اقتدار میں بیٹھ کر اسی عوام کی بینڈ بجانے لگ جاتے ہیں، پہلے تو عام اور غریب آدمی اس قابل ہی نہیں رہتا کہ وہ انتخابات میں حصہ لے کر اسمبلی تک پہنچ پائے، لیکن اگر کوئی متوسط طبقے کا نمائندہ اسمبلی میں پہنچ ہی گیا تو وہاں کے عیش و آرام اور چکاچوند میں ایسا گم ہوا کہ وہ بجائے عوام کے حقوق کی لڑائی لڑنے کے اپنے میعارِ زندگی کو بہتر بنانے کے چکر میں ایسا پڑا کہ سال میں چند ہی دن اپنے حلقے میں تشریف آوری فرمانے کا احسان کیا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ہمیشہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں اقتدار رہا کہ جن کو عوام کے دکھ اور تکالیف کا اندازہ بھی نہیں ہے، بارہا جب میڈیا نمائندوں نے عوامی منتخب نمائندگان سے آٹے دال کے بھاؤ کی بابت سوال کیا تو ا ن کے جوابات ہمیشہ سے مضحکہ خیز رہے، تو ایسے میں ان سے عوامی بھلائی کی امید رکھنا بے سود ہے
پاکستان میں قانون کی عملداری صرف اور صرف کمزور طبقے پر رہی ہے، امراء تو قانون کو اپنی باندی کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں، معاشرے کے بگاڑ کا بدترین سبب انصاف کی عدم موجودگی ہے، ویسے تو متوسط اور غریب طبقہ دن بدن معاشی طور پر اس قدر دباؤ کا شکار ہے کہ اس کے اثرات مہلک ہو سکتے ہیں، لیکن پاکستان کے کچھ علاقوں کی محرومیاں روز اول سے آج تک ویسی کی ویسی ہیں بلکہ ان کی محرومیوں میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوا ہے جنوبی پنجاب اور بلوچستان سب سے زیادہ محرومی کا شکار رہے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف نے 2018 کے جنرل الیکشن میں جنوبی پنجاب کے عوام سے الگ صوبے کا وعدہ اور ساتھ ہی اس علاقے کی عوام کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کا لالچ دے کر یہاں سے تاریخی فتح حاصل کی، اسی کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب نے عثمان بزدار صاحب کو وزیراعلیٰ پنجاب بنایا، کہ وہ پنجاب کے پسماندہ ترین علاقے سے منتخب ہو کر آئے ہیں۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے اقتدار میں آنے سے جنوبی پنجاب کے بسنے والوں میں امید جاگی کہ اب جنوبی پنجاب کی حالت میں سدھار ضرور آئے گا، مگر ان کو اقتدار ملے تقریباً دوسال ہوئے، محترم وزیراعلیٰ نے اپنے حلقے میں تو ترقیاتی کاموں پر بہت زور دیا ہے مگر انہوں نے بھی شہباز شریف کی طرح باقی جنوبی پنجاب کو مکمل نظر انداز کردیا، بلکہ عثمان بزدار صاحب نے اپنے حلقے کی بہتری کے لئیے ہمسایہ اضلاع سے انسانی وسائل کے ساتھ دیگر وسائل کا رخ بھی تونسہ شریف کی طرف موڑ دیا، اب تک وزیراعلیٰ پنجاب نے بہت سے جنوبی پنجاب کے اضلاع کا دورہ تک نہیں کیا، ایم ایم روڈ جو کہ واقعتاً قاتل روڈ ہے وہاں پر آئے روز حادثات میں قیمتی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔
جنوبی پنجاب میں نشتر کے علاوہ کوئی ایک بھی بڑا ہسپتال موجود نہیں ہے، جنوبی پنجاب کی عوام کے نصیب میں دو جامعات، 3 میڈیکل کالجز ہیں جو کہ یہاں کے ذہین طلباء و طالبات کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، جنوبی پنجاب میں محکمہ شاہرات نہ ہونے کے برابر ہے، روڈ نیٹ ورک مکمل طور پر تباہی کا شکار ہیں، خدارا ارباب اختیار جنوبی پنجاب پر رحم فرمائیں، کیا جنوبی پنجاب کی عوام اچھی صحت، اعلیٰ میعار کی تعلیم، بہتر زرائع آمد کی بنیادی سہولیات کی حقدار نہیں ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب کو چاہیے کہ پورے جنوبی پنجاب کی ترقی کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرکے جنگی بنیادوں پر اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، یہاں کے تمام بنیادی مسائل کو حل کریں، کیونکہ آپ اسی علاقے کے باسی ہیں، آپ سے امیدیں وابستہ ہیں ﷲ نے آپ کو اقتدار دیا ہے تو اپنے علاقے کی محرومیوں کا ازالہ فرمائیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں