غدار۔۔کرشن چندر/تبصرہ :آر ایس ظفر

تقسیم ِ ہند کے تناظر میں كئی ناول لکھے گئے ہیں ۔۔جہاں آگ کا دریا،اداس نسلیں، خاک اور خون، عشق کا شین اور پنجر جیسے ناولوں میں ہجرت سے متعلق مسلمانوں کو درپیش مشکلات اور ان کی قربانیوں کا ذکر کیا گیا ہے وہاں کرشن چندر نے اس روایت سے غداری کرتے ہوئے اپنا ناول “غدار” پیش کیا ۔۔ اور اپنے ناول میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی تکلیفات، مصائب اور قربانیوں کو بھی واضح کیا ۔ آج تک ہماری گفتگو کا مرکز صرف مسلمانوں کو پیش آنے والی مشکلات ہی رہیں لیکن کرشن چندر کا یہ ناول ہمیں تصویر کا دوسرا رخ بھی دکھاتا ہے ۔

کرشن چندر کا شمار اردو کے نامور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے ۔آپ کی پیدائش 23 نومبر 1914ء کو وزیر آباد ضلع گجرانوالہ، پنجاب میں ہوئی ۔۔ آپ نے انگریزی میں ایم اے کیا ۔ بعد ازاں قانون کی تعلیم بھی حاصل کی ۔ آپ کی تعلیم کا آغاز چونکہ اردو اور فارسی سے ہوا تھا ،اسی وجہ سے اردو پر آپ کی گرفت کافی اچھی تھی ۔۔

آپ کے ناول ” غدار” کا ایک ایک لفظ کرب میں ڈوبا ہوا ہے ۔۔ اس ناول کا مرکزی خیال بھی تقسیم ہند اور ہجرت ہے ۔”وطنیت بھی مذہب سے مشروط ہوتی ہے” ۔یہ وہ جملہ ہے جو اس ناول کے مرکزی خیال کو واضح کرتا ہے ۔۔ ہجرت کرنے والے چاہے مسلمان تھے، ہندو یا سکھ ، تقسیم کے وقت ہر ایک پر زمین تنگ کر دی گئی تھی ۔ جہاں ہندوستان میں مسلمانوں کو غیر قرار دے دیا گیا تھا  وہیں پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کے لئے بھی اس زمین اور لوگوں کے دلوں میں کوئی جگہ باقی نہیں رہی تھی ۔ یہ تقسیم ہوئی تو ملکوں کی تھی لیکن ایک ساتھ رہنے اور بسنے والوں کے دلوں میں نفرت کے بیج بو گئی تھی ۔

ناول کے مرکزی کردار کا نام “بیج ناتھ” تھا ۔ جو شادی شدہ اور بال بچوں والا ہونے کے باوجود ایک مسلمان لڑکی ” شاداں” کی محبت میں گرفتار تھا لیکن تقسیم نے ان دونوں کو بھی دور کر دیا ۔ شاداں کا کردار بیج ناتھ کو لاہور  سٹیشن پہنچانے کے بعد ختم ہو گیا ۔

لاہور میں بیج ناتھ کے کاروباری دوست جن میں قابل ذکر حاجی اور میاں تھے ۔ جب مصیبت پڑی تو جہاں حاجی جیسا دوست پیٹھ دکھا گیا ۔ وہیں میاں جیسے دوست نے خود کو مصیبت میں ڈال کر حق دوستی نبھایا ۔۔اپنے بچوں کو مسلمان غنڈوں کے جتھے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا لیکن اپنے ہندو دوست پر آنچ نہ آنے دی ۔

بیج ناتھ کے دادا اور خاندان کو اپنی زمین کے زعم اور مزارعوں پر بھروسے   نے مار ڈالا ۔ کہانی اور حالات دونوں طرف ایک سے تھے ۔۔
جہاں ہندؤوں اور سکھوں کے سر میں خون بہانے کا جنون سمایا تھا وہیں مسلمان بھی اپنی تعلیمات بھول گئے تھے ۔ خون نہ تو مسلمانوں کا ارزاں تھا نہ ہندوؤں اور سکھوں کا ۔۔ لیکن قتل عام اور لوٹ مار دونوں طرف ہوئی ۔ ہم قیام پاکستان اور مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے ظلم کی داستانیں تو ہمیشہ سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں ، لیکن کرشن چندر نے تقسیمِ ہند کے وقت مسلم اکثریتی علاقوں میں اقلیتوں کے ساتھ ہونےوالے ناروا سلوک کی بھرپور عکاسی کی ہے   اور انتہائی تکلیف دہ واقعات کو سیدھے سادے انداز اور آسان زبان میں بیان کیا ہے ۔

“ہوا میں برچھے چمکے اور بڈھے مسلمان کا جسم چار ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔۔ مرنے والے کی زبان پر آخری نام خدا کا تھا، اور مارنے والے کی زبان پر خدا کا نام تھا ۔۔ اور اگر مرنے اور مارنے والوں کے اوپر، بہت دور اوپر کوئی خدا تھا تو بلاشبہ بے حد ستم ظریف تھا”۔

ناول میں جہاں ایک کردار پاروتی کا تھا جو اپنی محبت اور مقتول امتیاز کی خاطر پاکستان جا رہی تھی ۔۔ جہاں اس نے امتیاز کی ماں کے ساتھ ایک بیوہ بن کر زندگی گزارنا تھی ، وہیں بیج ناتھ لاشوں کےڈھیر سے ایک مسلمان بچے کو اٹھا کر بچا لیتا ہے ۔۔ امید کی شمع بجھی نہیں تھی ۔۔

“پھیلتی ہوئی تاریکی میں بھاگتی ہوئی روشنی کو دانتوں سے پکڑ پکڑ کر زندہ رکھنا ہو گا ۔۔تاریکی کے گرتے ہوئے ملبے میں سے روشنی کی کرن کو ناخنوں سے کرید کرید کر نکالنا ہو گا اور اسے اپنے سینے سے چمٹا کر حرزِ جاں بنانا ہو گا”۔

ناول میں ایک اہم کردار بیج ناتھ کی کتیا کا بھی ہے ۔ جو ہجرت کے وقت بیج ناتھ کی دھتکار اور پھٹکار کے باوجود آخری دم تک اس کے ساتھ رہی ۔۔ بیج ناتھ کے کتیا کو کہے گئے جملے نہایت جاندار اور توجہ طلب ہیں ۔۔

“تو کتیا ہے تجھے کوئی ڈر نہیں ۔۔ تو انسان تھوڑی ہے کہ تجھے اپنی جان کا ڈر ہو ۔یہ تو سب تہذیب کی باتیں ہیں ۔ اونچے مذہب اور اخلاق کے جھگڑے ہیں ۔ یہ تلوار تو بہت بلند اصولوں کی حمایت میں نکلی ہے ۔۔ شکر کر کہ تیرا گلا اس سے کاٹا نہ جائے گا ۔ شکر کر تو غیر مہذب ہے، جاہل اور بے اخلاق ہے ۔ شکر کر کہ تجھے یہ نہیں معلوم مذہب کیا ہے ۔ تو نے کبھی سندھیا نہیں کی ۔ کبھی پانچ وقت نماز نہیں پڑھی ۔ تو کبھی کسی گرجے، مندر، مسجد نہیں گئی ۔ تو نے کبھی آزادی کا مفہوم نہیں سمجھا ۔ کبھی کسی سیاسی لیڈر کی تقریر نہیں سنی ۔ شکر کر کہ تو کتیا ہے ۔۔ انسان نہیں ہے”۔

جب دریا پار جانے کے لئے بیج ناتھ دریا میں چھلانگ لگاتا ہے تو کتیا بھی ساتھ ہی چھلانگ لگا دیتی ہے اور ڈوب جاتی ہے ۔۔ اس وقت کرشن چندر لکھتے ہیں کہ

“دنیا سے ایک باب اٹھ گیا ایک نسل اُٹھ گئی، ایک خاندان اٹھ گیا، جس کو صرف پیار کرنا سکھایا گیا ہے”۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اردو ادب اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کو یہ ناول ضرور پسند آئے گا ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply